سندھ میں عربی زبان
حبیب صالح
باب الاسلام سندھ، وطن عزیز مملکت پاکستان کا وہ خطہ ہے جو صدیوں سے تاریخ
وثقافت، تہذیب وتمدن، علوم وفنون کا مرکز اور تصوف اور روحانیت، حقائق
ومعارف کا گہوارہ رہا ہے۔ اس حقیقت کی زندہ شہادتیں آج بھی جابہ جا تاریخی
عمارتوں، قدیم مسجدوں، مجاہدان اسلام کے مزاروں، بزرگان دین کی درگاہوں،
فدایان توحید کی خانقاہوں، پرانے کتب خانوں، قدیم سکوں اور بہت سے دیگر
نقوش وآثار سے ملتی ہیں۔
سرزمین سندھ میں عربوں کی آمد اور اسلامی حکومت کے قیام کے بعد بعض عرب
قبائل نے یہاں مستقل سکونت اختیار کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور
خلفائے راشدین کے عہد میں آنے والے عربوں کے خاندان یہاں پہلے سے موجود تھے،
ان میں علمائے دین بھی تھے اور اکابر اسلام بھی، ان کی مادری زبان عربی تھی،
عربی اللہ کا کلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے، اس زبان
کی جامعیت، وسعت اور ہمہ گیری نے اہل سندھ کو متاثر کیا، عربی پہلے سرکاری
زبان کی حیثیت سے رائج ہوئی پھر ایک دینی اور علمی زبان کی حیثیت سے دادی
مہران کے گوشے گوشے میں پھیل گئی، محمد بن قاسم کے زمانے سے امیران تالپور
کے عہد تک کے ہر دور میں جا بہ جا مدرسے قائم ہوئے، عربی علوم اور اسلامی
فنون کی درس وتدریس، تحصیل وتکمیل کا رواج عام ہوا، ان مدرسوں کے اساتذہ
کرام میں نہ صرف سندھ بلکہ عرب، عراق، شام اور عجم کے ماہرین علوم وفنون
بھی شام تھے۔
دبیل، منصورہ، السرور، ملتان، بھکر، ٹھٹھہ، سیوہن، حیدرآباد جیسے مقامات
اسلامی تہذیب وعلوم کے لیے پوری اسلامی دنیا کی توجہ کا مرکز تھے، سندھ میں
عربوں کے چار سو سالہ دور حکومت اور اس کے بعد سے دور مغلیہ [1132ہ-1719ء]
یعنی پہلی صدی ہجری سے گیارہوں صدی ہجری تک سندھ میں عربی النسل اور سندھی
النسل علماء، صوفیا، فقہاء، قراء، محدثین، محققین اور ارباب تجوید وتفسیر
کارواں در کارواں نظر آتے ہیں۔ ان ارباب دین کی تعلیمات، تصنیفات وتالیفات
کا بیش بہا خزانہ کلام ربانی اور پیغآم محمدی پر مبنی اسلام کی حقیت ومعرفت
کی شہادت دیتا ہے۔
متعدد علماء خاک سندھ سے اٹھے اور پنے علم وفضل، درس وتدریس اور افکار
ومعارف سے عالم اسلام کو فیض یاب کیا، ان میں امام حدیث ابو معشر
نجیح[17ہجری]بن عبدالرحمن سندھی اور ان کی اولاد ائمہ حدیث ومغازی میں سے
تھے، انہوں نے مدینہ اور بغداد میں اپنی امامت اور عظمت کا علم بلند رکھا۔
مکہ مکرمہ میں: امام ابو جعفر محمد بن ابراہیم بن عبداللہ دبیلی [انہوں نے
مکتوبات نبوی کا مجموعہ مرتب کیا جو "اعلام السائلین من کتب سید المرسلین"
کے آخری حصہ کی زینت ہے]۔
بغداد میں: حافظ ابومحمد خلف ابن سالم، ابونصر الفتح بن عبداللہ سندھی،
امام ابوبکر احمد بن قاسم سندھ۔
نیشاپور میں: ابوالعباس احمد بن عبداللہ بن محمد، اور ان کے پوتے علی ابن
محمد بن محمد دیبلی شافعی[جو بڑے محدث وفقیہ تھے ان کی تصنیف "کتاب
الادب"عربی میں بڑ اہم کتاب مانی جاتی ہے]۔
بصرہ میں: ابوالعباس محمد دیبلی۔
عراق میں: حافظ محمود [حافظ الحدیث تھے]۔
مصر میں: ابوقاسم شعیب بن محمد دیبلی کا سرچشمہ علوم وفنون صدیوں تک جاری
رہا۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ[بانی مسلک حنفی] نسلا سندھی
تھے، ان کے آباواجداد نے سندھ سے پہلے ایران پھر عراق میں سکونت اختیار کی۔
امام ابو حفیفہ کے ایک ہم عصر اور امام مالک کے شاگرد شیخ الاسلام امام
اوزاعی بن عمر اپنے زمانے کے مشہور مجتہدوں میں سے تھے۔ فقہی مذہب کے بانی
تھے اندلس میں علم وفن کے جوہر دکھائے۔
اب ان علمائے دین کا ذکر کیا جاتا ہے جو سندھ میں پیدا ہوئے اور سندھ ہی
