ہالبروک جو پاکستان کے ”وائسرائے“ کی حیثیت میں یہاں وارد ہوئے، پوری حکومت سے
سلامیاں وصول کیں، نصیحتیں کیں، درس دئیے، وعظ کئے اور یک شان بے نیازی سی واپس چلے
گئے۔ حکومتی زعماءکی ان سی کیا بات چیت ہوئی، عوام تو کیا خواص بھی اس سے آگاہ نہیں۔
عوام تو بیچارے ہیں، بے سہارا ہیں، کوئی اہمیت اور وقعت نہیں رکھتے، معلومات تک
رسائی کی کوئی حقوق موجود نہیں کہ یک عام آدمی حکومتی معاملات کو سمجھ ہی نہیں سکتا
تو کیسے حقوق، چہ معنی دارد! لیکن کم از کم حکومتی وزرا، اتحادیوں اور خصوصاً وزیر
اعظم کو تو معلوم ہونا چاہئے کہ اس حکومت کے مائی باپ جو یہاں تشریف لاتے ہیں، ان
سی کیا بات چیت ہوئی، کن کن امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، ہم نے کیا مطالبات کئے ،
ہم سے کیا مطالبات ہوئے اور کن مطالبات کاکیاجواب ملا؟ اس سی پہلے بھی بہت مرتبہ
ایسا ہوچکا ہے کہ امریکی حملے پر پاکستانی حکومت نے احتجاج کیا اور امریکہ سے
مطالبہ کیا کہ پاکستان کے ا ندر حملے بند کئے جائیں خصوصاً ڈرون حملوں کے بعد، لیکن
امریکی حکومتی عہدیداروں کا ہمیشہ یہی کہنا ہوتا ہے کہ تمام حملے حکومت پاکستان کی
علم میں لاکر اور اس کی مرضی سے کئے جاتے ہیں۔ رچرڈ ہالبروک نی اپنے حالیہ دورہ
پاکستان کے اختتام پر اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں پر
پاکستانی قیادت نے کوئی بات نہیں کی، ان کی پریس کانفرنس 6جون کو تمام قومی اخبارات
نے رپورٹ کی ہے جس میں انہوں نے ببانگ دہل متذکرہ بالا بیا ن دیا ہے۔ 7 جون کے
اخبارات میں وزیر اعظم گیلانی کا بیان شہ سرخیوں سے شائع ہوا کہ پاکستان نی رچرڈ
ہالبروک سے ڈرون حملوں پر بات کی تھی، وزیر اعظم کی بقول ان کا اورنواز شریف کا
ڈرون حملوں پر ایک ہی موقف ہے، انہوں نے مزید فرمایا کہ ہالبروک کا بیان غیر مناسب
ہے، حکومت ملکی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ 7 جون کی ہی اخبارات میں
وزیر دفاع احمد مختار کا بیان بھی شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ رچرڈ ہالبروک سے
دورہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے بجائے قرضے معاف کرانے پر بات چیت کی گئی اور
ہالبروک سے ڈرون حملے بند کرانے کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔
دو اعلیٰ حکومتی عہدہ داران سیےجن میں ایک وزیر اعظم اور دوسرا وزیر دفاع ہو، ایسے
مخالف اور غیر ذمہ دارانہ بیانات کی توقع کسی بھی ملک میں نہیں کی جاسکتی، اب کس
بات کو سچ سمجھا جائے کہ دونوں کے بیانات میں زمین آسمان کا تضاد ہے۔ایک حملے
رکوانے کے مطالبات کی بات کرتا ہے تو دوسرا قرضے معاف کرانے کے مطالبات کی۔ پہلا سچ
بولتا ہے کہ دوسرا؟ عوام کی نزدیک زیادہ سچا بیان وزیر دفاع کا ہو سکتا ہے چونکہ
ہالبروک اور وہ ایک ہی بات کررہے ہیں۔اس کی برعکس حکومت پاکستان کا ٹریک ریکارڈ اس
بات کی گواہی دیتا ہی کہ پاکستانی حکومت (خواہ موجودہ ہو یا سابقہ)ڈالروں کو زیادہ
اہمیت اور اولیت دیتی ہے نہ کہ معصوم انسانی جانوں کو! پاکستانی قیادت اور خصوصاً
