رمضان المبارک اور ٹی وی نشریات
آج سے کچھ عرصہ قبل تک پی ٹی وی کا سادہ سادہ دور تھا ۔رمضان شریف کے آتے
ہی تھوڑا بہت ماڈرن ہوتا ٹی وی مکمل مذہنی ہو جاتا تھا۔سحری سے افطاری اور
افطاری سے ٹی وی کے فرمان الہی تک ٹوپی پہنے مولوی صاحبان ہی کہیں وعظ اور
کہیں حمد و نعت کے گلہائے عقیدت بکھیرتے نظر آتے تھے ۔اگر کوئی خاتون نظر
بھی آتی تو سفید دوپٹہ کو اس قدر سلقیے سے اوڑھے ہوتیں کہ ایک لمحے کو بھی
محسوس نہیں ہوتا تھا کہ یہ دوپٹہ زبر دستی اوڑھایا گیا ہے۔
آج سٹلائٹ چینلز کی رنگا رنگ دنیا میں ہر جانب ریٹنگ کی دہائی ہے اور اس
میں وہی کام یاب ہے جس نے ہر جانب دولت کے ڈھیر لگا رکھے ہیں ۔’’تکا لگاؤ
مسلمانوں ۔۔۔۔۔۔ ‘‘ کے علاوہ ان صاحب کے بہت سے فقرے ذو معنوعیت ؛کا تاثر
لئے ہوئے ہیں ۔ایک خاتون کی کال کیا ملی کہ ان کی چیخ نما آواز نکلی جس کو
سن کر ’’صاحب عالم‘‘ گویا ہوئے ’’آپ جس طرح چیخی ہیں یہ مرغا دیکھئے کیسا
ہو گیا ‘‘ جب کہ اس وقت کیمرہ مرغے کو کلوز کئے ہوئے تھا۔ ڈراموں اورمیڈیا
سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد رمضان کے دنوں میں یہاں ہی مصروف نظر
آتی ہے ۔دین کو سمجھنے اور سمجھانے والے غائب ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ شائد
ان کی موجودگی ریٹنگ کی راہ میں رکاوٹ ہے۔’’ کھلا ڈھلا‘‘رنگا انگ مارننگ
شوز کرنے والی خواتین کو دیکھ کر یوں محسوس ہو تا ہے جیسے پروگرام میں
دوپٹے اور دینی آمیزش کی زبردستی کی گئی ہے ۔
پی ٹی وی کا شمار تھا پوری دنیا میں ایک مہذب ادارہ کے طور پر ہوتا تھا جس
کے ہر شعبہ کے پروگرام خواہ وہ دینی ، سیاسی ،سماجی یا ڈرامہ ہوں ۔ایک
جامیعت کا احساس لئے ہوئے تھے۔دینی پروگرام بارہ مصالحوں کی چاٹ کی بجائے
دینی ہی محسوس ہوتے تھے۔ پی ٹی وی کاایک دن مارننگ شوز دیکھنے کا اتفاق ہوا
مہمانوں میں نعت خوان حضرات شامل تھے۔خاتون کا دوپٹہ بڑی مشکل سے سر پر ٹکا
ہوا تھا ہنستے ہوئے خاتون نعت خوان سے ’’آپ کو نعت خوانی کا شوق کب سے
ہوا۔‘‘
’’جی مجھے بچپن سے ہی نعت خوانی کا شوق تھا‘‘۔
خاتون اینکر مسلسل ہنستے ہوئے ’’ویسے کسی خاتون سے ان کی عمر نہیں پوچھنی
چایئے۔ یہی پوچھ لیتی ہوں آپ کونسی کلاس میں ہیں‘‘۔اینکر کی مسلسل ہنسی کے
دوران ایسے ہی چند اور سوال ہوئے اس کے بعد وہ مرد نعت خواں کی جانب متوجہ
ہوئیں ان کی ہنسی کو بریک نہیں لگ رہے ’’جی ،آپ بھی یقیناً یہی کہیں گے کہ
