شعبہ اردو کروڑی مل کالج دہلی یونیورسٹی کی تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیاں

گزرے ہوئے دنوں کی ہر اک یاد کو سلام
آؤ نئی حیات کو اب دیں نیا پیام
پھولوں کا تذکرہ ہو اجالوں کی بات ہو
اب حوصلوں کی راہ میں دن ہو نہ رات ہو
انسان مادی سطح پر جیسے جیسے ترقی کر تا جارہا ہے اس کی ضروریات زندگی بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور جیسا کہ کہا جاتا ہے ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے ۔ یعنی جب انسان کی ضرورتیں بڑھیں گی تووہ اپنی ضرورتوں کو پورا کر نے کے لیے چیزیں بھی ایجاد کرے گا۔ اس ضمن میں مجھے کو ئی تفصیلی گفتگو نہیں کرنی بلکہ سمینار کی ضرورت کیوں ہے اور اس کی ہماری زندگی میں کتنی اہمیت ہے اس پر سر سری طور پر روشنی ڈالنی ہے۔ آج زندگی کے جو بھی شعبے ہیں تقریباً سب اپنے شناخت کو منظر عام پر لانے کے لیے سمینار منعقد کر تے ہیں ۔ اب بڑی بڑی کمپنیاں اپنے پروڈکٹ کو عام کرنے کے لیے اپنے ایجنٹوں کے لیے سمینار کا اہتمام کرتے ہیں جس کی فیس بھی لیتے ہیں ۔ سمینار کے نام پر پوری ایک تجارت کا سلسلہ بھی ہے لیکن یہاں یہ عرض کروں کہ میں ریسرچ اسکالروں خاص طور سے اردو ریسرچ اسکالروں کے لیے علمی و ادبی سمینار کتنے اہم ہیں اس پر روشنی ڈالنی ہے ۔ جو بھی بھائی ریسرچ کر رہے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سمینار میں شرکت کریں اور بغور پڑھے جانے والے مقالات اور ہونے والی تقاریر کو سنیں۔ یہ بات اس لیے کی جا رہی ہے کہ آج ہم سمیناروں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرنے سے گریز کر تے ہیں یا ان کی اہمیت و افادیت سے لاپروائی برت رہے ہیں جبکہ اس کے بہت فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ آپ کو ایک دن میں کئی اہم قلمکاروں ، ناقدوں، محققوں کے خیالات معلوم ہو جاتے ہیں ۔ مختلف خیالات و نظریات سے بھی واقف ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہمارے خیالات و نظریات میں کو تقویت ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر بھی لکھنے پڑھنے کا جوش و جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ اگر آپ قلمکاروں ، نقادوں ، محققوں سے ملتے ہیں توسب سے بڑا فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ان کے رابطہ میں آجائیں گے جو آپ کی مدد کر سکتے ہیں ۔ کئی سوالات ایسے ہوتے ہیں جن کا جواب کتابوں میں نہیں ہوتا وہ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سمینار میں شرکت کے متعدد فائدے ہیں۔ آپ کو اپنی زبان و ادب سے کتنی دلچسپی ہے اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ کچھ ریسرچ اسکالر ز صرف اپنے مو ضوع تک محدود رہتے ہیں جبکہ انٹر ویو میں صرف مو ضوع کے متعلق ہی نہیں سوالات ہوتے ۔ بہر کیف اگر ہمیں زندگی میں کچھ کرنا ہے اور ادب میں مقام بنانا ہے تو سمینار میں شرکت بہت ضروری ہے۔

ہم ہندوستانیوں کے مشترکہ کلچرکی روایت میں شامل ہے جو مختلف النوع شعری ادبی اور دیگر تقریبات میں بڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں پر شفقت کرنا لہٰذا ہم اس روایت کی پاسداری کر تے ہوئے ۔ اس ادبی محفل میں مدعومہمانوں کو بدست شعبہ کے سینئر اساتذہ پھول کا گلدستہ پیش کیا گیا۔

