باسمہ تعالیٰ
ہندستان دنیامیں آبادی کے اعتبارسے دوسرے مقام پرہے اورچین پہلے مقام
پر،لیکن جمہوریت کے اعتبارسے دنیا میں اول مقام حاصل ہے،امریکہ
اورکناڈاکانمبربھی ہندستان کے بعدآتاہے،اورحالیہ زمانے میں اقتصادی اورفوجی
اعتبارسے بھی دنیاکے ترقی پذیرملکوں کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل
کیاہے۔ہندستان اورچین تہذیب وثقافت کے اعتبارسے بھی دنیاکی قدیم ترین
تہذیبوں میں سے ہیں،دونوں ملکوں کی تہذیب وثقافت کی تاریخ ماقبل تاریخ سے
چلی آرہی ہے،ہندستان اورچین دونوں ہی ملک آبادی کے اعتبارسے بھی دنیاکے
دیگرملکوں کے مقابلے تیزی کے ساتھ بڑھنے والاملک ہے اوراقتصادی اعتبارسے
بھی ،یہ الگ بات ہے کہ چین کی اقتصادی وفوجی حالت ہندستان سے کہیں بہترہے۔
ہندستان اورچین کے مابین گذرنے والی مشہورشاہراہ’’شاہراہ ریشم‘‘کا اہمیت
صرف اس لیے نہیں ہے کہ وہ دونوں ملکوں کی تجارت کااہم ذریعہ ہے بلکہ مذہبی
اعتبارسے بھی اس شاہراہ کوایک خصوصی حیثیت حاصل ہے،ہندستان سے مشرقی ایشیاء
میں بدھ مذہب کوفروغ دینے میں اس شاہراہ کااہم کردارہے جسے فراموش نہیں
کیاجاسکتا۔اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندستان اورچین نے ہی جاپانی
شہنشاہیت کے اثرات کوبڑھنے سے روکاتھا۔
آزادی کے بعدچین کی نظربدکوبھانپتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم جواہرلال
نہرونے ایک بڑاہی جامع معاہدہ تیارکیاتھاجسے تاریخ میں’’پنچ شیل معاہدہ‘‘کے
نام سے یاد کیا جاتاہے۔۲۹؍اپریل ۱۹۵۴ء کوپیکنگ میں اس معاہدہ پردونوں ملکوں
کے سربراہوں نے دستخط کیے۔معاہدہ کے وہ پانچ نکات یہ ہیں:۱۔دونوں ملک ایک
دوسرے کی علاقائی سالمیت اورخودمختاری کااحترام کرے گا۔۲۔دونوں ملک باہمی
عدم جارحیت کی پالیسی پرعمل پیرارہے گا۔۳۔دونوں ملک ایک دوسرے کے اندرونی
معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔۴۔دونوں ملک مساوات اورباہمی فائدے کے اصول
پرکام کرے گا۔۵۔پرامن اوربقائے باہمی کے اصول پرعمل کرتے ہوئے دونوں ملک
اپنے حدمیں رہیں گے۔
یہ معاہدہ جسے نہرونے پنچ شیل کانام دیاتھابہت ہی جامع اوردونوں ملک کے حق
میں یکساں طور پر مفید تھا،لیکن چین نے ۸؍سال کی قلیل مدت میں ہی معاہدہ کی
خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندستانی علاقہ میں دراندازی شروع کردی جس کانتیجہ
۱۹۶۲ء کی جنگ کی شکل میں نکلا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ۱۹۶۲ء میں ہندستان کے
حالات جنگ کوبرداشت کرنے والے نہیں تھے،لیکن اب حالات مختلف ہیں۔۱۹۸۰ء سے
دونوں ملکوں نے ڈپلومیسی اورتجارتی سطح پرکامیابی کے ساتھ اپنے روابط
کوبڑھائے ہیں۔۲۰۰۸ء میں چین نے ہندستان کواپناسب سے بڑاتجارتی شریک
کارمانااوراسٹراٹیجی اورفوجی سطح پربھی باہمی تعلقات کومضبوط کیا،لیکن
افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ان سب کے باوجودچین اپنی منافقانہ پالیسی
کوچھوڑنے پرآمادہ نہیں ہے اورتقریباً۴؍ہزارمیل کے سرحدی علاقوں میں سے
۳؍ہزارمیل کے تنازعہ کواب تک حل کرنے پرآمادہ نظرنہیں آتاہے۔چین کی
منافقانہ پالیسی کاایک واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ چین ہندستانی پالیسی کو
نظرانداز کرتے ہوئے جیساکہ پنچ شیل معاہدہ کے پہلے بندمیں کہاگیاہے وہ
برابرلداخ کے علاقہ میں دراندازی کرتارہتاہے اسی طرح اپنے نقشہ پراروناچل
پردیش کوچین کاحصہ بتانے میں بھی شرم نہیں محسوس کرتا۔اسی طرح کشمیرکے عوام
کوسادے کاغذپہ ویزااسٹامپ کرناہے جس پرہندستان اپنااحتجاج درج کراچکاہے۔اسی
طرح چین اپنی منافقانہ پالیسیوں سے ہندستان کوزک پہونچاتارہتاہے،جیساکہ
جنیوامیں اقوام متحدہ کے اجلاس میں اس نے بالکل ہندستان کے مخالفت میں سری
لنکاکے خلاف ووٹ دیا۔ہندستان کے لیے ایک پریشانی اورہے وہ ہے کہ چین
