ابن صفی اردوزبان وادب کاوہ روشن استعارہ ہے جس کے بنائے ہوئے نقوش آج بھی
لودے رہے ہیں ۔ابن صفی کہنے کوتوصرف ایک ناول نگارتھے مگران کی شخصیت اس سے
بھی کہیں اونچے مقام پرفائزنظرآتی ہے ۔تقدس مآب حضرات کو شایدابن صفی کی
تحریروں میں اپنے وقت کاضیاع محسوس ہولیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کی تحریروں
میں داخل ہوکرقاری کچھ کھوتانہیں بلکہ کچھ لے کرہی واپس آتاہے ۔ان کی
تحریریں دیگربہت سارے افسانہ نگاروں اورناول نگاروں کے زمرے میں نہیں رکھی
جاسکتیں۔پڑھے لکھے افرادواقف ہیں کہ جوکام سنجیدہ تحریروں سے نہیں ہوتاوہ
افسانوں اورناولوں سے بآسانی پایہ ٔ تکمیل تک پہنچ جاتاہے ۔ یہ بات طے شدہ
ہے کہ ناولوں اورافسانوں کی طرف لوگ زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اوریہ بات بھی
مشاہدے میں ہے کہ جن کومطالعے کاذرابھی شوق نہیں ہے اگران کوناول مل جائے
تووہ اسے ختم کیے بغیردم نہیں لیتے اورپھراکثرایساہوتاہے کہ ان ناولوں
کاچسکا ان کوکتابوں کے مطالعے کاراستہ دکھادیتاہے ۔ناول اورافسانوں میں
جوپیغام دیا جاتا ہے وہ سنجیدہ کتابوں کی بنسبت زیادہ زوداثراورمتاثرکن
ہوتاہے ۔اس جہت سے بھی اگرابن صفی کوپڑھاجائے تویہ محسو س ہوگاکہ ان کے
یہاں معلومات کاایک جہاں سانس لے رہاہے ۔وہ باتوں باتوں میں ایسی باتیں کہہ
جاتے ہیں اورچپکے سے ایسی تعلیم قاری کے دل میں اتاردیتے ہیں جوہماری مشرقی
روایات کاحصہ ہیں اورجنہیں اسلام سے بھی مربوط کرکے دیکھاجاسکتاہے ۔میں یہ
نہیں کہتاکہ ابن صفی تعلیمات اسلامیہ کے مبلغ رہے ہیں مگراتناتوضرورہے کہ
وہ بھی توایک مسلمان ہی تھے ۔انہوں نے سماج کے مذموم رویوں ،افرادکی ذہنی
وفکری بیماریوں اوربدلتے رجحانات کواپنے ناولوں کاموضوع بنایااوراپنے قلم
کے سہارے ایسے ایسے شہ پارے تخلیق کیے کہ پوری اردودنیااس کی مثال پیش کرنے
سے آج تک قاصرہے بلکہ ان کی بعض تحریریں تواس درجے کی ہیں کہ دوسری زبانوں
کے ادب میں بھی ایسی تحریریں تخلیق نہ کی جاسکیں۔
میں جب بھی ابن صفی کے بارے میں سوچتاہوں تومجھے نہایت گہری حیرتوں
کاسامناکرناپڑتاہے ۔ابن صفی فن کی عظیم ترین بلندی ،فکرکی زرخیزی ،فضاکی
بنت کاری اورتخیل کی رعنائی کے اس مقام رفیع پرفائزہیں کہ دوسرے شایداس کے
قریب بھی نہ پہنچ سکیں۔ان کاتصوران کے زمانے کے تصورسے بہت آگے تھااوران کے
تخیل کی اڑان اتنی اونچی تھی کہ قاری تعجب خیزیوں کے اتھاہ سمندرمیں غوطہ
زن ہونے لگتاہے اوراس کی زبان سے بے ساختہ واہ واہ جاری ہوجاتاہے۔یہ بات
بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ اچھی اردولکھنااچھے ناولوں اورافسانہ نگاروں
کوپڑھے بغیربہت مشکل ہے ۔ان سے مطالعے کی دل چسپی بھی برقراررہتی ہے
اورقاری بھی لاشعوری طور پر الفاظ ومعانی کے خزانے سے قریب سے قریب
ترہوتاچلاجاتاہے ۔تحریروقلم کے قصربلندمیں براجمان نہ جانے کتنے لوگ ایسے
ہیں جواسی راستے سے یہاں تک پہنچے ہیں ۔
مجھے بھی مطالعے کاشوق اسی ناول اورافسانے کے ذریعے ہوا۔بچپن میں مجھے
کتابوں سے ذرہ برابربھی لگاؤ نہیں تھا میری والدمجھ سے نالاں رہتے اورمیری
سرزنش کرتے رہتے ۔اسی دوران ایک ناول میرے ہاتھ لگ گیااورپھرمیں مطالعے کی
راہ پرچل پڑا۔گویاناول ہی میری مطالعے اورکامیابی کی پہلی اینٹ ثابت ہواہے
۔ میں ببانگ دہل یہ بات کہہ سکتاہوں کہ بڑے بڑے ناول نگاراورافسانہ نگارکی
اژدہام میں ابن صفی تن تنہاوہ شخصیت ہے جس کی تحریریں کئی دہائیوں کی کہنگی
کے باوصف آج تک زندہ وتابندہ ہیں اوراس کی شیرینی آج بھی کم نہیں ہوئی ۔ناول
نگارتوبہت سارے ہیں مگرابن صفی کاکیاکہنا۔وہ اخلاقی باتوں کوہمارے دلوں میں
اس طرح اتاردیتے ہیں کہ ہمیں محسوس تک نہیں ہوتا۔ان کے معنی خیزجملوں
اورلطیف طنزومزاح سے دیرتک ہمارے دلوں کا ایوان گونجتارہتاہے ۔ناول نگاری
اگربرائے اصلاح و تعمیرہوتویہ محبو ب بھی ہوتی ہے اورلازوال بھی ۔ابن صفی
کے ناولوں میں یہ وصف ہمیں بدرجہ اتم محسوس ہوتاہے ۔کچھ کتابیں وقتی
طورپراپنی اہمیت منواکرتاریخ کے ڈھیر میں اٹ جاتی ہیں ۔کچھ ہی خوش نصیب
کتابوں کاتذکرہ بعدمیں کیاجاتاہے اوربعض تواس لائق بھی نہیں ہوتیں کہ انہیں
تذکرے کادرجہ دیاجائے ۔ویسے بھی کسی قلم کار کی ساری تحریریں تاریخ
سازاورلازوال نہیں ہوتیں مگریہ ابن صفی ہی ہیں کہ بلامبالغہ ان کی تحریریں
اس درجے کی ہیں جوشایدکبھی زوال آشنا ہوں ۔معلوم ہوتاہے کہ ان پرشباب
آکرٹھہرگیاہے ۔میں نے ابن صفی کوزیادہ تونہیں پڑھاالبتہ جتنابھی پڑھاہے اس
کی بنیادپرابن صفی میرے نزدیک ایک بڑے معلم اخلاق کی حیثیت سے سامنے آئے
ہیں۔ |