اس مغربی تہذیب و تمدن کے مشترکہ کلچرمیں اردو، ہندی تہذیب کا یہ طالب علم کس طرح لب کشائی کی جرأت کرے یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن یہ یقین ضرور ہے کہ ہندوستانی تہذیب میں خردوں کو ہمیشہ شفقت سے نوازا گیا ہے۔ جس طرح مسلسل جنگ سے انسان سخت ہو جاتا ہے ہماری زبان اور ہمارا لہجہ بھی ہو سکتا ہے لیکن بہر حال کچھ نہ کچھ کام کی باتیں میری گفتگو میں یقینا ہوگی۔

حضرات :آپ کے علم میں ہے کہ نئے تعلیمی نظام کے تحت جامعات میں میقاتی نظام سمسٹر سسٹم کو اہمیت دی جارہی ہے۔دہلی یونیورسٹی نے بھی اس سلسلہ میں سال گزشتہ سے ہی پیش رفت کر دی ہے۔سائنس کے سبھی شعبہ اس پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔یونیورسٹی کا نیک ارادہ یہ ہے کہ آئندہ تعلیمی سال سے ہومیونیٹیز اور سوشل سائسنسز کے جملہ شعبہ میں میقاتی نظام کے تحت درس تدریس کے سلسلہ کا آغاز ہوجائے کروڑی مل کالج اور شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی اس حوالے سے آج یہ سمینار اور ورکشاپ کا اہتمام کررہاہے ۔جس میں میقاتی نظام کے تحت بننے والے نصاب پر مناسب تجاویز اور اس کا خاکہ پر بھر پور علمی وادبی گفتگو ہوگی تاکہ نصاب کی تیار ی کے وقت ان امور پر توجہ دی جا سکے۔

انسانی سماج میں عالمی سطح پر روز اول سے تغیر وتبدل کا تصور ہر دور میں پایا جاتا رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کے لیے اصطلاحات بدلتے رہے ہیں۔ عصری تقاضے کی روشنی میں عالمی سطح پر رفتہ رفتہ ترقی کر کے آج انسانی تہذیب نے جتنی کروٹیں بدلی ہیں ان سب کے شواہد ادب میں موجود ہوتے ہیں کیونکہ ادب ہمیشہ اپنے لیے خام مواد معاشرے سے ہی حاصل کرتا ہے اور ہر ایک معاشرے میں تغیر کا جو شعور ہوتا ہے اس کا اظہار زبان کے ذریعہ ہی ہوا کرتا ہے۔

یہ بہت بہتر موقع ہے جب ملک گیر سطح پرتعلیمی شعور کے ترقی پذیر نئے طریقۂ کار تلاش کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ تعلیم سے کٹے ہوئے اس پورے معاشرے میں جس طرح کی بے ضابطگی اور انتشار کا پھیلاؤ ہوا ہے اس کو نظر میں رکھتے ہوئے اب یہ نا گزیر ہو گیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں موجود تمام تہذیبی سلسلوں کو از سرِ نو موجودہ عالم کاری کی روشنی میں د ریافت کریں اور ان کے اندر قوم کی فلاح سے متعلق نکتوں کو وضاحت کے ساتھ ادبی میراث کا حصہ بنائیں۔

علم و ادب کی پزیرائی ہمارا قومی فریضہ ہے۔ شعبۂ اردو ، کروڑی مل کالج علم و فن کا سرچشمہ ہے۔ جہاں ایک طرف اردو کے جملہ اساتذہ تدریسی، تعلیمی، اور ادبی اعتبار سے بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکے ہیں وہیں اس شعبے سے فارغ التحصیل طلبا پوری دنیا میں علم و ادب کا پرچم لہرا رہے ہیں اور شعبۂ اردو کے کارناموں کو دانشور طبقہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ شعبۂ اردو کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ اس شعبے کو علم و ہنر کے گہوارے کی حیثیت حاصل ہے،گزشتہ برسوں کے دوران اس شعبے کے اساتذہ کی جو علمی وادبی کتابیں اور مضامین شائع ہوئے ہیں ان کی ہمارے ملکی و بین الاقوامی دانشوروں اور اسکالروں نے خاطر خواہ پزیرائی کی ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں لیکن ہم اتنا ضرور کہیں گے کہ یہ سب عزت مآب پرنسپل کروڑی مل کالج کی سر پرستی اور رہنمائی کا نتیجہ ہے۔

