نریندر مودی بڑی ہوشیاری سے اپنا کام کررہے ہیں ان کی
شاطرانہ چالیں بہت سوں کے لئے اگر ناقابل فہم ہیں تو کانگریس مودی کے تمام
حربوں کو سمجھتے ہوئے ان سے بھر پور فائد ہ اٹھارہی ہے۔ بی جے پی اور
کانگریس اپنے اپنے انداز میں مودی سے مسلمانوں کو ڈرانے کا کام لے رہی ہیں۔
مسلمانوں میں عام طور پر تو نہیں لیکن کچھ مسلم حلقوں میں اس اندیشے کے تحت
کہ اگر نریندر مودی (اﷲ نہ کرے) وزیر اعظم بن جائے تو وہ مسلمانوں کے لئے
پورے ملک کو گجرات بنادیں گے۔ ویسے یہ اندیشہ بالکل ہی غلط نہیں ہے لیکن اس
قسم کے اندیشوں پر توجہ اس وقت دی چانی چاہئے جبکہ نریندر مودی کے وزیر
اعظم بننے کے امکانات روشن ہوں۔ بی جے پی کو معہ اپنے گنے چنے حلیفوں کے
لوک سبھا میں اکثریت حاصل ہو اور یہی فی الحال بی جے پی کے لئے ہرگز آسان
نہ ہوگا ویسے حتمی طور پر کسی کی کامیابی کے تعلق سے پیش قیاسی آسان نہیں
ہے۔ یہ ضرورہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ 2014ء کے انتخابات میں ایسی حکومت برسر
اقتدار آئے جو نہ ہی کانگریس کی قیادت میں بنے اور نہ ہی بی جے پی کی قیادت
ہو علاقائی جماعتیں کئی ریاستوں میں غلبہ حاصل کرسکیں گی بلکہ مخلوط حکومت
ملک کی مجبور ہوگی اور ایسی حکومت کے وزیر اعظم بننے کے مودی اور راہو ل
گاندھی آج کے حالات کے تناظر میں صرف خواب دیکھ سکتے ہیں۔
مودی کو کانگریس اپنے فائدے کے لئے زیادہ استعمال کررہی ہے۔ ایک طرف مودی
خود کو خطرناک اور خوف ناک بناکر پیش کررہے ہیں تو دوسری طرف اس کے اسی روپ
کو مزید بھیانک بناکر مسلمانوں کو ڈرا کر مسلمانوں پر واضح کرنا چاہتی ہے
کہ مودی جیسے خطرناک انسان سے تم کو تحفظ صرف کانگریس دے سکتی ہے۔ کانگریس
واضح اور واشگاف انداز میں مسلمانوں سے بھلے ہی یہ بات نہ کہتی ہو لیکن عقل
مند کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔
ہمارے ذرائع ابلاغ پر صرف بی جے پی بلکہ سنگھ پریوار کا ہی غلبہ نہیں ہے
کئی بڑے و اہم اخبارات اور مقبول عام ٹی وی چینلز کانگریس کی ہم نوا بھی
ہیں۔ ظاہر ہے کوئی اخبار یا ٹی وی چینل کسی سیاسی جماعت کا پروپگنڈہ یوں ہی
نہیں کیا جاتا ہے۔ اسی لئے کانگریس کے حامی یا خرید کردہ چینل ایک طرف
وزارت عظمی کے عہدے کے لئے کانگریس کے اختلافات کو چھپانے کی کوشش کررہے
ہیں تو دوسری طرف نریندر مودی کے مخالف مسلم بیانات کی تشہیر زور شور سے کی
جارہی ہے۔ نریندر مودی کا خوف زیادہ سے زیادہ طاری کرنے کی کوششیں کی جارہی
ہیں تاکہ بی جے پی سے خوف زدہ مسلمان کانگریس کو ووٹ دینے پر مجبور ہوجائے
۔ ایک طرح سے مودی کانگریس کے لئے آکسیجن کا کام کررہے ہیں۔ خود مودی کو
شائد ہی پتہ ہوکہ وہ کانگریس کے لئے کس قدر فائدہ مند ہیں؟ لیکن یہ خیال نہ