آپ کو بھی بچپن سے ہی نعت خوانی کا شوق تھا‘‘۔اینکر کو ہنستے ہوئے دیکھ کر
مہمان جو کہ نعت خوان کے طور پر پروگرام میں شریک ہوئے تھے۔وہ بھی بیچارے
بادل نخواستہ ہنستے ہوئے جواب دے رہے تھے۔
ٹماٹر چھوڑ دی میں نے۔۔۔۔۔۔
حمزہ شہباز کے سستے بازار کا ’’سستا‘‘دورہ کرنے سے پہلے صوبائی وزیر خوراک
نے لاہور میں سستے بازار کا دورہ کیا۔لوگوں کے ٹماٹر کے بارے میں شکایت
کرنے پر کہ قوت خرید سے باہر ہوتا جا رہا ہے وزیر موصوف نے ٹماٹر چھوڑنے کا
مشوری دیتے ہوئے، ٹماٹر کے بغیر ہانڈی پکانے کے چند ایک نسخے بھی میڈیا اور
عوام کے سامنے رکھ دیئے۔انہوں نے یہاں تک فرما دیا کہ اگر کسی سے ٹماٹر کے
بغیر ہانڈی نہیں پک سکتی تو وہ پکا کر دکھا سکتے ہیں۔
ایک وہ ہیں کہ اپنے تہواروں پر بطور خاص ہر چیز کی اتنی قیمت گھٹا دیتے ہیں
کہ وہ ہر خاص و عام کی دسترس میں آ جاتی ہے ۔اور ہم سارا سال جو چیز نہ بک
سکے جو خراب ہونے کی انتہا پر وہ سٹاک کرتے رہتے ہیں اور جونہی رمضان
المبارک شروع ہوتا ہے وہ سارا مال بازار میں ڈھیر کر دیتے ہیں ۔میٹھا آلو
ہو یا کیڑے لگی کھجور ،مٹری کا بیسن ہو یا مرچ کے نام پر برادہ سب کچھ بک
جاتا ہے ۔وہ پالک جیسے سارا سال کوئی پوچھتا نہیں اس کے چند پتے ان دنوں
میں پندرہ بیس روپے سے کم نہیں آتے ۔ٹماٹر اور ان جیسی اشیائے ضروریہ کا
مصنوعی بحران پیدا کرکے مال کھرا کیا جاتا ہے۔
عوام کے لئے تسلی کے چند بول بولنا بھی شائد حکمران اپنی توہین کے سمجھتے
ہیں۔ حالانکہ اس بات کو بڑے خوبصورت انداز میں کیا جا سکتا تھا ۔رمضان
المبارک کی وجہ سے ذیادہ کھپت کو اس کا سبب بتایا جا سکتا تھا ۔حکمرانی کا
نشہ ایسی چیز ہے جو خود بخود نہیں اترتا اسے کوئی دوسرا ہی آکراتارتا
ہے۔جرنیلی صدر پرویز مشریف کے دور میں مہنگائی کا رونا روتے ہوئے عوام نے
شکایت کی کہ جناب دال اور مرغی کی قیمت ایک برابر ہو گئی ہے ۔جس پر موصوف
نے فرمایا تو جناب پھر مرغی کھائیں دال کھانے کا کیا فائدہ ۔جناب شوکت عزیز
کو شائد وزیر اعظم ہی اس لئے بنایا گیا تھا کہ یوٹیلیٹی سٹور کے چنوں میں
سوراخ نہ رہیں۔انہوں نے ایک مرتبہ بڑے غرور اپنی حکومت کی کارکردگی پر
روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا تھا ’’ان کے دور میں یوٹیلیٹی سٹور کے چنوں میں
سوراخ نہیں تھے۔
موٹی پن والا چارجر
ایک دور تھا جب مہمان کے اطمینان سے چوکڑی مارے بیٹھے چائے پیتے باہر سے