کروڑی مل کالج، دہلی یونیورسٹی کے نام اور مقام سے کون واقف نہیں،گزشتہ تقریباً پچاس سالوں سے یہ درسگاہ علمی اور فکری سطح پر قیادت و رہنمائی اور دانشوری کی ما یہ ناز روایت کی امین رہی ہے۔یونیورسٹی کی دیگر کالجوں کی طرح کروڑی مل کالج میں بھی مختلف علوم و فنون کے شعبے قائم کیے گئے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کے پیش نظر کروڑی مل کالج میں شعبۂ اردوکا قیام بھی عمل میں لا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس شعبے نے ادبی امور کی بہتر تفہیم کے ضمن میں بین الاقوامی شہرت اختیار کر لی اردو کے وہ تمام قد آور دانشوران حضرات جواس شعبے سے منسلک رہے ان میں پروفیسر کامل قریشی مرحوم،پروفیسر رضا مرحوم،پروفیسر خلیق انجم( سکریٹری انجمن تر قی اردو ، ہند )و غیرہ کے نام سرِ فہرست ہیں۔ اس شعبے میں ہندوستان اور بیرون ملک کے بڑے بڑے دانشوروں اور ادیبوں کے لکچرز اور خطبہ دینے کی روایت رہی ہیں۔ ہمارے شعبے کی کوشش ہے کہ یکے بعد دیگر ے اردو زبان وادب نظم ونثر کے جملہ اصناف کی تعلیم کا کالج میں انتظام ہو اس قبیل میں اردو زبان وادب کے فروغ ،علمی مواد کی تیاری واشاعت کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تہذیب وثقافت کے عظیم ورثے کی تحفظ اوراس کی آبیاری کے لیے حکمت عملی کی تیاری میں ہمیشہ کوشاں ہیں۔کروڑی مل کالج کا شعبۂ اردو ، دہلی یونیورسٹی شمالی کیمپس کا واحد شعبہ ہے جہاں اردو کی درس وتدریس کے علاوہ مختلف نو عیت کے شعری و ثقافتی پروگرام دیگر کالجوں، شعبوں سے سبقت لے جاتی ہے۔ہمارے یہاں تین سالہ اردو آنرز بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کورس میں غالبؔ،اقبالؔ، میرؔنظیر اکبرالہ آبادی،ولیؔ دکنی،میر انیس،فا نیؔبدایونی، فراق گورکھپوری،میرؔامن، رجب علی بیگ سرورؔمحمد حسین آزاد، خواجہ میردردؔ،افضل جھنجھانوی، مولانا الطاف حسین حالیؔ،پریم چند،کرشن چندر،عصمت چغتائی،سعادت حسن،قرۃالعین حیدر،وغیرہ سبھی اہم ادیبوں کی تصانیف ساتھ ہی نثر اور نظم کے جملہ اصناف ادب جو کہ بارہ پرچوں پر مشتمل نصاب پڑھائی جا رہی ہیں۔ِہمارے کالج میں ہندوستان کے مختلف ریاستوں کے طلباکے علاوہ بیرون ممالک (موریشش،ترکی،نیپال،افغانستان،چین اور جاپان)کے طلبا بھی کافی تعداد میں پڑھنے آتے ہیں اور آنرس کو رس کے علاوہ بی اے آنرس ، بی کام آنرس اور بی اے پروگرام کے کورسوں میں بھی اردو بطور’’ کریڈٹ کورس‘‘اور کوالی فائنگ کورس پڑھائے جا تے ہیں جن میں زیادہ تر وہ طلبا داخلہ لیتے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہو تی ہے، لیکن اردو کا شوق رکھتے ہیں۔