آخری ہے اور نہ ہی حتمی ہے کیونکہ ایک مکتب خیال کے مطابق بی جے پی کو اس
کی پر واہ نہیں ہے مودی کے ڈراور خوف کی وجہ سے مسلمان ووٹرس کی بھاری
تعداد کانگریس کا رخ کرسکتی ہے۔ بی جے پی کی ’’مجلس دانشوران ‘‘Think Tank
کا خیال ہے کہ عوام کو تقسیم کرکے ان میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلاکر غیر
مسلم ووٹرس کوہندوتوا کی علمبردار بی جے پی کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے۔
نریندر مودی کو اپنے طور پر حکومت اور پارٹی میں ہی نہیں بلکہ ملک میں ہی
مسلمانوں کا وجود گوارہ نہیں ہے۔ وہ مسلمانوں کو گول والکر، ہیڈ گوار اور
ساورکر کی طرح مملکت میں مسلمانوں کو درجہ دوم کا شہری بناکر رکھنا چاہتے
ہیں اسی لئے وہ مسلمانوں کو کسی قسم کی کوئی اہمیت دینے کے روادار نہیں ہیں
۔ حال ہی میں احمد نگر میں مسلمانوں کا جو سمینار مودی نے منعقد کروایا تھا
وہ بھی تماشہ تھا۔ اس کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ بی جے پی مسلمانوں
کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی لیکن مسلمان ہی نہیں مانتے ہیں ۔ اس کا
فائدہ یہ بھی ممکن ہے کہ کیونکہ مسلمان بی جے پی سے دور ہیں۔ اس لئے زیادہ
سے زیادہ ہندو بی جے پی میں شریک ہوں اور ووٹ دیں۔ بی جے پی کی یہ حکمت
عملی کانگریس سمجھتی ہے اور کانگریس کی چالیں بی جے پی سمجھتی ہے۔ اس لئے
ایک خاص حکمت عملی کے تحت دونوں ایک دوسرے کو دھوکے میں رکھ کر اندھی چالیں
چل رہی ہیں۔
کانگریس نے بلاشبہ دوبارہ برسراقتدار آنے کا حق کھودیا ہے ملک کی معیشت کو
چدمبرم، مونٹک اہلوالیہ اور منموہن سنگھ کے مثلث نے کو تباہ کردیا ہے۔
کانگریس کی ناکامی، نااہلی، رشوت، بیروزگاری اور کرپشن کانگریس کی راہ کی
رکاوٹ بن سکتی ہیں اور بی جے پی کی ساری امیدیں اسی پر منحصر ہیں کہ
کانگریس سے بیزار عوام بی جے پی کو اقتدار میں لانا پسند کریں گے اور یہی
بی جے پی کی خام خیالی ہے۔ مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک،
ہریانہ، چھتیس گڑھ ایسی اہم ریاستیں ہیں جہاں کانگریس اور بی جے پی میں
راست مقابلہ ہوگا ۔ ان ریاستوں میں اول تو کسی ایک پارٹی کا زیادہ سے زیادہ
نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا قرین قباس نہیں ہے دوسرے ان تمام نشستوں پر
کامیابی مل بھی جائے تو لوک سبھا میں قطعی اکثریت نہیں ملے گی۔ یو پی بہار
آندھراپردیش ٹاملناڈو آسام مغربی بنگال اور پنچاب میں اصل مقابلہ یا فیصلہ
ہوگا۔ ان ریاستوں کی علاقائی جماعتیں نہ صرف کانگریس کا متبادل ہوں گی بلکہ
بی جے پی کا بھی۔
نریندر مودی کی کامیابی کے خدشوں میں ہم یہ بھول رہے ہیں کہ سارے ہندو نہ
فرقہ پرست ہیں اور ن ہی سیکولر ہیں۔ نریندر مودی کی تنگ نظری، گجرات میں