حکومتی جماعت کی قیادت کی ترجیح اب عوام ہرگز نہیں رہے بلکہ ان کی نزدیک امریکہ کی
نظروں میں اہمیت زیادہ ترجیح رکھتی ہے۔ ان کے نزدیک اپنے ”مائی باپ“ کی احکامات کی
زیادہ اہمیت ہے بہ نسبت اللہ کے احکامات اور عوام کی جان و مال کی تحفظ کے۔ وزیر
اعظم اور وزیر دفاع کس کو دھوکہ دے رہے ہیں، کسے بیوقوف بنا رہے ہیں؟ عوام بھی کتنے
سادہ لوح ہیں، معصوم ہیں کہ ہمیشہ امریکی یجنٹوں کو ووٹ دیتے ہیں، ان لٹیروں کو
چنتے ہیں جو ان کے ہی گھروں کو لوٹتے ہیں، ان مفاد پرستوں کا انتخاب کرتے ہیں جو اس
قوم کی بیٹیوں اور فرزندوں کو ڈالروں کی عوض امریکہ کو بیچ دیتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں
جو اب تک اس لالچ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، کتنی مائیں ہیں جو اپنی لخت ہائے جگر کو
تلاش کررہی ہیں، کتنی سہاگنیں ہیں جو اپنے سر کے سائیں کی تلاش میں ماری ماری پھر
رہی ہیں، کتنے باپ ہیں جو اپنے فرزندوں، اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو تلاش کرکرکے
بینائی کھو بیٹھے ہیں، کتنے بچے ہیں جو محبت کرنے والے باپ کو تلاش کرتے ہمت و
حوصلہ کھو چکے ہیں لیکن ان کی پیاروں کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ یہیں پر مارے گئے یا
بدنام زمانہ امریکی جیل خانے گوانتاناموبے پہنچ چکے ہیں۔ ڈرون حملی ہیں، خود کش بم
دھماکے ہیں، بے گناہ لوگ مررہی ہیں، معصوم بچے جام شہادت نوش کررہے ہیں، اغواءبرائے
تاوان کی وارداتیں بڑھتی جاتی ہیں، مہنگائی کنٹرول سے باہر ہی، لیکن راوی چین ہی
چین لکھتا ہے، نیرو روم کی دیوار پر بیٹھ کر بانسری بجا رہا ہے اور ہم عوام اپنے
گھروں میں بیٹھے حکومت کو، سیاسی جماعتوں کو، پولیس اور فوج کو کوس رہے ہیں۔ اللہ
کے احکامات کی طرف کسی کی توجہ نہیں، دعاﺅں میں اثر باقی نہیں، امریکی شہہ پر
”امریکی طالبان“ ،امریکی اسلحہ ہم پر ہی استعمال کررہے ہیں، ہم ہیں کہ ابھی بھی
علاقائی اور مسلکی تعصب میں لوٹ پوٹ ہورہے ہیں۔ کیا عوام کو، خواص کو، سیاسی
جماعتوں اور حکومت کو معلوم نہیں کہ سوات اور دوسرے متاثرہ علاقوں میں نظام عدل
ریگولیشن کس نے ناکام کروایا؟ کیا معلوم نہیں کہ طالبان کے بھیس میں بھارتی،
اسرائیلی، امریکی اور افغانی کارروائیاں کررہے ہیں؟ کیا پاکستانی ایجنسیوں میں دودھ
پیتے بچے بیٹھے ہوئے ہیں جو ”روٹی“ کو ”چوچی“ کہتے ہیں اور انہیں پتہ ہی نہیں کہ
طالبان اصل ہیں یا ان کا بھیس لئے ہوئے دشمن! کیا فوج کی انٹیلی جنس کی ادارے بھی
بالکل فارغ ہیں جو اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے کہ جو لوگ طالبان کے بھیس میں سب
کچھ کر رہے ہیں ان کو اسلحہ بارود اور مدد کہاں سے مل رہی ہی؟اگر سب کچھ حکومت،
سیاسی قیادت، فوج، پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے علم میں ہے تو عوام کو بیوقوف
کیوں بنایا جارہا ہے؟ لیکن بنانے کی کیا ضرورت ہی، عوام تو بنی بنائی بیوقوف ہیں،
اصل قصور وارعوام ہی ہیں....! |