درس وتدریس کے علاوہ ہمارے شعبہ کی بزم ادب جس کے عہدے داران طلباانتخاب کے ذریعے بنتے ہیں،شعر و ادب وثقافت پر مبنی پروگرام بھی منعقدکر تی ہے ان پروگراموں کاآغاز مشاعرے سے ہو تا ہے ۔ جو دہلی یونیورسٹی کا ایک اہم کلیدی پروگرام تصور کیا جا تاہے ۔ اس کے علاوہ’’نصاب لکچرز‘‘،سیمنار سمپیوزیم ،بیت بازی ، چار بیت ، فلم شو ، بڑے ادیبوں کے آمد پر ’’اپنے فنکار سے ملئے‘‘ آراستہ کیا جا تاہے پچھلے چند سالوں میں ہم نے اردو ادب میں موسیقی کی روایت پر کئی اہم سیمنار منعقد کئے ہیں۔جو اپنی نو عیت کے لحاظ سے ایک منفرد، چیز ہے۔ اس کے علاوہ روہیلکھنڈ، امروحہ اور ٹونک کے علاقے سے چار بیت ، کی پارٹیاں بلائی جا تی ہیں جن کے مقابلے دہلی یونیورسٹی کی برادری کے لیے ایک نیا تجر بہ ثابت ہورہا ہے۔

