اے سعد ؓ کی ماں ۔۔۔۔۔!

اُمّ ِ سعد بن اوس ؓ سے ایک واقعہ مرکوز ہے کہ ان کے شوہر اوس بن صامت ؓ نے ان سے ظہار کر لیا۔ زمانہء جاہلیت میں ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھاکیونکہ اُس وقت تک اِس کی (طلاق)بابت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ظہار کا مطلب ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو یہ کہہ دے کہ آج سے تو میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے یا آج سے تو میری ماں ہے۔لہذا جب سعدؓ کی ماں کو انکے شوہر نے ان سے ظہار کیا تو و ہ اس مسئلے کو لیکر صحابی ؓ کے پاس آئیں صحابی ؓ نے انھیں ظہار ہونے کی تصدیق فرمادی لیکن سعدؓ کی ماں مطمئین نہ ہوئیں اور وہ یہ مسئلہ لیکر جناب ِ نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائیں آپﷺ نے بھی اس مسئلے پر کچھ توقف فرمایا لیکن اُمّ ِ سعدؓ آپ ﷺ سے بحث و تکرار کرتی رہیں۔کافی سمجھانے کے باوجود جب سعدؓکی ماں نے ظہار کو ماننے سے انکار کردیا توآپﷺ نے اپنے حجرے کی کھڑکی بند کردی ۔اُمّ ِ سعد بن اوس ؓ نے جب دیکھا کہ تمام دروازے بند ہوچکے ہیں تو اوپر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اﷲ سے فریاد کرنے لگیں یا اﷲ سب دروازے بند ہوچکے ہیں کیا تیرا دروازہ بھی بند ہوگیا ۔سعد کی ماں کا یہ کہنا تھا کہ جناب ِ نبی کریم ﷺ پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

القرآن ترجمہ: یقینا اﷲ تعالیٰ نے اُس عورت کی بات سنی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کررہی تھی اور اﷲ کے آگے شکایت کرہی تھی ،اﷲ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سن رہاتھا، بیشک اﷲ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔(سورہ المجادلہ، آیت نمبر ۱ )

اسی سورہ کی اگلی آیت میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ: تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (یعنی انھیں ماں کہہ بیٹھتے ہیں ) وہ دراصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں ، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے۔ یقینا یہ لوگ ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔بیشک اﷲ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔(سورہ المجادلہ، آیت نمبر ۲ )

قارئین اسی موضوع پر حدیث شریف میں آیا ہے کہ : حضرت عائشہ صدیقیٰ ؓ فرماتی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کس طرح لوگوں کی باتیں سننے والا ہے کہ یہ عورت (اُمّ ِ سعدؓ )گھر کے ایک کونے میں نبی ﷺ سے مجادلہ (جھگڑرہی تھیں )کرتی اور اپنے خاوند کی شکایت کرتی رہی ، مگر میں اس کی باتیں نہیں سن پائی۔لیکن اﷲ رب العزت نے سات آسمانوں پر سے اُس کی بات سن لی ۔(حدیث: سنن ابنِ ماجہ؛مقدمہ ،باب فیمااء نکرت الجھمیہ/ صحیح بخاری ،کتاب التوحید)

قارئین بات بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اگرانسان کا اﷲ پر سچا یقین ہو اور توحید پر پکا ایمان ہو تو اس کی ہر پکارپر اﷲ رب العزت کی خاص نگاہ رہتی ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جو تمھارے دلوں میں ہے اور جو تمھارے باہر ہے ۔ اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں اور نہ تم میں اتنی طاقت ہے کہ تم اس رب ِ کائنات سے کچھ پوشیدہ رکھ سکو۔وہ تمھارے دلوں کے حال تم سے بہتر جاننے والا ہے ۔اگر تم واقعی سچے مومن ہو تو وہ تمھاری بات کو کبھی رد نہیں کریگاتمھاری بھلائی کے لیے تمھاری ہمیشہ رہنمائی کریگا اور اگرتم اس کی بات کو رد کرو گے تو وہ تمھیں رد کردے گاتمھارے دلوں پر مہر لگا کر ایسی گمراہی میں مبتلا کر دیگا جہاں سے صرف جہنم کو راستہ جاتا ہے اور یاد رکھوں تمھیں اس سارے معاملے کی خبر تک نہ ہوگی کیونکہ تم خود ایسی کھلی گمراہی میں غرق ہوچکے ہوگے کہ تمھیں بھلائی کا راستہ نظر آنے کے باوجود تم اس کو حاصل نہ کرسکوگے ۔ اور ایک دن اپنے انجام کو پہنچو ں گے۔کیونکہ وہ بہتر انصاف کرنے والاہے۔

اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ: یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ سے ڈرائیں ،سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو۔اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے ۔(سورہ الاعراف ،آیت نمبر ۲)

تفسیر القرآن: یعنی اﷲ تعالیٰ عدل و انصاف کا پورا اہتمام فرمائے گا اور جس نے اچھا یا برا جو کچھ کیا ہوگا اس کے مطابق جزا و سزا دے گا ۔ نیکی پر اچھی جزا اور بدی پر سزا دے گا اور ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالے گا۔اس لیے اگر تم اس دعوت ِ توحید کو نہیں مانتے جو تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت رہی ہے تو تم اپنا کام کئے جاؤ ، ہم اپنا کام کئے جاتے ہیں ۔ قیامت والے دن اﷲ کی بارگاہ میں ہی ہمارا تمھارا فیصلہ ہوگا۔
اسی سورہ کی اگلی آیت میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