ترقی اور خوش حالی کا فریب مودی کے کام نہ آئے گا۔ عام ہندو سارے ملک کو
گجرات بنانا پسند نہ کرے گا اور نہی ان کو ایسا بندہ بھلا کیسے پسند ہوگا
جو امریکہ اور کئی ممالک کا بھی دورہ نہ کرسکے جو اپنے مظالم، شقاوت اور
مسلم دشمنی پر معذرت طلب نہ کرسکے۔ ان حالات میں کانگریس اور بی جے پی کے
متبادل محاذ کا کسی نہ کسی مرحلہ پر وجود میں آنا ضروری ہے ۔ گو یہ ناممکن
ہے۔ تاہم اگر مغربی بنگال میں ممتابنرجی اور بائیں بازو کی جماعتوں کے
محاذ، بہار میں لالو نتیش کمار، یو پی میں مایاوتی اور ملائم سنگھ ،
آندھراپردیش میں تلگودیشم اور وائی ایس آر کانگریس ٹاملناڈو میں دونوں ڈی
ایم کے میں انتخابی اتحاد یا کم از کم نشستوں کی تقسیم پر کوئی سمجھوتہ
ہوجائے تو مخلوط حکومت کی قیادت کرتے ہوئے بھی حکومت بنانا کانگریس اور بی
جے پی کے لئے ناممکن ہوگا لیکن اس تعلق سے کوئی بات سوچنا بھی ناممکن ہے کہ
یہ حریف مل سکتے ہیں۔
بی جے پی کیلئے اکیلے حکومت سازی کے لئے درکار 272 نشستیں حاصل کرنا ناممکن
ہے۔ ماضی میں این ڈی اے میں شرکت کے لئے علاقائی جماعتوں میں جو کشش تھی وہ
اب ختم ہوچکی ہے۔ امید تو یہ ہے کہ ملازئم سنگھ، مایاوتی ، چندرابابو
نائیڈو اور ممتابنرجی اور نتیش کمار میں سے کوئی ایک بھی این ڈی اے میں
شامل نہ ہوگا سوائے اس کے کہ ووٹڑس کے رجحان میں کوئی غیر متوقع الٹ پھیر
ہو بی جے پی پی کی پریشانی یہ ہوگی کہ نریندر مودی کو وزیر بنانے کیلئے
درکار ارکان پارلیمان ملنا آسان نہیں ہے۔ یہی صورت حال کانگریس کی ہے اس
لئے مسلم ووٹرس کے حصول کے لئے مودی کے بارے میں پروپگنڈہ شدت سے کیا جارہا
ہے لیکن عشرت جہاں ، صادق جمال اور دوسرے مقدمات میں این ڈی اے اور یو پی
اے حکومتوں کے رویہ نے بی جے پی اور کانگریس سے مسلمانوں کی دوسری میں
اضافہ ہوگیا ہے۔ ادھر مرکزی محکمہ داخلہ کے سابق انڈرسکریٹری آر وی ایس منی
نے عدالت میں داخل کردہ اپنے حلف نامہ میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ
پارلیمان پر حملہ (این ڈی اے دور) ممبئی حملہ 26/11 (یو پی اے دور) خود
حکومت نے کروائے تھے تاکہ انسداد دہشت گردی کے لئے سخت قانون وضع کیا جائے۔
گزشتہ چند دنوں میں سرکاری ایجنسی آئی بی کا کردار مشکوک سے مشکوک تر ہوتا
جارہا ہے۔ اس تناظر میں غور کریں کہ کانگریس حکومت کے لئے نریندر مودی کو
مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے مودی کا پروپگنڈہ کروانا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔
مسلمانوں کو مودی کو زیادہ اہمیت نہیں دینا چاہئے۔ مودی سے ڈرنے کی بھی
ضرورت نہیں ہے۔ مودی کا وزیر اعظم بن جانا اتنا آسان نہیں ہے جس قدر کہ ہم
کو باور کروایا جارہا ہے۔ یادرکھیں
’’دشمن گر قوی است نگہبان قوی تراست‘‘ |