اساتذہ شعبہ اردو اور اراکین بزم ادب کے اشتراک اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے حسب معمول اس تعلیمی سال میں بھی وہ ساری تقریبات خوش اصلوبی کے ساتھ انجام پائیں، جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اس پروگرام میں بر صغیر کے بڑے بڑے ادباء شعراء اور دونشوران حضرات نے شرکت کی، اور اپنے بصیرت افروز علمی مذاکرے سے ہمارے دل و دماغ کو معطر، و منور کیا۔ مختصراً جس کی تعصیل یہ ہے کہ جہاں مورخہ ۹؍ فروری ۲۰۱۱ کو شعبہ اردو کروڑی مل کالج میں سیمسٹر سسٹم کے پیش نظر نئے نصاب کی تشکیل کے لیے ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس سمینار کا افتتاح عالمی شہرت یافتہ ماہر تعلیم عزت مآب محترم پروفیسروویک سنیجا پرووائس چانسلر دہلی یونیورسٹی کے ہاتھوں ہونا تھا اتفاق سے یونیورسیٹی کے کسی انتظامی امور میں مصروف ہونے کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے لہذا سیمینار کا افتتاح اور اس کی صدارت کالج کے پرنسپل پروفیسر بھیم سین سنگھ نے فرمائی۔ اس سیمینار میں صدر شعبہ اردو دہلی یونور سیٹی پروفیسر ارتضی کریم نے بطور مہمان خسوصی شرکت کی اور میزبانی کے فرائض بھی انجام دیے۔ اس سیمینار میں ذاکر حسین کالج کے سینئر استاد ڈاکٹر عبد العزیز نے بحیثیت ماہر نصاب شرکت کی ۔پروفیسر ارتضی کریم نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کو نئے نصاب کی ضرورت ہے ، گذشتہ پچاس سالوں سے ہمارے نصاب میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی ہے، جس کی وجہ سے طلباء و طالبات کو عملی میدانوں میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ اردو ایک نیچرل اور فطری زبان ہے، جس میں ہر جذبے اور ہر آواز کی ادائگی بآسانی ہو جاتی ہے۔ بازار کی ضرورت کے مطابق ترسیل کا حق بھی اردو نے ہمیشہ ادا کیا ہے، اردو کا مستقبل بہت تابناک ہے۔، ہمارے طالب علموں کو ذرا بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت ہے تو بس اپنے اندر مہارت پیدا کرنے کی۔ اسی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نئے نصاب کی تشکیل کا کام انجام دیں گے۔ کالج کے پرنسپل پروفیسر بھیم سین سنگھ نے اپنے صدارتی خطبے میں حاضرین و حاضرات سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اردو ہندوستان اور جمہوریت کی علامت ہے ، مجھے بچپن کے حکیم چاچا بہت یاد آتے ہیں ، جن کی قدم بوسی مجھے اس منزل تک لائی ہے۔ ہمیں اگر اپنے ملک میں ایکتا کی رنگارنگی اور یگانگت کی کشش کو بر قرار رکھنا ہے تو اردو کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھنا اور اپنی عملی زندگی میں اتارنا ہوگا۔ ہندوستانیوں کی اصل مادری زبان اردو ہی ہے۔ مجھے طمانیت ہے کہ کروڑی مل کالج کے تاریخی اہمیت کے حامل شعبہ اردو نے نئے نصاب کی تشکیل کی بنیاد رکھنے کی پہل کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ سانجھی وراثت کی امین اردو ہمارے طلباء و طالبات کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنائے گی۔انہوں نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ آج میں اس سمینار میں شریک مفکروں اور دانشوروں کے خیالات سن کر گدگد ہوں ۔ڈاکٹر یحیٰ صبا نے مہمانوں کا استقبال کیا اور عصری تقاضے کے تحت نئے نصاب کی ضرورت اور افادیت پر روشنی ڈالی اور نئی نسل کی تربیت اور تعلیم کے مسئلوں کے تعلق سے اہم نکات کی طرف حاضرین جلسہ کا ذہن مبذول کرایا۔ اس سمینار کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر ڈاکٹر محسن نے انجام دئے۔ اس سیمینار میں شعبہ اردو دہلی یونیور سیٹی کے علاوہ دہلی یونیورسیٹی سے ملحق کالجوں کے استاذہ کے ساتھ بڑی تعداد میں طلباء و طالبات نے شرکت کی اور پروفیسر ارتضا کریم کی نگرانی میں بی اے کا نیا نصاب تشکیل دیے جانے کے لئے بی اے پاس اور بی اے آنرس کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ شرکاء میں خاص طور پر پروفیسر توقیر احمد خاں ، پروفیسر فیروز دہلوی ڈاکٹر عبد العزیز ، ڈاکٹر قدسیہ قریشی ، ڈاکٹر طیبہ خاتون ، ڈاکٹر مشتاق قادری ، ڈاکٹر عفت زریں، ڈاکٹر خالد اشرف، ڈاکٹر قمر الحسن، ڈاکٹر، مولا بخش، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر شاہینہ تبسم، ڈاکٹر رئیسہ پروین ڈاکٹر راشد عزیز، ڈاکٹر راکیش پانڈے ، محمد مرتضی، ڈاکٹر اصغر علی، ڈاکٹر غفران راغب، محترمہ نور النساء ، داکٹر انعام الحق، ڈاکٹر علاء الدین شاہ، سلیم امروہوی، وغیرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں وہیں مورخہ ۱۰؍ فروری کو مقام ہذٰ میں آج غزل سرائی اور بیت بازی کے مقابلے کا انعقاد ہوا جس میں دلی یونیورسٹی شعبہ اردو کے پروفیسر توقیر احمد خان اور ڈاکٹر طیبہ خاتون بہ حیثیت جج کے شریک رہیں۔ اس ثقافتی پروگرام میں جہاں دہلی یونیورسیتی سے تعلیم یافتہ ڈاکٹر فیروز احمد خان دہلوی نے بہ حیثیت مہمان خصوصی شرکت کی اور وہیں تقریب کی صدارت کے فرائض شعبہ کے سینئر اساتذہ نے کیا۔مقابلوں کے افتتاحی اجلاس کی تقریر ڈاکٹر یحییٰ صبا نے کی۔پروگرام کی نظامت شعبہ اردو دلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر شاہنواز ہاشمی نے کی اور تقریب کا آغاز کروڑی مل کالج کے طالب علم عامر آفاق نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔

دلی یونیورسٹی شعبہ اردو کے پروفیسر توقیر احمد خان نے تقریب میں شریک جملہ حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے غزل سرائی اور بیت بازی کے اصولوں کی وضاحت کی۔مقابلے کا پہلا پروگرام غزل سرائی طے کیا گیا ،جس میں دلی یونیورسٹی کے مختلف کالجوں کی ٹیموں نے حصہ لیا،ان میں ذاکر حسین کالج،ماتا سندری کالج۔سینٹ اسٹیفنس کا لج،شعبہ اردو دلی یونیورسٹی ،شعبہ اردو کروڑی مل کالج کے نام سر فہرست ہیں۔ان طلبا نے بہت ہی گرم جوشی کے ساتھ غزل سرائی کے مقابلے میں حصہ لیا اور اردو ادب کے نامور شعراء قلی قطب شاہ،میر تقی میر،سودا،فیض،مشیر جھنجھانوی،اور حفیظ جالندھری کی غزلوں سے بزم ادب کو محظوظ کیا۔شعبہ اردو دلی یونیورسٹی ،کے محمد سلمان نے قلی قطب شاہ کی غزل’’ پیا باج پیالہ پیا جائے نا،پیا باج یک تل جیا جائے نا"سنا کر تمام سامعین کا دل جیت لیا۔اس مقابلے میں پہلا انعام ماتا سندری کالج کی مہناز بیگم نے حاصل کیا جبکہ دوسرا انعام شعبہ اردو دلی یونیورسٹی کی آسیہ بیگم،اور تیسرا انعام سینٹ اسٹیفنس کا لج،کی مہیما دیال نے حاصل کیا۔

دوسرا مقابلہ، بیت بازی کا تھا اس ثقافتی پروگرام میں بھی طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ غزل سرائی کے مقابلے یہ مقابلہ زیادہ دلچسپی کا باعث رہا۔اس میں چار ٹیموں ۔ذاکر حسین کالج،سینٹ اسٹیفنس کا لج،شعبہ اردو دلی یونیورسٹی ، اورشعبہ اردو کروڑی مل کالج نے حصہ لیا ۔طلبا نے بیت بازی کے مقابلے میں ارودو کے استاد شعراء مثلاًغالب ،اقبال ، داغ، جوش م فیض، مخدوم، مجاز، فراق، ناصر کاظمی وغیرہ کے کلام سے پوری محفل کوشرا بور کیا۔اس مقابلے میں شعبہ اردو دلی یونیورسٹی کی آسیہ بیگم،عالیہ،اور ماہرہ بیگم نے اول مقام حاصل کیا،دوسرے مقام پر ذاکر حسین کالج اور تیسرے مقام پر سینٹ اسٹیفنس کا لج رہا۔
مہمان خصوصی فیروز احمد خان نے تمام شرکاء کی پیشکش پر اپنے تاثرات پیش کئے اور تمام طلباء کو اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔انہوں نے اردو زبان کو بازار کی زبان سے جوڑنے کی صلاح دی تاکہ اردو کو لیگوا فنکا کا درجہ پھر سے حاصل ہو سکے۔ اس طرح تقریب کا اختتام کرتے ہوئے پروگرام کے صدر ڈاکٹر محسن صاحب نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اس کے بعد طلباء میں انعامات تقسیم کئے جانے کی رسم ادا کی گئی جس میں مہمان خصوصی کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ نے حصہ لیا۔

مذکورہ ادبی و علمی جلسے کی طرح مورخہ ۹؍ مارچ ۲۰۱۱کو ایک اور ادبی وعلمی نوعیت کا قومی سمینار اپنے فنکار سے ملیے منعقد کیاگیا۔ اس سمینار کا افتتاح عالمی شہرت یافتہ ماہر تعلیم عزت مآب محترم ڈاکٹرراکیش کمار پانڈے شعبہ علم طبیعات کروڑی مل کالج دہلی یونیورسٹی دہلی دہلی کے ہاتھوں ہوا ۔ اس کی صدارت کالج کے پرنسپل پروفیسر بھیم سین سنگھ نے فرمائی۔ اس سیمینار میں صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ارتضیٰ کریم نے بطور مہمان خصوصی شرکت کیا۔ کروڑی مل کالج کے پرنسپل پروفیسر بھیم سین سنگھ نے سمینار کی صدارت کی۔ اس سمینار کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد محسن نے انجام دئے۔ اس سیمینار میں مذکورہ بالا سمینار کی ہی طرح سامعین و شرکاء کی حیثیت سے شعبہ اردو دہلی یونیور سٹی سے ملحق کالجوں کے اساتذہ کے ساتھ لا تعداد طلباء و طالبات شامل رہے۔

