نواز شریف کا معافی نامہ - شرم ان کو مگر کہاں آتی ہے

آج الحمداللہ ثابت ہو گیا کہ نواز شریف جو پوری قوم سے جھوٹ بول رہے تھے کہ میں نے کوئی وعدہ نہیں کیا اور اگر کیا ہے تو اسے کسی عدالت میں پیش کیا جائے۔ آج اللہ تعالی نے نام نہاد آزاد عدلیہ کے سامنے نواز شریف صاحب کو کٹھرے میں لاکھڑا کیا ہے اور آج تازہ ترین خبروں کے مطابق نواز شریف صاحب انتہائی برہم ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اس بدترین جمہوری حکومت سے اچھے تو ان کے منتخب کردہ سابق چیف آف آرمی اسٹاف (صدر جنرل مشرف ) ہی تھے جو دیوار کے ساتھ (جمہوری طاقتوں کے ہاتھوں) لگادینے کے باوجود معاہدے کو کسی عدالت میں پیش نہیں کرنا چاہتے تھے اور یہ جمہوری حکومت میں کیا ہو رہا ہے کہ ایک چھوٹا بھائی (زرداری صاحب) اپنے بڑے بھائی (میاں صاحب) کے خلاف عدالت (پس پردہ) میں ثبوت پیش کرنے جارہے ہیں۔
اور بالاخر جھوٹ کا پردہ چاک ہوا اور طیارہ سازش کیس کے نامزد مجرم (جو معافی کے بعد کوئی پاک صاف نہیں ہو گئے تھے) میاں نواز شریف صاحب کو دی گئی معافی اور حکومت کے ساتھ معاہدے کی دستاویزات سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئیں۔ جس پر نواز شریف کی جانب سے حکومت کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے کی نقول بھی عدالت میں پیش کی گئی ہے۔ (جسے ان کے چیلے چانٹے جھوٹا ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور کیونکہ عدلیہ بحالی کے ہیرو میاں صاحب ہی ہیں اس لیے عدالتی ریلیف کی امید بھی کی جارہی ہے) اور ڈنڈے کے ڈر اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہ کرسکتے والوں نے ایک آمر مشرف کے ساتھ ہونے والے خفیہ معاہدے میں اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ 10سال تک ملک میں واپس نہیں آئیں گے۔ کسی سیاسی اور دوسری سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ایک محترم بھائی عبداللہ نے تو بغیر کسی لگی لپٹی کے حق بات بالکل صحیح انداز سے پیش کردی جو کہ ہمارے ملک کے صحافی حضرات اور مختلف چینلز والے اپنی اپنی مجبوریوں (کوئی مالی کوئی بلیک میلنگ اور کوئی سیاسی وجہ) کی وجہ سے نہیں بتا پا رہے۔ آپ کو اس جرآت پر سلام بھائی۔
واقعی حکمرانوں کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی قومی مجرم کو معافی دے سکیں، مگر کیا کریں ہمارے ملک کے آئین نے صدر کو اس بات کا اختیار دے رکھا ہے (ہماری ناقص معلومات کے مطابق ) کہ وہ کسی بھی مجرم (سزائے موت تک) کی سزا معاف یا اس میں تخفیف کر سکتا ہے اور ویسے جو سزا معاف ہوئی تھی وہ نواز شریف صاحب کی کمپنی کے مینجر جنہیں نواز شریف صاحب نے کسی بات پر خوش ہو کر اس بدنصیب قوم کے صدر کے طور پر منتخب کروادیا تھا یعنی جناب محترم قبلہ بڑے حکیم رفیق تارڈ صاحب مدظلہ علیہ نے اپنی اتفاق فائنڈری کے مالک و مختار جناب محترم نواز شریف صاحب کو معافی دی تھی وگرنہ قوم دیکھ لیتی اب تک کہ پلے پلائے شیروں کا نو دس سال جیل میں رہ کر کیا حشر ہونا تھا۔
