سب کمائی کے چکر میں اور صدقہ فطر ، زکوٰۃ کے اصلی مستحق

رمضان المبارک کے باربرکت مہینہ کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس ماہ مبارک میں نیکیوں کا اجر بڑھا دیا جاتاہے۔ ایک فرض ستر فرضوں اور ایک نفل ایک فرض کے برابر ہوجاتی ہے۔ اس ماہ مبارک ہر ایک کمائی کے چکر میں سرگرداں رہتا ہے۔ تاہم ہر ایک کی کمائی کا زاویہ ایک نہیں ہوتا۔کوئی نیکیاں کمانے کی لگن میں ہوتا ہے تو کوئی دنیا کمانے کی دھن میں مگن ہوتاہے۔ اﷲ پاک کے نیک بندے نوافل، تلاوت قرآن پاک، وظائف صدقہ خیرات اور دیگر عبادات کے ذریعے اﷲ پاک کو راضی کرنے کی سعی کررہے ہوتے ہیں۔ جب کہ دنیا دار زیادہ زیادہ سے کرنسی اکٹھی کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں غریب، یتیم بے سہارا افراد کی امداد کرنے والے بھی میدان میں آجاتے ہیں۔ اور ان غریب اور بے سہارا افراد کودونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے بھی کمر کس لیتے ہیں۔ جوں ہی رمضان المبارک کا آغاز ہونے میں ایک ماہ باقی ہوتا ہے۔ تو عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ رمضان المبارک شروع ہونے تک ان چیزوں میں بے تحاشا اضافہ ہوجاتاہے۔ حکومت کے متعلقہ ادارے پھر میدان میں آجاتے ہیں۔ وہ پرچون فروشوں کو ہی قیمتیں کم کرنے کا درس دے رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تھوک ریٹ کیا تھا۔ یہ سبزی سبزی منڈی سے کس قیمت پر لے کر آئے ہو۔ اس غریب سبزی فروش کو ایک ہی ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ یہ سبزی اس ریٹ پر ہی فروخت کرے۔ چاہے وہ اس سے زیادہ قیمت پر ہی کیوں نہ لے کر آیا ہو۔ قیمتوں پر کنٹرول کرنے کا یہ طریقہ غلط ہے کہ صرف پرچون فروش کو ہی تنگ کیا جائے۔ اور پرچون ریٹ ہی مقرر کیا جائے۔ قیمتوں پر کنٹرول کرنے کیلئے ضروری ہے کہ تھوک کے ریٹ بھی مقرر کیے جائیں۔ یہ ریٹ سو کلوگرام، پچاس کلو گرام، چالیس کلو گرام، دس کلو گرام اور پانچ کلو گرام کے مقرر کیے جائیں۔ کسی بھی شہر کی سبزی اور فروٹ منڈی میں چلے جائیں۔ وہاں ہر دکانداز، ہر آڑھتی، ہر کمیشن ایجنٹ عوام کو لوٹنے میں مکمل آزاد ہوتا ہے۔ اس پر نہ تو پرائس ایکٹ لاگو ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اور ضابطہ۔ وہ چاہے تو آلو پچاس روپے فی پانچ کلو گرام فروخت کرے اور چاہے تو وہی آلو تین سوروپے فی پانچ کلوگرام فروخت کرے۔ یہ اس کی اپنی صوابدید پرہے۔ اسی طرح فروٹ کی بات کریں چاہے سبزی فروٹ منڈی میں چاہے تو ایک آڑھتی ایک کریٹ تین سو روپے میں فروخت کرے اور چاہے تو ایک ہزار روپے میں بیچے۔ یہ بھی اس کی اپنی صوابدید پر ہے۔ اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ منڈی میں آڑھتی سبزی اور فروٹ چاہے جس قیمت پر بھی فروخت کرے۔ اس پرنہ تو پرائس ایکٹ لاگو ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اور ضابطہ۔ ریٹ کنٹرول کرنے کے تمام آئین وقوانین صرف اور صرف پرچون فروش کیلئے ہیں۔ مسلمان عید کیلئے نئے کپڑے خریدتے ہیں۔ اور رمضان المبارک میں پہننے کیلئے بھی نئے کپڑے خریدے جاتے ہیں۔ ان کا بھی کوئی ریٹ مقرر نہیں ہوتا۔ چاہے تو کوئی کسی بھی قیمت پر فروخت کرے۔ کوئی بھی ان کلاتھ ہاؤس والوں سے پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ہر دکاندار کا اپنا ریٹ ہوتا ہے۔ اگر کوئی گاہک کہہ دے کہ یہی کپڑا فلاں دکان پر تو اس قیمت پر مل رہا ہے تو پہلا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ وہاں سے جاکر لے لو۔ ایک اور جواب یہ بھی دیا جاتا ہے کہ کوالٹی میں فرق ہوتا ہے۔ درزیوں نے بھی اپنے اپنے ریٹ مقرر کرکھے ہیں۔ ہر درزی کا اپنا الگ ریٹ ہے۔ چاہے تو وہ پانچ سوروپے ایک سوٹ کے لے۔ چاہے تو اس سے زیادہ۔ مقابلہ کا رجحان ہے۔ ہر کوئی اس کوشش میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ سیزن کمالے۔ زیادہ سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کرلے۔ بازاروں میں کپڑے کے علاوہ بھی تمام اشیاء کی قیمتوں کی وصولی میں دکاندار خود مختیار ہوتا ہے۔ ان میں سے کسی پر پرائس ایکٹ لاگو نہیں ہوتا۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سبزی فروٹ اور کریانہ کے سامان کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک اور عیدالفطر کیلئے خرید کی جانے والی تمام چیزوں کے ان کے معیار کے مطابق ریٹ مقرر کرے۔ اور ہر دکان پر ریٹ لسٹ نمایاں جگہ آویزاں کرائی جائے۔ ایک ہی کوالٹی کا کپڑا تما م کلاتھ ہاؤسز پر ایک ہی ریٹ پر فروخت ہونا چاہیے۔ تھوک اور پرچون ریٹ الگ الگ مقرر کیے جائیں۔ کچھ تھوک فروش تھوک وپرچون ایک ہی ریٹ پر فروخت کرتے ہیں۔ اس سے بھی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک طبقہ تو یہ تھاجو اس ماہ مبارک میں عوام کی جیبیں خالی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ جیسا کہ آپ اس تحریر میں پڑھ آئے ہیں کہ رمضان المبارک میں نیک کاموں کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس لیے صاحب استطاعت مسلمان زیادہ سے زیادہ صدقہ خیرات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کما سکیں اور زیادہ سے زیادہ مستحق افراد کی ا مداد کر سکیں۔ صدقہ فطر ہو یا چرمہائے قربانی۔ ان کے وصول کرنے والے بھی بہت سے میدان میں آجاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک یہی باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ صدقہ فطر ہو یا چرمہائے قربانی اس کا سب سے زیادہ مستحق وہی ہے اور کوئی نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس نے فری ہسپتال بنا رکھا ہے وہاں مستحق مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ وہاں ان مریضوں کو ادویات بھی فری دی جاتی ہیں۔ آپ چرمہائے قربانی یا صدقہ فطر غریب اور نادار مریضوں کو (ہمیں) دیں۔ یہ بتایا بھی جاتا ہے کہ مستحق مریضوں کو دینا جائز ہے۔ آپ کے دیے ہوئے صدقہ فطر یا چرمہائے قربانی اور زکوٰۃ سے ہمارے ہسپتال میں غریب اور نادار مریضوں کا مفت علاج کیا جائے گا۔ وہ مریض آپ کو بھی دعائیں دیں گے۔ کوئی کہتاہے کہ اس نے ایک تنظیم بنا رکھی ہے۔ ہم بیوہ خواتین کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ان کیلئے ضروریات زندگی کا انتظام ہماری تنظیم کرتی ہے۔ عورت جب بیوہ ہوجاتی ہے تو اس کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ شوہر کے فوت ہوجانے کے بعد وہ بے سہارا ہوجاتی ہے۔ رشتہ دار بھی اس پر توجہ نہیں دیتے۔ صدقہ خیرات اور چرمہائے قربانی بیوہ خواتین کو دیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے آپ اپنا صدقہ فطر یا چرمہائے قربانی اور زکوٰۃ ان بیوہ خواتین کو (ہمیں ) دیں۔ یہی آپ کے صدقہ خیرات اور چرمہائے قربانی کا موزوں مصرف ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس نے ایک ادارہ کھول رکھا ہے ۔ وہاں بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ غریب اور ناداربچوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے۔ اس میں بچوں سے کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ اساتذہ کو تنخواہ بھی دینی ہوتی ہے۔ بجلی کابل ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اخراجات ہیں۔ یہ سب مخیر حضرات کے تعاون سے پورے کیے جاتے ہیں۔ اس لیے آپ کے صدقہ فطر اور زکوٰۃ کا موزوں مصرف ہمارا ادارہ ہے۔ ہمارے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے آپ کے صدقہ فطر کے زیادہ مستحق ہیں۔ کوئی یہ کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ وہ ایک تنظیم میں کام کرتا ہے کہ اس تنظیم نے ایک ادارہ بنا رکھا ہے وہاں یتیم اور بے سہارا بچوں کی پرورش کی جاتی ہے۔ ان بچوں کی پرورش بھی کی جاتی ہے۔ ان کی اچھی تربیت کا اہتمام بھی موجود ہے۔ ان کی تعلیم کا بھی انتظام ہے۔ بچوں کی دلچسپی کی تمام چیزیں اس ادارہ میں موجود ہیں۔ اس ادارہ کے سالانہ اخراجات کروڑوں روپے ہیں۔ جو مخیر حضرات کے تعاون سے پورے کیے جاتے ہیں۔ آپ کی زکوٰۃ ، خیرات، صدقات اور صدقہ فطر کے سب سے زیادہ مستحق یہ یتیم بچے ہیں۔ اس لیے اپنی زکوٰۃ اور صدقہ فطر ان یتیم بچوں اور بچیوں کو دیں۔ ہمارے ادارے کو دیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس نے ایک ادارہ بنایا ہے۔ جس کے پاس ایمبولنس ہیں۔ ان ایمبو لینسز پر غریب نادار اور مستحق مریضوں کو ہسپتال تک فری منتقل کیا جاتا ہے۔ گاڑیوں ان کے فیول اور ڈرائیوروں کے اخراجات برداشت کرنا ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ صدقہ فطر، اور زکوٰۃ ہمیں دیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس نے ایک بڑے مرض کے علاج کیلئے ہسپتال بنایا ہے۔ یہ ایسے مرض کے علاج کیلئے بنایا ہے جس کا علاج مہنگا بھی ہے اور ہر ڈاکٹر یا حکیم نہیں کرسکتا۔ ایک مریض کے علاج پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہسپتال میں اس مرض کے مریضوں کا فری علاج کیا جاتا ہے۔ اتنے مہنگے علاج کیلئے اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں۔ آپ اپنی زکوٰۃ اور صدقہ فطر ہمارے ہسپتال کو دے کر اس مرض کے غریب اور مستحق مریضوں کی امداد کریں۔ آپ نے یہ ادا تو کرنے ہیں۔ ان مریضوں کو دے دیں۔ خدانخواستہ کبھی زلزلہ یا سیلاب آجائے تو ان کے نام پر مانگنے والے بہت سے میدان میں آجاتے ہیں۔ کوئی سیلاب اور زلزلہ متاثرین کی خوراک کے انتظامات بتاکر صدقہ فطراور چرمہائے قربانی وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی ان کے قیام کا انتظام کرنے کیلئے یہ سب کچھ مانگ رہا ہوتا ہے۔ اگر یہ سیلاب اور زلزلہ نہ بھی ہو تو ان تنظیموں کو آپ کے صدقہ فطر اور زکوٰۃ پر اپنا استحقاق جتانے کے بہت سے طریقے آتے ہیں۔ ملک بھر میں دینی مدارس بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔ تمام دینی مدارس عوام سے کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک مدرسہ کھول رکھا ہے۔ اس مدرسہ میں دو سو طلباء دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان کی رہائش اور خوراک اور دیگر اخراجات مدرسہ برداشت کرتا ہے۔ یہ طلباء دور دور سے یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے اور قرآن پاک حفظ کرنے کیلئے آتے ہیں۔ مدرسہ کے تمام اخراجات اور اساتذہ کی تنخواہیں آپ لوگوں کے تعاون سے پوری کی جاتی ہیں۔ اس لیے آپ اپنی زکوٰۃ اور صدقہ فطر غریب اورنادار اور مسافر طلباء کو دیں۔ اس سے آپ کا فرض بھی ادا ہوجائے گا اور ان طلباء کی امداد بھی ہوجائے گی۔ الغرض رمضان المبارک ہو یا عید قربان ہو۔ عوام سے صدقہ فطر ، زکوٰۃ اور چرمہائے قربانی وصول کرنے کیلئے بہت سی تنظیمیں ادارے اور افراد میدان میں آجاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک یہی باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ پورے ملک کے صدقہ فطر، زکوٰۃ اور چرمہائے قربانی کا مستحق وہ ہے یا جس تنظیم یا ادارہ سے وہ منسلک ہے وہ تنظیم یا ادارہ اس کا مستحق ہے۔ اصل مسئلہ کوئی نہیں بتاتا۔ سب اپنے اپنے مطلب کی بات کرتے ہیں۔ بہت کم ایسے مدارس یا تنظیمیں ہیں جو اس بارے درست مسئلہ بتاتے ہیں۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے شہر کی ایک عید قربان کے موقع پر ایک مولوی صاحب نے نماز عید پڑھائی۔ وہ مولوی صاحب ایک دوسرے شہر میں ایک مدرسہ میں معلم تھے۔ جس محلہ میں اس نے نماز عید پڑھائی اس محلہ کی مسجد کا امام مسجد غریب تھا اور چرمہائے قربانی کا مستحق تھا۔ اس مولوی صاحب نے عید کے اجتماع میں اپنے مدرسہ کیلئے قربانی کی کھالیں مانگیں اور ساتھ ہی یہ فتویٰ بھی صادر کردیا کہ امام مسجد کو قربانی کی کھال نہیں دی جاسکتی۔ حالانکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امام مسجد کو اجرت میں زکوٰۃ ، صدقہ فطر اور قربانی کی کھالیں نہیں دی جاسکتیں۔ تاہم اگر وہ غریب ہے ۔اور مستحق ہے تو پھر اس کو یہ سب کچھ دیا جاسکتاہے۔ اس مولوی صاحب نے اپنے لالچ میں غلط مسئلہ عوام کو بتایا کہ کہیں دو چار قربانی کی کھالیں اس غریب امام مسجد کو نہ مل جائیں۔ اس سب کچھ پر اپنا حق جتلانے والوں میں سے کوئی بھی نہیں بتاتا کہ چرمہائے قربانی ہو صدقہ فطر ہو یا زکوٰۃ ہو ان کا سب سے پہلا مستحق غریب ، یتیم ، مسکین رشتہ دار ہے۔ اگر رشتہ داروں مستحق کوئی نہیں ہے تو پھر محلہ دار یا آپ کے گاؤں میں رہنے والا مستحق شخص ہے۔ یہاں بھی مستحق نہ ملے تو پھر محلہ یا بستی کی مسجد کا امام اگر غریب اورمستحق ہے تو اس کو دیں اگر وہ مستحق نہیں ہے۔ تو پھر کسی دینی مدرسہ میں دیں۔ اب تو زکواۃ اور چرمہائے قربانی کے پیسے کیا کچھ نہیں ہورہا۔ یہ سب کے علم میں ہے۔ ایک ہسپتال کی طرف سے ہر سال اخبارات میں اشتہار شائع ہوتا ہے کہ اپنی زکوٰۃ، صدقہ فطر اورقربانی کی کھالیں ہمیں دیں۔ اشتہار میں بتایا جاتا ہے کہ یہ فری ہسپتال ہے۔ غریب اور نادار افرادکا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ یہ ہسپتال پنجاب کے ایک بڑے شہر میں ہے۔ اس ہسپتال کے بارے میں ہمارے شہر میں مشہور ہے کہ آپ کی جیب میں پانچ لاکھ روپے ہیں تو آپ کو اس ہسپتال میں داخلہ ملے گا ورنہ جہاں چاہیں آپ جاسکتے ہیں اس ہسپتال میں آپ کو داخلہ نہیں ملے گا۔ اس ہسپتال کے بنانے والے اب سرگرم سیاست کررہے ہیں۔ ایک تنظیم جس کے پاس سیلاب آنے سے پہلے دفتر کا کرایہ دینے کیلئے بھی فنڈز نہیں ہوا کرتے تھے۔ 2010ء میں سیلاب آیا تو اس تنظیم نے سیلاب کے متاثرین میں کچھ امدادی سامان تقسیم کیا۔ اور یہ تقسیم بھی ان افراد میں کیا جو ان کی تنظیم سے وابستہ تھے یا جن کی تنظیم کے ممبران سے سفارش کی تھی۔ اس عمل کی انہوں نے خوب تشہیر کی۔ عوام نے ان کا یہ کام دیکھ کر ان کو ریکارڈ قربانی کی کھالیں دیں۔ اس کے علاوہ بھی امداد ہونے لگی۔ اس کے بعد اس تنظیم کے اجلاس مہنگی ، مہنگی ہوٹلوں میں ہونے لگے۔ انہوں نے بڑی بڑی تقاریب بھی منعقد کرائیں۔ ایک پک اپ گاڑی خریدی۔تنظیم کے دفتر کیلئے شہر کے وسط میں دس مرلہ کاپلاٹ خریدا ۔ اس ایک ہال تعمیر کیا۔ اس نے لاہور میں بڑے بڑے جلسے بھی کیے۔ ایک اور سماجی تنظیم جو ملک بھر سے صدقہ خیرات ، زکوٰۃ ، صدقہ فطر اور قربانی کی کھالیں وصول کرتی ہے۔ اس کی ایمبولینس سروس ہے۔ کہنے کو تو یہ فری سروس ہے تاہم اگر کسی مریض کو کسی ہسپتال یا ہسپتال سے اس کے گھر متقل کرنا ہو تو سب سے زیادہ کرائی بھی یہی سروس وصول کرتی ہے۔ اس کی تعریف بھی بہت کی جاتی ہے۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں جس سے معلوم ہوا ہے کہ یہ پیسہ کہاں کہاں استعمال ہوتا ہے۔ حکومت نے ابھی چند تنظیموں پر پابندی عائد کردی ہے کہ وہ صدقہ فطراور زکوٰۃ وصول نہیں کرسکتیں۔ ان تنظیموں کے بارے میں اطلاعات تھیں کہ یہ پیسہ دہشت گردی میں استعمال کرتی ہیں۔ یوں تو اس سب کچھ کے مستحق بہت سے افراد ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس کی آمدنی آج کے دور میں چھ ہزار ماہانہ سے کم ہے وہ بھی اس کا مستحق ہے۔ ہم صدقہ فطر رمضان المبارک کے آخری عشرہ یا عید کے دن ادا کرتے ہیں۔ اگرچہ شرعی طور پر اس کی کوئی پابندی نہیں کہ یہ کب ادا کیا جائے بس یہ ہے کہ عید کی نماز پڑھنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ صدقہ فطر ہو یا زکوٰۃ یہ مستحق افراد میں جتنا جلد ہوسکے۔