ملک میں صدارتی انتخابات قریب
آتے جارہے ہیں اور ہر پارٹی نے اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار دیے مگر
جیتے گا وہی جسے حکمران جماعت مسلم لیگ ن نامز د کرے گی اب دیکھنا یہ ہے کہ
کیا مسلم لیگ ن واقعی پاکستان کی خالق جماعت ہونے کا حق ادا کرتی ہے یا پھر
باقی کے سیاسی لٹیروں کی طرح اپنا الو سیدھا کرکے کسی ایسے شخص کو پاکستان
کا صدر بنا دیتی ہے جو کٹھ پتلی ہو اور اس کی ایک ڈوری وزیر اعظم کے ہاتھ
میں ہو دوسری ڈوری خادم اعلی پنجاب کے ہاتھ میں ہو اور باقی کی دو ڈوریوں
میں سے ایک وزیر اطلاعات کے پاس اور دوسری بھی کسی اہم شخص کے ہاتھ میں ہو
جس کا جہاں دل چاہا وہی پر پتلی تماشا شروع کردیا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا
واقعی ہم نے پاکستان کو آگے لیکر جانا ہے اور پاکستان کی صدارت کا منصب کسی
ایسے شخص کے سپرد کرنا ہے جو واقعی اس کا اہل بھی ہو جس کے اندر خوبیاں بھی
ہوں جس نے پاکستان کے لیے کچھ کیا بھی ہو اور تو اور پاکستانی بھی اس کی دل
وجان سے قدر کرتے ہوں تو کیا ایسا شخص پاکستان میں موجود ہے ؟ جی ہاں بلکل
موجود ہے جسے میرے سمیت ہر محب وطن پاکستانی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس
نے پاکستان کی خدمت کا بیڑہ اٹھایا تو وہ کرکے دکھا دیا جو آج تک کوئی نہ
کرسکا اسے نہ تو تنخواہ کا لالچ تھا نہ مراعات کی خواہش اگر اس شخص کے اندر
کوئی جذبہ موجود تھا تو وہ پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کا جذبہ تھا اور
پھر ایک دن دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان میں چاغی کے پہاڑ کس طرح خاموشی سے
ریت میں تبدیل ہو گئے اور پاکستان نے دنیا کے نقشے پر ایک ایٹمی قوت بن
کردشمنوں کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتادیا کہ اب اگر کسی نے پاکستان کی
طرف میلی انکھ سے بھی دیکھا تو اسکا حشر قیامت تک یاد رکھا جائے گاپاکستان
کی خاطر بے شمار قربانیاں دینے والے اور ملک کو ایٹمی قوت بنانے والے ڈاکٹر
عبدالقدیر خان سے بڑھ کر قابل، محب وطن اور ہمدرد شخص اور کون ہوسکتا ہے کہ
جسے قوم نے محسن پاکستان کا خطاب دے دیا اور جس کی ہیبت سے امریکہ جیسا سپر
پاور بھی کانپ اٹھتا ہے مگر بدقسمتی سے سابق آمر اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے
امریکہ کے اشارے پر محسن پاکستان کو ذہنی تشدد کا نشانہ بناکر یہ ثابت
کردیا کہ وہ پاکستان کا مخلص نہیں بلکہ امریکی مفادات کا حامی تھا اور انہی
کے ایجنٹ کے طور پر پاکستان میں حکمران تھا جس نے نہ صرف لال مسجد میں
آپریشن کرکے بے گناہ اور معصوم بچوں کو شہید کیا بلکہ نواب اکبر بگٹی کوبھی
جان بوجھ کر شہید کروایا اور امریکہ کو ملک میں ڈرون حملوں کی ایسی اجازت
دے دی کہ جس سے آج تک پیچھا نہیں چھڑوایا جا سکااگر پرویز مشرف محب وطن
ہوتا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کوئی ایسا کام لیتا کہ آج پاکستان بحرانوں
کا شکار نہ ہوتا جبکہ پرویز مشرف کے بعد آنے والی پیلز پارٹی نے بھی محسن
پاکستان کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے کیونکہ پاکستان اور بلخصوص
مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن امریکہ کی نظر میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کسی
کانٹے کی طرح چبھتے ہیں اس لیے ماضی کے حکمرانوں نے امریکہ کے ڈر سے ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کو کھڈے لائن لگائے رکھااگر ہم تعصب کی عینک اتار کر زرا غور
کریں کہ پاکستان کے ایٹمی وقت بننے سے قبل انڈیا ہم سے تین جنگیں کرچکا تھا
اور اس نے اپنی مکاری سے پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش بنوا دیااگر ہم
ایٹم بم نہ بناتے تو آج ہمارا پاکستان نہ جانے کس حالت میں ہوتا مگر ڈاکٹر
عبدالقدیر خان نے اپنے مٹی کا فرض ادا کرتے ہوئے اسے اتنا طاقتور بنا دیا
کہ دشمن حملے کا سوچ کر ہی کانپ اٹھے اور جب سے پاکستان ایٹمی وقت بنا اس
وقت سے لیکر آج تک ہمارے دشمن جنگ سے ڈرتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے پاکستان میں
ترقی کے خواب دکھا کر جیتنے والے میاں نواز شریف محسن پاکستان ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کوصدر پاکستان بناتے ہیں یا پھر وہ بھی امریکہ کے سامنے
بھیگی بلی بن کر کسی ایسے شخص کا انتخاب کریں گے جو کٹھ پتلی ہوجسے اپنے
منصب اور منصب داروں سے ہی پیار ہوگااور رہی پاکستانیوں کی بات تو انکی کون
سنتا ہے انکی تو وہ بھی نہیں سنتے جو انکے ووٹ لیکر کونسلر بن جاتے ہیں اور
بعد میں وزیر اعطم بن کران سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں ۔
اب کچھ صدارتی انتخاب کے حوالہ سے اپنے پڑھنے والوں کو بتا دوں کہ سابق
پارلیمنٹ نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 41 میں شق 4 کا اضافہ
کیا جس کے تحت صدر مملکت کے عہدہ صدارت کی مدت ختم ہونے سے ایک ماہ قبل نئے
صدر کا انتخاب ضروری قرار دے دیا گیا صدر مملکت آصف علی زرداری کی مدت
صدارت 8 ستمبر کو ختم ہورہی ہے اسلئے الیکشن کمیشن نے آئینی تقاضے کے تحت
صدارتی الیکشن 6 اگست کو کرانے کا شیڈول جاری کیا اگر انتخابات آئینی ٹائم
فریم کے اندر ہوئے تو ملکی تاریخ میں پہلی بار ملک میں 32 روز تک بیک وقت
دو صدور ہوں گے اور نومنتخب صدر کو عہدہ صدارت سنبھالنے کیلئے 32 روز تک
صدر آصف علی زرداری کی مدت صدارت ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا |