جناب مولانا محمد سعید امینی
صاحب سے پہلی مرتبہ ملاقات چندی گڑھ میں جناب مولانا ثناء اﷲ صاحب ندوی کے
توسط سے ہوئی۔ اور پہلی ہی ملاقات میں ان کی شخصیت کا رنگ ان کے کریمانہ
اخلاق اور شریفانہ طبیعت کی وجہ سے میرے اوپر چڑھ گیا ۔اور ایسا چڑھا کہ ہم
ایک دوسر ے سے ایسے بے تکلف ہو گئے کہ گویا ہماری برسوں سے شناسائی ہے اور
دیکھتے ہی دیکھتے یہ تعلق خاطراور رسمی شناسائی طبیعت میں ہم آہنگی کی وجہ
سے محبتوں میں تبدیل ہوگئی۔پھر چندی گڑھ میں گزارے ہوے دو یا تین دن ان کی
معیت میر ی زندگی کے یاد گار لمحات میں سے ہیں ۔ ہر دن امتحان سے فارغ ہو
نے کے بعد ہم لوگ چندی گڑھ کے تاریخی اور تفریحی مقامات کودیکھنے کے لئے
نکل جاتے ۔اتفاق سے ایک روز ہم لوگ چندی گڑھ کے ایک ثقافتی میلے میں چلے
گئے جہاں پر بہت سے ایسے تفریحی سامان اور عجوبے موجود تھے جو ہم نے یا
ہماری طرح دوسرے لوگوں نے پہلی مرتبہ دیکھے ہوں گے۔آخرانہیں تعجب خیز لمحات
کے دوران ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے دوست ثناء اﷲ ندوی اور محمد نواب
خان نے کہا کہ ہم لوگوں کو اس ہینڈولے میں جھولنا چاہیےے ۔ میں نے اور سعید
بھائی نے اس میں جھو لنے سے بالکل انکا رکر دیا ۔لیکن د یکھتے ہی دیکھتے
ہما رے بار بار انکار کے باوجودان لوگوں نے اس کے ٹکٹ خرید لئے ۔ در اصل ہم
ابھی تک ان کی چالاکی اور اسکے پیچھے ان دونوں کے مقصد کو سمجھ ہی نہیں
پائے تھے۔ جب ان کا اصرار حد تجاوز کو پہنچ گیاتو ہم دونوں بھی اس کشتی نما
ہینڈولے میں جھو لنے کے لئے تیا ر ہو گئے۔ جھولنے کے لئے جب ہم نے اس میں
قدم رکھا تو سعید بھائی او ر میری ہنسی تو بالکل ختم ہو گئی ۔لیکن ثناء اﷲ
اور نواب صاحب کی ہنسی رکنے کا نا م نہیں لے رہی تھی ۔کیونکہ وہ دونوں لوگ
اس سے پہلے اس میں جھول کر جا چکے تھے اور ان کو اس کے تمام چلتے وقت کے
خطرات اور ہو لنا کی کا علم بھی تھاور ساتھ ساتھ یہ بھی معلو م تھا کہ اس
میں کہاں بیٹھ کر زیادہ پریشانی ہو تی ہے اور کہاں نہیں ۔اس لئے انہوں نے
ہمیں سب سے آخر میں بیٹھنے نے کے لئے کہا۔ ہم نے انکا ر بھی کیا ۔لیکن وہ
اپنے مقصد میں کا میاب ہو گئے ۔ اور ہمیں اوپر والی سیٹ پر بیٹھا دیا ۔
ہنڈولا جیسے ہی چلنا شروع ہو ا تو وہ دونوں اس کے در میا نی حصے میں آگئے
جہاں دقت اور خوف زیادہ محسوس نہیں ہو تا ۔اب ہنڈولے کی رفتار بڑھنی شروع
ہو ئی ۔تو ان دونوں کو ہنسی اور ہما ری حالت خراب ! جب ہنڈولا اوپر کی طرف
جا تا تو اس وقت ایسا محسوس ہو تا کہ جا نے اب کیا ہو جائے ۔دل کی کیفیت
بالکل بدل جاتی اور پورا جسم ایسا ہو جاتا کہ جیسے ہوا نکل گئی ہو ۔ لیکن
جب نیچے کی طرف آتا تو کچھ سکون اور ہلکی سی ہنسی چہرے پر آتی ۔ تو ا ن نیم
فرصت لمحات میں آنکھ کھول کر میں سعید صاحب کو دیکھتا ۔جو سامنے والی سٹ
پربیٹھے ہوے تھے ۔ توسعید بھائی کی حالت دید نی ہو تی ۔ان کے چہرے پر ہنسی
دور دور تک دکھائی نہیں دیتی تھی ۔ بلکہ خوف کے بادل اور ہوائیاں اڑی ہوئی
دکھائی دیتی ۔دس یا پندرہ منٹ کی اس نیم جان لیوا کشمکش کے بعد ہنڈولا رکا۔
سعید بھائی کا چہرا غصے سے سرخ ،کسی سے بات کر نے کو تیا ر نہیں ۔ کچھ دیر