میں وفات پائی، ان کے علاوہ ان حضرات کا ذکر بھی ضروری ہے جو عرب، عجم،
مشرق وسطی اور وسطی ایشیاء سے مختلف ادوار میں یہاں آئے اور اپنی زندگی
علمی دینی و روحانی خدمات میں وقف کی۔ یہ تمام حضرات نحو، معانی، منطق،
فقہ، حدیث، تحقیق، تجوید اور تفسیر کے علوم وفنون میں اپنی مہارت اور کمال
کی بناپرمستند وممتاز سمجھے جاتے تھے۔
پہلی صدی ھجری [یعنی 39ہجری] جب محمد بن قاسم سندھ آئے تو ان کے ہمراہ
علماء وفقہاء کی ایک جماعت بھی تھی جن میں موسی ابن یعقوب ثقفی کو بہت بلند
درجہ حاصل تھا، محمد بن قاسم نے انہیں السرور کے قاضی القضات کے عہدے پر
مامور کیا تھا، موسی ابن یعقوب کا خاندان اپنی غیر معمولی علمی خدمات کی
بدولت مدتوں ممتاز رہا۔
معروف تابعی حسن بصری کے تلامذہ الربیع بن صبحیح السعدی بصری اور ابو موسی
اسرائیلی دونوں تبع تابعین میں سے تھے۔ اول الذکر حدیث کےاجل امام اور آخر
الذکر صحیح بخاری کی روایت میں ہیں، ربیع ابن صبیح نے حدیث پر سب پہلی کتاب
تصنیف کی۔
عہد اسلامی میں دیبل، منصورہ، ملتان اور السرور وغیرہ اسلامی علوم وفنون
اور تہذیب ومعاشرت کا گہوراہ تھے، اس زمانے میں وہاں علماء کی خاص تعداد
موجود تھی، ابو العباس احمد بن محمد بن صالح یمنی منصورہ کی قاضی اور بڑے
فقیہ ومحدث تھے، متعدد تصانیف چھوڑیں۔ قاضی ابو محمد منصری داد منصرہ میں
قضا کے عہدے پا فائزتھے۔ 375 ہجری میں منصورہ میں مدرسہ قائم کیا، ان کی
تصانیف سے ا ن کی محققانہ بصیرت کا اندازہ ہوتاہے۔ محمد بن ابو الشوارب
منصوری 383ہجری میں عراق سے سندھ آئے، اور منصورہ میں عمر گزار دی۔
ساتویں صدی ہجری کے اوئل میں اسماعیل بن علی محمد الثقفی نے "منہاج
المسالک" عربی میں لکھی جس کافارسی ترجمہ چچ نامہ کے نام سے علی حامد بن
ابوبکر کوفی نے 613میں کیا۔
آٹھویں صدی ہجری میں شیخ ابوحنیفہ محمد تغلق کے زمانے میں قاضی تھے، شیخ
صدرالدین فقہ میں خاص شہرت رکھتے تھے، مشہور سیاح ابن بطوطہ نے جو 738 میں
سندھ آئے ان بزرگوں کا ذکر کیاہے۔
مولانا برہان الدین بکھری سلطان علاء الدین محمد شاہ خلفی کے دور میں فقہ
واصول کے مدرس وماہر تھے، ظہیر الدین بکھری ان کے معاصرین میں سسے تھے،
ضیاء الدین برنی کی کتاب میں ان کا تذکرہ ملتا ہے، مخدوم محمد بوبکائی کے
علاوہ نویں اور دسویں صدی ہجری کے علماء میں مولانا عبد العزیز ابہری
سیوہانی، بایزید ٹھٹھوی[مصنف علم الکلام]قاضی عبداللہ، قاضی ابراہیم
دریبلوی، قاضی دتہ سیوہانی، شیخ الاسلام عماد الدین مسعود بن شبیہ سندھی
[عظیم المرتبت محدث تھے، ان کی تصانیف میں "کتاب الاقلیم" و"طبقات الحنفیہ"
کے علاوہ دوسری کتابوں سے عرب دنیا نے استفادہ کیا]، اور مولانا عمر فقیر
وغیرہ وہ بزرگان دین اور اولیاء اللہ تھے جنہوں نے جا بہ جا مدرسے قائم
کیے، تصانیف وخطبات اور درس تدریس کے ذریعہ دین کی تعلیمات کو عام کیا،
عربی علوم اور اسلامی تعلیمات، تہذیب ومعاشرت کے فروغ میں خاص طور پر حصہ
لیا۔
سندھ کے شعراء نے عربی کے شعری ادب کی ترقی وترویج میں بھی عرب معاصرین کے
دوش بہ دوش حصہ لیا اور اپنے شعر وسخن کا لوہا منوایا، ان میں ابو صالح
سندھی تیسری صدی ہجری کا بلند پایہ شاعر گزرا ہے، اس کی ملی نظمیں حب
الوطنی اور محبت انسانی سے مملوء ہیں۔
ابوالعلماء افلح سندھی عربی کا بہت بڑا شاعر مانا جاتاتھا، تذکرہ شعرائے
عربی میں ان کے اشعار وقصائد کے نمونے متے ہیں، ان کے علاوہ ابو اسحاق نصور
سندھی، کشاجم سندھی، ہارون عبداللہ ملتانی، سندھی ابن صدقہ وغیرہ نے عربی
شعر وادب کی دنیا میں شہر وناموری حاصل کی۔
[اردو کی ترقی میں اولیائے سندھ کا حصہ، ڈاکٹر وفاراشدی۔ بتغیر وحذف] |