شعبہ اردو کروڑی مل کالج دہلی یونیورسٹی کے انچارج ڈاکٹر محمدیحییٰ صبا نے مہمانوں کا استقبال کیا ۔انہوں نے کہاکہ ہمارے شعبے میں دہلی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ چار اسا تذہ ڈاکٹر خالد اشرف ، ڈاکٹر طیبہ خاتون ، ڈاکٹر سیدمحمدیحیٰ صبا اورڈاکٹر محمد محسن ہیں جودرس و تدریس میں ہمہ وقت منہمک رہتے ہیں۔عہدِ حاضر میں شعر وادب کا منظر نامہ چند ادبی چہروں کی روشنی سے منور اور تاباں نظر آتا ہے ۔ ان کی شخصیات اردو ادب میں اپنا منفرد مقام بنا چکی ہیں۔ یہ شخصیات صرف نقاد ہی نہیں ادبی صحافی،مترجم اور محقق کی حیثیت سے بھی مشہور و معروف ہیں۔اور ابھی تک ان کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ اردو ادب میں یہ اساتذہ ایک محقق کی حیثیت سے بھی کا فی مقبول ہو چکے ہیں۔ ان کی تحریروں میں نئی تراکیب ،نئی تمثالیں اور علامتیں بکثرت پائی جا تی ہیں جو ایک طرف ہمارے ادب کے مزاج کی عکاسی کر تی ہیں اور دوسری طرف کلاسکیی ادب سے ہمارا رشتہ مضبوط کر تی ہیں۔ ہمارے یہ اساتذہ جن کی متعدد کتابیں اور بہتیرے بصیرت افزا ادبی،تاریخی،علمی اور سیاسی مضامین ہندوستان اور بیرون ملک کی ادبی دنیامیں بقائے دوام حاصل کر چکے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف عالمی شہرت یافتہ دانشور وادیب ہیں بلکہ ماہر تعلیم کی حیثیت سے بھی اپنی ایک علےٰحدہ شناخت رکھتے ہیں اور متعدد مختلف النوع عالمی تعلیمی،ادبی وثقافتی اداروں کے رکن خاص اور اعزازی فیلو بھی ہیں۔ شعبے کے یہ اساتذہ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے رجحان کو فروغ دینے والی شخصیات کی حیثیت سے بطور خاص جا نے جا تے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اکیسویں صدی میں اردو کا انفارمیشن ٹکنا لوجی کے چیلنج پر منحصر ہے۔ لہٰذا اس صدی میں اردو کو انفارمیشن ٹکنا لوجی سے مربوط کر تے ہوئے دنیا کو یک لسانیت یایک لسانی حیثیت اختیار کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ہم اردو اکیڈمیوں کی جانب سے عصری علوم کی ترجمہ کاری اور عصری تقاضوں سے نمٹنے کے لیے ہندوستان بھر کے اردو اداروں کا قومی وفاق قائم کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ ہم آرزومند ہیں کہ اساتذہ طلباء ، ادباء اور اردو داں طبقہ اردو ،عصری طریقہ تعلیم اختیار کریں تاکہ اردوزبان وادب کو عصری علوم کی طرح فروغ دینے میں مدد مل سکے۔ اس تعلیمی سال میں شعبہ اردو کو ایک ایڈھاک پوسٹ ملی جس کے تحت تین نئے استاد ڈاکٹر محمد انعام الحق، ڈاکٹر غفران راغب اور محترمہ نورالنساء اردو جز وقتی مقرر کی حیثیت سے درس و تدریس کی خدمت بحسن و خوبی انجام دیا، ساتھ ہی جہاں بی۔اے آانرس اردو کے سال اول لازمی پرچہ پڑھنے والے طلباء کو ڈاکٹر علاؤالدین شاہ فا رسی کی تعلیم دینے پر معمور رہے وہیں بی اے آنرس سیاسیات اور اقتصادیات سال اول کے طلباء کو ڈاکٹر عامراختر لازمی پرچہ فارسی کی تعلیم دینے پر چاق و چوبند اور مستعد رہے اور اپنی غیر معمولی درسی و تدریسی صلاحیت سے طلباء کو اعزازی نمبر سے کامیاب ہونے کے لیے بھر پور کوشش کی۔
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 132178 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More