پپو کی آواز بم بن کر گرتی تھی ’’چاچا! تیرا سائیکل کوئی لے گیا ‘‘اور
مہمان پیالی کے ٹوٹنے کاخیال کئے بغیر اپنی چوکڑیاں باہر کی جانب بھر لیتا
تھا ۔مہمان کو لاکھ سمجھایا جاتا کوئی شرارت سے لے گیا ہو گا ابھی واپس آ
جائے گا مگر مہمان ’’مینوں اک پل چین نہ آوے ‘‘ کی تصویر بنا ہر ’’تعزیت ‘‘
کے لئے آنے والے کو اس یقین سے ساتھ دیکھتا کہ شائد یہی سائیکل لے کر گیا
تھا۔شام تک جب امیدیں ہر جانب سے ناکام لوٹ آتیں تو مہمان دل پر ہاتھ رکھ
بتاتا کہ وہ سائیکل کرایہ کی تھی میں سیٹھ مرلی داس کو سائیکل کہاں سے واپس
کروں گا ۔اگر میں سائیکل کی قیمت چکانے کے لئے اس کی دوکان پر کام بھی
کرلوں تو جتنی میری دیہاڑی بنے گی وہ تو ساری سائیکل کے کرائے میں کٹ جائے
گی اور سائیکل وہاں کی وہاں ہی موجود رہے گی۔اس لئے واپس نہ جانا ہی بہتر
ہے پکڑتا رہے میرے ضمانتی اپنے بھائی اجے کو ہی ہی ہی۔
دوسرا دور آیا سوٹڈ بوٹڈ لڑکا نئی نویلی موٹر سائیکل سے اترا شادی کا گھر
ہے ابھی لڑکی کی برات آنے میں کافی دیر ہے وہ لڑکا باربار گھڑی کی جانب
دیکھ رہا ہے۔بہت سی خواتین کی نگاہیں لڑکے پر ہیں ۔ایک خاتون دوسری سے’’
کسی کھاتے پیتے گھرانے کا چشم وچراغ لگ رہا ہے‘‘۔ وہ لڑکا گھڑی دیکھتے ہوئے
اٹھ کر گلی میں کھڑی موٹرسائیکل کا لاک چیک کرتا ہے ۔ دوسری خاتون’’میرے
خیال میں اس کے گھر کا ایڈریس وغیرہ لے لوں اپنی بیٹی کی بات چلاؤں گا کسی
سرکاری محکمے کا ملازم لگتا ہے۔‘‘لڑکا اٹھ کر خاتون خانہ کے قریب آتا
ہے’’خالہ ! مجھے فارغ کر دیں ،مجھے جلدی ہے‘‘۔بیٹا ابھی بارات بھی نہیں آئی
،کچھ دیر تو ٹھرو کہیں نوکری پہ جانا ہے کیا ‘‘۔نہیں خالہ میں موٹرسائیکل
کرایہ پر لے کر آیا ہوں ایک گھنٹہ ہونے میں صرف پندرہ منٹ باقی ہیں۔مجھے
خواہ مخواہ دوسرے گھنٹے کا کرایہ بھی پڑ جائے گا‘‘۔
آج کے دور میں ابھی مہمان ابھی گھر کے اندر ہی داخل ہوتا ہے تو اپنا موبائل
فون نکالتا ہے گھر کے چاروں کونوں میں مینڈک کی طرح پھدکتا ہے اپنے موبائل
پر سگنل کی تعداد کو نوٹ کرتا ہے ۔اہل خانہ سے مخاطب ہوتے ہوئے ’’آپ کے ہاں
سگنل کم آتے ہیں ،ہاں اس تیسرے کونے میں سگنل کی تعداد کچھ بہتر ہیں ‘‘اس
کے ساتھ ہی اس کی نظر بیٹری والے پورشن پر پڑتی ہے ’’اوہ بیٹری ڈاون ہو رہی
ہے ‘‘۔’’بیٹا کیا پیئے گا ‘‘۔’’خالہ! پینے کو چھوڑیں مجھے موٹی پن والا
چارجر دیں بیٹری بڑی تیزی سے ڈاؤن ہو رہی ہے‘‘۔*** |