سیکورٹی کونسل کامستقل رکن ہے اورہندستان غیرمستقل رکن،اس وجہ سے بھی چین
ہمیشہ ہندستان کونیچادکھانے کی کوشش کرتارہتاہے۔
ان سب کے باوجودجون ۲۰۱۲ء میں چینی وزیراعظم اورہندستان کے وزیراعظم منموہن
سنگھ نے ایک معاہدہ پردستخط کرکے باہمی تجارت کو۲۰۱۵ء تک ۱۰۰؍بلین ڈالرتک
بڑھانے کا ہدف مقررکیاہے۔جہاں ایک طرف دونوں ملک سرحدی اختلاف کے
باوجوداپنی تجارتی ترقی کوبڑھانے پرزوردے رہے ہیں اوریہ کوشش کی جارہی ہے
کہ دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتمادکی جوفضاہے اسے ختم کیاجائے اوراس
سلسلہ میں ہندستان کارویہ بڑاہی صاف ہے،وہیں دونوں ملکوں کی عوام ایک دوسرے
ملک کے بارے میں کیانظریہ رکھتے ہیں یہ جاننے کے لیے ۲۰۱۳ء میں بی بی سی نے
ایک سروے کرایاجس میں۳۶؍فیصدہندستانیوں نے چین کوبھروسہ مندپڑوسی
بتایاتووہیں۲۷؍فیصدنے اپناعدم اعتمادظاہرکیااس کے برعکس چین کے صرف
۲۳؍فیصدلوگوں نے ہندستان پراپنابھروسہ جتایاجبکہ ۴۵؍فیصدلوگوں نے اپنی رائے
نفی میں دی۔
چین آبادی کے اعتبارسے دنیاکاسب سے بڑاملک ہے اس میں کوئی شک نہیں اس کی
فوجی طاقت بھی ہندستان سے زیادہ ہے،یہ بھی ایک حقیقت ہے،ترقی پذیرممالک کی
صف میں بھی چین ہندستان سے کافی آگے ہے اوراس وقت پوری دنیامیں اپنی
مصنوعات کوپہونچانے میں کامیاب ہے،لیکن اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہندستان
کوکمزورسمجھ کرچین ہندستان پرحملہ کردے اوران علاقوں کوجس پروہ ہمیشہ دعویٰ
کرتاآیاہے اپنے قبضہ میں لے لے گا،بھلے ہی ہندستانی فوج عددی اعتبارسے چین
سے کم ہے ،لیکن ہمت وحوصلہ میں چین سے کہیں بڑھ کرہے،اوراس حقیقت سے بھی
انکارممکن نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں ہند۔چین جنگ دونوں ملکوں کے لیے ہی
نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے کیوں کہ جہاں ایک طرف ہندستان چین کی مصنوعات کی
کھپت کاایک بڑاملک ہے وہیں عالمی سطح پرہندستان کوچین سے کہیں زیادہ
مقبولیت حاصل ہے، اور اگر ایسا ہوتاہے توبہت ممکن ہے کہ چین عالمی برادری
میں الگ تھلگ پڑجائے،کیوں کہ چین کی بڑھتی ترقی امریکہ کے لیے بھی پریشانی
کاباعث ہے،وہیں دوسری طرف چین ہندستان کے مقابلہ پاکستان پرزیادہ
اعتمادکرتاہے اورپاکستان کی عالمی برادری میں کیاحیثیت ہے وہ اہل فکرسے
پوشیدہ نہیں ہے۔لیکن ان سب کے ساتھ ہندستانی قیادت کوبھی چین کی منافقانہ
پالیسیوں پرگہری نظررکھنی ہوگی،اورباربارکی بداعتمادی اورآئے دن ہندستانی
علاقوں میں دراندازی کے معاملہ پراس سے سختی کے ساتھ گفت وشنیدکرنی
ہوگی۔کیوں کہ اب تک کی تاریخ کے حوالہ سے چین ہمیشہ بداعتمادہی ثابت
ہواہے،اسی لیے بجائے اس کے کہ ہم اس کی باتوں پراعتمادکریں،ہمیں عالمی سطح
پراس مسئلہ کوحل کرانے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی۔رپورٹوں کے مطابق ہندستان
کے بہت سارے حصوں پرچین ابھی بھی قابض ہے لیکن ہندستان نے ابھی تک سختی کے
ساتھ اس کانوٹس نہیں لیاہے،آخرکیوں؟اگریہی معاملہ پاکستان کی طرف سے ہوتاہے
تواینٹ کاجواب پتھرسے دینے کی بات کہی جاتی ہے اورفوراًہی اس کے ردعمل میں
کھیل جیسے ثقافتی امورپربھی پابندی لگادی جاتی ہے،لیکن چین کی
بارباردراندازی پرہمارالب ولہجہ اتناہلکاکیوں رہتاہے۔یہ صحیح ہے کہ چین
ہندستان کوکمزورسمجھنے کی غلطی کرکے وہ اپنے لیے قبرکھودے گالیکن اس کے لیے
ہندستان کوپہلے سے تیاررہناہوگاکیوں کہ چین مستقل طورپراپنے دفاعی بجٹ میں
اضافہ کرتاجارہا ہے اورہندستانی قیادت یہ کہہ کرعوام کوخاموش کردیتاہے کہ
سرحدپرسب ٹھیک ٹھاک ہے جوکہ مستقبل کے لیے بالکل بھی ٹھیک ٹھاک کی ضمانت
نہیں ہے۔اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندستان وقت رہتے اس مسئلہ کوحل کرے
اورچین کوخبردارکردے کہ ہندستان کے حالات ۱۹۶۲ء سے بہت مختلف ہیں۔٭٭٭ |