کے بعد ہلکی سی غرائی آواز میں مجھ سے کہا کہ مجھے چکر آرہے ہیں ۔پکڑ کر
چلو جب میں نے ان کو پکڑا تو ان کو بڑی شدت سے بخار بھی تھا۔ ان کی یہ دکھ
بھر ی حا لت دیکھ کر مجھے کچھ احساس ہو ا اور زبر دستی اپنی ہنسی پر کنٹرول
کیا ۔ جلدی سے نواب صاحب اور ثنا ء اﷲ دونوں تھری ویلر کراکے غائب ہو گئے
میں ان کو اس حالت میں قیام گاہ پر لے کر آیا ۔راستے میں وہ اپنے میواتی لب
ولہجے میں اپنے دل کی بھڑاس بھی نکا ل تے رہے ۔ لیکن اس حالت میں بھی ان کی
زبان سے کو ئی جملہ ایسا نہیں نکلا جو بد اخلاقی یا فحش کلا می پر مبنی ہو
بلکہ انہوں نے اپنے تمام غصے کا اظہار مہذب اور شریفانہ انداز میں کیا۔یہ
ان کی کریما نہ اخلاق اور شریف الطبع ہو نے کی واضح مثال تھی ۔ کہ واقعی
شریف اور نیک لوگ ایسے نازک مقام پربھی آپے سے باہر نہیں ہو تے۔ اور یہی
شریفا نہ مظاہرہ دیکھ نے کو مل رہا تھاسعید بھائی کے سخت غصے اور بر ہمی کے
وقت ۔میں خامو ش تما شائی بنے اس تمام منظر کو اور اپنی قیام گاہ کی دوری
کو د یکھ رہا تھا ۔ اتنے میں ہم لوگ اپنی قیام گاہ پر پہنچ گئے ۔میں نے ان
کو بخار کی دوائی دلائی اور تسلی دی کہ سعید صاحب آپ اب آرام کریں یہ سب تو
دوستوں کے درمیان چلتا ہی رہتا ہے ۔ بہر حال جس حسن خوبی کے ساتھ یہ ڈرامہ
ثنا ء صاحب اورنواب صا حب نے سٹیج کیا اگر ہماری جگہ کو ئی اور ہو تا تو
شاید وہ بھی نہ سمجھ پاتا ۔
اس کے بعد د و سری ملاقات سعید بھائی سے ایک اصلاحی جلسے میں ہوئی جو چھتر
پور مدرسے کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا ہم لوگ بھی اس میں جناب ثناء اﷲ
صاحب کی جا نب سے مدعو تھے کیونکہ جناب ثناء اﷲ صاحب ہی اس اصلاحی جلسے کے
روح رواں تھے۔اتفاق سے جب ہم نے یہ سنا کہ اس جلسے کی نظامت جناب سعید صاحب
کر ینگے توہمیں بڑی خوشی ہو ئی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہم لو گ سعید صاحب کے
اخلاق اور کردار تو چندی گڑھ میں دیکھ ہی چکے تھے لیکن ان کا علمی تبحر اور
انداز تخاطب ابھی دیکھنا باقی تھا ۔ جس کا شہرہ عام تھا۔جلسہ کا آغاز جناب
سعید صاحب کی مختصر تقریر کے بعدتلاوت قرآن کریم سے ہوا ۔پھر ہر ایک مقرر
کو اس کے تعارف کے ساتھ سعید صاحب دعوت سخن دیتے۔اس وقت ان کی آواز اور
انداز قابل دید بھی ہو تا ور شنید بھی۔ان کی گلو گیر آوازکا جادو سامعین پر
سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ کیا بلا کی غنائیت ان کی آواز میں تھی ۔ہم بھی محو
حیرت اور محواستعجاب تھے ۔آخر جلسے کا خوبصورت اختتام ہوا۔ہم نے سعید صاحب
کو مبارک دی ۔ اور کچھ پر لطف اور پر کیف گفتگو کے بعد (جس میں چندی گڑھ کا
بھی ضمناً تذکرہ تھا) جناب سعید سے اجازت لی ۔لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ
آج سعید بھائی آخری اجازت ہو گی۔
مولانا سعید مرحوم سے بس یہ دو ملاقتیں ہوئی جن میں دوستی اور تعلق خاطر کے
تما م ہی لوازمات اس طو ر پر ادا ہو گئے کہ گویا سعید صاحب کے پاس
وضعداریاں نبھا نے کے لئے وقت بہت کم تھااو ررشتے زیادہ تھے ۔اور ان کے
تمام حق جلدی سے ادا کرنا تھے اس لئے جس سے بھی ملتے اپنی اعلی ظرفی اورخوش
خلقی کا نقش ثبت کر د یتے۔سعید صاحب کا یہی معاملہ ہما رے ساتھ بھی رہا ