آج مسلمانوں کے جو حالات ہیں ہم سے پوشیدہ
نہیں ہیں جتنے اس وقت مسلمان شکستہ اور ناتواں ہیں اتنا شاید کوئی اور نہ
ہو۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ سارے عالم میں ہر لحاظ سے مسلمان مشکل میں
گرفتار ہیں۔ دنیا کی سپر پاور آج مسلمانوں پہ شیر ہوچکی ہیں۔ اسلام کا نام
دہشت گردی رکھ دیا گیا ہے۔ مسلمان دہشت گرد ہوگئے ہیں؟ اس کیا وجہ ہے کیوں
ہم اتنا پستی کی طرف چلے گئے ہیں۔ اس کی وجہ مسلمانوں کی اپنے دین سے دوری
ہے۔ جہالت اور تعلیم سے دوری ہے۔ ہم نے اپنے دین کو خود مسخ کردیا ہے اور
لوگوں کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اسلام پہ انگلی اٹھاسکیں۔ ہم نے اسلام کے
ساتھ ایسی چیزیں ملا دی ہیں جن کی وجہ سے غیر مسلم ہم پہ انگلیاں اٹھا رہے
ہیں۔ ہم سو رہے ہیں ۔ ہمیں ہوش نہیں ہے۔ ہم اپنی دنیا میں مست ہیں جبکہ
اللہ کا دین مٹ رہا ہے کاش کہ ہم جان سکتے ۔ ہمارے پاک نبی کے خلاف کافر
نفرت کی آگ اگل رہے ہیں ان کی ہستی مبارک پہ کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ کیا ہم اس
کے ذمہ دار نہیں ؟ ہاں ہم ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔
انٹرنیٹ پہ اس وقت لاکھوں سائیٹس ایسی ہیں جن میں اسلام کے خلاف نفرت اور
دشمنی کا لاوا بھرا ہوا ہے۔ اسلام کی روح کو مسخ کیا جارہا ہے۔ قرآن کی
آیات کو لے لے کر ان کا غلط مطلب پیش کیا جارہا ہے۔ بخاری شریف کو اسلام کے
خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ آئمہ کرام کے حوالاجات کو لے کر ان سے اسلام کے
خلاف پوائنٹ بنائے جارہے ہیں۔ اور ہم سور ہے ہیں۔ ہم اپنی موج مستی میں
مصروف ہیں۔کوئی آفس میں مصروف کوئی اپنی زمینوں میں مصروف کوئی اپنی دوکان
میں مصروف ۔ کاش کہ ہم بھی اسلام کے لیے تھوڑا وقت نکال لیتے وہ وقت جو ہم
یو ٹیوب میں فنی کلپس یا گانے سننے میں لگاتے ہیں، ٹیگ اور فیس بک میں دوست
بنانے میں صرف کرتے ہیں کاش کے تھوڑا سا وقت ہم اسلام کو بھی دے لیتے ۔
اسلام کی خدمت کرنا اتنا مشکل تو نہیں ۔ کیا ہم آپس میں یہود اور نصاریٰ کے
مذموم عزائم کو سامنے نہیں لا سکتے۔ بہت آسانی سے لا سکتے ہیں ۔ میری آپ سب
سے التجا ہے کہ آپ اپنے آنکھیں اور دماغ کھلا رکھے ۔ میری یہ درخواست ہماری
ویب کی ٹیم سے بھی ہے کہ وہ بھی اپنے وزیٹرز کو ایسی معلومات ضرور دیں جن
سے انہیں پتا چلے کہ اسلام کے ساتھ دنیا میں کیا حشر کیا جارہا ہے۔
آخر میں صرف ایک بات کروں گا کہ جب میں نے ایک ملعون اور کافرجسکی ویب سائٹ
کا نام ہے فیت فریڈم۔او آر جی کو دیکھا تو میری زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ
نکل گئے کہ اے پاک نبی ہم شرمندہ ہیں۔ |