جی ہاں پرانا صدر ایک فوجی آمر تھا اس سے پرانا اتفاق فائنڈری کا ایک مینیجر ٹائپ اس سے پہلا ایک پارٹی کی طرف سے نامزد (فاروق لغاری ) اور اپنی ہی پارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والا اور ظاہر ہے کس کی وجہ سے، اسی کی وجہ سے جو بعد ازاں اپنی کمپنی چھوڑ کر ملک کے وزیر اعطم بن بیٹھے اور امیر المومنین بننے کے خواب دیکھ رھے تھے۔ این آر او ایک آرڈینس تھا جو اسمبلی سے ختم ہو جانا چاہیے تھا یا زندہ ہیں وکلا زندہ ہیں اور عدلیہ بھی آزاد ہے اب کیا قباحت ہے وجہ معلوم نہیں۔
مجرموں کو کون گورنر بناتا ہے۔ الزام کو جرم قرار دینا ہمارے کچھھ مہربانوں کے لیے بڑا آسان ہے الزام لگانے والوں کے لیے عدلیہ اور وہ بھی آزاد عدلیہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اب تو عدلیہ پوری پی ایس او نہیں ہے کیوں غیرت نہیں آتی آزاد عدلیہ کو کہ نظام صحیح کرنے کے لیے وہ کرے جس کا معزولی کی صورت میں وعدہ اور دعوی کر رہی تھی۔
اور عدلیہ کو چاہیے کہ یہ بھی دیکھے کہ ملک کے بدترین حالات رکھنے والے صوبہ سرحد میں جو ہو رہا ہے اس کے حقائق جاننے کے لیے ان نام نہاد مذہبی ٹولوں کے منافقوں کو گرفتار کرے اور ان سے تحقیقات کری جائیں کہ بھلا آمریت کے مشرف دور میں کیسے سرحد حکومت نے اپنی معیاد پوری کی اور جو گھناونے منشیات کے کاروبار اور اسلحہ کی تجارت اور اسمگلنگ اور امریکہ کے مفادات صوبہ سرحد کی زریعے پورے ہوئے اس وقت صوبہ سرحد پر ملائوں کی حکومت تھی یعنی ایم ایم اے جنہیں عرف عام میں ملا ملٹری الائنس کہا جاتا ہے یہ سیاسی ملا بھی برابر کے شریک ہیں اور جو جہاد کے نام پر ظلم ملائوں نے مسلمانوں پر کیا ہے اس پر قوم تو انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔
اور جس طرح خون کی ندیاں اب بہہ رہی ہیں صوبہ سرحد (کراچیی کے متعلق بہت سے لوگوں کی بڑی خواہش ہے کہ یہاں بھی ایسا کچھھ ہو ہی جائے جس پر کراچی اور سندھ کی سیاست سے نکال دیے گئے اور مسترد کردیے گئے ٹولے اور جماعتی خوشیاں مناسکیں جو ظاہر ہے لاشوں پر سیاست کرنا چاہتے ہیں مگر اللہ نے چاہا تو کراچی میں جو خونریزی کی خواہش اور منصوبہ بندی کرنے والے لوگ ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہوں اللہ ان کی خواہش پوری نا کرے اور ان کو ہدایت وگرنہ بربادی نصیب فرمائے ) میں وہ سب نتیجہ ہیں آج سے ڈیڑھ سال پہلے ایم ایم اے کی حکومت کا۔ جنہوں نے مشرف کو وردی میں رہنے کے لیے ووٹ ڈالا ایل ایف او پر شور کرنے والے اور حدود آرڈیننس پر شور کرنے والے اور لال مسجد کے اندوہناک واقعے پر اے پی سی کے نام پر برطانیہ میں نواز شریف کے عوام کی لوٹی دولت پر عیش کرنے والے جب لال مسجد کا واقعہ ختم ہوا جب واپس آئے لعنت بھیجیں جی اے پی سی اور چارٹر آف ڈیموکریسی جسے چارٹر آف ھیپوکریسی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔
لوگوں کو ایک ہی سرکاری ملازم (شائد مشرف) نظر آتا ہے وہ نظر نہیں آتے (حمید گل) جس نے کہا تھا کہ ہاں میں نے نو ستاروں کی اتحادی پارٹی بنائی تھی جس میں ملا، میاں صاحب، جماعتی اور دوسرے ٹولے شامل تھے اور جنہیں سرکاری خفیہ اکائنٹس سے بے تحاشہ پیسہ دیا گیا (عمران خان تو کرکٹ میں خلیفہ گیری کرتے تھے ان دنوں یا پھر پلے بوائے ہونے کی حیثیت سے رنگ رلیوں یا کہہ لیں اس وقت روشن خیال تھے) اور چونکہ اس وقت حمید گل صاحب اور امریکہ کا ہنی مون پیریڈ تھا اس لیے وہ خوش و خرم تھے اور جب امریکی دھکا (جو بحرحال پڑ کر رہا ہے ) لگا تو چیختے پھرتے ہیں چلے ہوئے دوسرے کارتوسوں کی طرح۔ اور وہ نظر نہیں آتا(ضیا الحق) جس نے ان ملائوں کو سر پر چڑھایا (بات پکڑنے والوں کو پھر جتا دیتا ہوں کہ علمائے حق ہمارے سر آنکھوں پر ) جنہوں نے جہاد کے نام پر ڈالروں کی بوریاں سمیٹیں اور کوئی ڈیزل اور کوئی پرمٹ اور کوئی کچھھ اور کوئی کچھ لے کر اپنے بچوں کو تو امریکہ اور یورپ کے اعلی اداروں میں تعلیم کے لیے بھیجا اور ملک و قوم کے غریب سیدھے سادھے عوام کے بچوں کو جہاد کے نام پر بھرتی کر کے ان کو جہاد کے نام پر جنگ میں جھونک دیا اور خود واسکٹیں اور امامے باندھ کر پارسا بنے پھرتے ہیں۔
ویسے ایک منتخب وزیراعظم کو کس نے اختیار دیا تھا کہ وہ ملک کے چیف آف آرمی اسٹاف کو اس طرح بغیر کسی تحقیق اور انکوائری کے برطرف کر دے جس طرح کیا گیا تھا (ترقی دینا حق ہوتا ہے حکمران کا مگر تنزلی اور برطرفی کے لیے ثبوت دینے پڑتے ہیں ترقی بھی کسی ثبوت کی بنا پر دی ہوگی) اور جس کے نتیجے میں ان دو تہائی اکثریت کے دعوے دار وزیراعظم صاحب کو جہاز کی سیٹوں کے ساتھ باندھ کر جیل میں ڈال دیا گیا جس سے ساری اکڑ فوں نکل گئی۔
اگر مشرف نے مسٹر افتخار چوہدری کو غلط ہٹایا تھا تو وزیراعظم نے مسٹر مشرف کو جو ہٹایا تھا وہ کیسے صحیح ہٹایا تھا۔ اور کس نے اختیار دیا تھا ملک کے منتخب وزیراعظم کو کہ اپنی چند روزہ قید و بند کی صعوبتوں سے ڈر کر معاہدے کر کے اور توبہ تلہ کر کے ملک سے بھاگ کھڑا ہو۔ شرم ہمارے سیاستدانوں کو اگر آجائے تو ملک تو جنت ہے ہمارا۔ مگر ٹہریے ملک سے پہلے عسکریت پسند اور جاہل ملا کو جب تک ختم نہیں کیا جاتا ملک میں خطرات منڈلاتے رہیں گے۔ جمہوریت آئی اور ایک آمر کو اقتدار چھوڑنا پڑا وہ ملک پر قابض بیٹھا نہیں رہ گیا۔ واقعی ہمارے ایک محترم دوست نے صحیح کہا کہ قوم کو بہت سے سوالوں کے جواب کی تلاش ہے اور اللہ نے چاہا تو جواب بھی مل ہی جائیں گے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532722 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.