ادا کردیا جائے۔ اس کا مقصد مستحق افراد کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنا ہوتا ہے۔ ہم نے صدقہ فطر ادا تو کرنا ہے۔ ہم جتنا جلد ادا کریں گے۔ وہ اتنا ہی آسانی سے عید کی خریداری کرسکیں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ صدقہ فطر یا زکوٰۃ اور چرمہائے قربانی کو بیروزگاری ختم کرنے کیلئے استعمال کیا جائے تو یہ سب سے بہترین مصرف ہوگا۔کوئی تنظیم یہ کام کرسکتی ہے۔ عوام سے صدقہ فطر اور زکوٰۃوصول کرکے اور شہر کے بیروزگار افراد کو روزگار پر لگایا جاسکتا ہے۔ اگر ایک بیروزگار کو دس ہزار روپے ہی فی کس دیے جائیں تو ہر شہر میں درجنوں بیروزگار نوجوانوں کو روزگار مل جائے گا۔ وہ چند سالوں میں خود کسی نہ کسی کی امداد کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ ہر شہر کی انجمن تاجران یہ کام آسانی سے کرسکتی ہے۔ اس کو ہی یہ ذمہ داری لے لینی چاہیے۔ آپ چرمہائے قربانی، صدقہ فطر اور زکوٰۃ کے مستحق ہیں وہ عوام کو بتائیں مگر غلط بیانی کرتے ہوئے کسی مستحق کو اس کے حق سے محروم نہ کریں ورنہ یاد رکھیں یہ بھی ایک ڈاکہ ہے۔ڈاکہ ویسے تو لوٹ مار کے سلسلہ میں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ہم نے ان مقدس فرائض و اجبات اور خیرات کی ادائیگی اور وصولی میں بھی لوٹ مار مچا رکھی ہے۔ ہمارا مذہب اسلام غریب یتیم، نادار مسکین افراد کی امداد کرنے ان کی ضروریات زندگی کا خیال کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ ہم ان کو ہی لوٹ لیتے ہیں۔ عید خوشی کا تہوار ہے۔ اس میں سب کو شامل کرنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ ہم قیمتوں میں اضافہ کرکے اور رمضان بازار کے نام پر غیر معیاری ضروریات زندگی فروخت کرکے غریبوں سے خوشیاں چھین لیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ کسی کے پاس چاہے کچھ نہ رہے ہمارے اکاؤنٹ میں لاکھوں روپے کا اضافہ ضرور ہوجائے۔ ہم نے عدالت میں ایک وکیل کے منشی کے طور پر کام کیا ہے۔ سارا سال چائے پانی مانگا جاتا ۔ جب رمضان المبارک آتا تو تب افطاری کا خرچہ مانگا جاتا ۔ہماری معلومات کے مطابق غیر مسلم ممالک میں ان کے تہوار وں کے موقعوں پر ضروریات زندگی کی قیمتیں نصف کردی جاتی ہیں کہ ہر کوئی خریداری کرسکے اور ہم کیسے مسلمان ہیں کہ قیمتیں اور بڑھا دیتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسے کاروباری لوگ جو خود کو دیندار ثابت کرتے رہتے ہیں وہ بھی اس لوٹ مار میں کسی سے پیچھے نہیں ہوتے۔ اس ماہ مبارک میں کمائی تو سب کرتے ہیں۔ کسی کی کمائی بروز قیامت اس کیلئے نجات کا سبب بن جائے گی۔ اور کسی کی کمائی اس کے گلے کا طوق یا اژدھا بن جائے گی۔ اس کو ڈس ڈس کر کہتی رہے گی میں وہ سرمایہ جو جمع کیا کرتا تھا۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 304730 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.