القرآن ترجمہ: تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمھارے رب کی طرف سے آئی ہے۔اور اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔(سورہ الاعراف ،آیت نمبر ۳)
تفسیر القرآن: جو اﷲ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ یعنی قرآن ، اور جو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا یعنی حدیث ، کیونکہ آپﷺ نے فرمایا کہ ــ" میں قرآن اور اس کی مثل اس کے ساتھ دیا گیا ہوں ۔ان دونو ں کی اتباع (اطاعت )ضروری ہے ۔ ان کے علاوہ کسی کا اتباع(اطاعت) ضروری نہیں بلکہ ان کا انکار لازمی ہے۔ جیساکہ اگلے فقرے میں فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی مت کرو۔ جس طرح زمانہء جاہلیت میں سرداروں اور نجومیوں کاہنوں کی بات کو ہی اہمیت دی جاتی حتیٰ کہ حلال و حرام میں بھی ان کو سند تسلیم کیا جاتا تھا۔

القرآن ترجمہ: اطاعت کرو میری اور رسول کی تابعین و تبع تابعین کی اور وقت کے حکمرانوں کی اور اگر جھگڑ پڑو آپس میں تو لوٹ آؤ اﷲ اور اسکے رسول کی طرف۔

تفسیر القرآن: مطلب یہ ہے کہ اصل اطاعت تو اﷲ ہی کی ہے کیونکہ (القرآن ترجمہ:خبردار مخلوق بھی اسی کی ہے ۔۔حکم بھی اسی کا ہے۔(الاعراف:۵۴)" القرآن ترجمہ:حکم صرف اﷲ کا ہے" سورہ یوسف؛۴۰" ۔لیکن چونکہ رسول اﷲ ﷺ خالص منشاء الٰہی ہی کا مظہر اور اس کی مرضیات کا نمائندہ ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسولﷺ کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا اور فرمایا کہ رسولﷺ کی اطاعت دراصل اﷲ کی اطاعت ہے۔" القرآن ترجمہ: جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی" (النساء :۸۰)جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حدیث شریف بھی اسی طرح دین کا ماخذ ہے جس طرح قرآن کریم ۔ تاہم (امراو حکام )تابعین و تبع تابعین اور وقت کے حکمرانوں کی اطاعت بھی ضروری ہے لیکن اس وقت تک کہ وہ اﷲ اور اسکے رسولﷺ کے احکام کا نفاذ کرتے رہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ امرا و حکام کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے اﷲ و رسول ﷺ کی اطاعت کے ساتھ ۔یعنی ان کی اطاعت اس لئے کرنی ہوگی کہ وہ اﷲ اور اس کے رسول کے احکام و فرمودات بیان کرتے ہیں اور اس کے دین کی طرف ارشاد و ہدایت اور رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔لیکن ان کی اطاعت بھی صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ عوام کو صرف اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی بات بتلائیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں تو عوام کے لیے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں بلکہ انحراف کی صورت میں جانتے بوجھتے ان کی اطاعت کرنا سخت معصیت اور گناہ ہے۔جو اﷲ اور رسول کی نافرمانی کا موئجب ہے اور کھلی گمراہی و کفر ہے۔اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے اسی آیت میں آگے فرمایا " اگر جھگڑ پڑو آپس میں تو لوٹ آؤ اﷲ اور اسکے رسولﷺ کی طرف" اﷲ کی طرف لوٹنے سے مراد قرآن ِ کریم اور الرسولﷺ سے مراد حدیث ِ رسول ہے۔یہ تنازعات کے ختم کرنے کے لیے ایک بہترین اصول بتلادیا گیا ہے اﷲ کی طرف سے۔ اس اصول سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تیسری شخصیت کی اطاعت واجب نہیں۔ جس طرح تقلید شخصی یا تقلید معین کے قائلین نے ایک تیسری اطاعت کو واجب قرار دے رکھا ہے اور اسی تیسری اطاعت نے جو قرآن کی اس آیت کے صریح مخالف ہے، مسلمانوں کو امت ِمتحدہ کی بجائے امتِ منتشرہ میں تبدیل کر رکھا ہے اورملت ِ اسلامیہ کے اتحاد کو تقریباً ناممکن بنادیا ہے۔ قارئین یہ آیت ان لوگوں کے لئے ایک ہدایت ہے جو کتاب و سنت سے اعتراض کر تے ہیں اور اپنے فیصلوں کے لیے اِن دونوں کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف جاتے ہیں اور اپنے اعمالوں کوغارق کر کے جہنم کا ایندھن بنا ڈالتے ہیں۔اپنے گھروں کو تباہ کرڈالتے ہیں اپنی اولادو کو اپنی غلامانہ سوچ کی بھینٹ چڑا دیتے ہیں اپنی نسلوں کو تباہ کرڈالتے ہیں ۔یقین کریں ایسے لوگوں کے لیے سخت عذاب ہے ۔میرے محترم قارئین ہمیں چاہیئے ہم جس کا کلمہ پڑھتے ہیں اس کی ہر بات کو من و عن اپنے اوپر نافذ کریں اور اس کلمہ کے ایک ایک لفظ کی پاسداری کریں تمام من گھڑت دینوں کو چھوڑ کر صر ف دین ِ محمدی کو اختیارکریں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی بات کو حرفِ آخر مانیں اگر ہم ایسا کر گئے تو ہماری دعا بھی سعد کی ماں کی طرح ساتوں آسمانوں کو چیرتی ہوئی اس رب ِ کائنات تک ضرور پہنچے گی۔
علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 107479 views کالم نگار/بلاگر.. View More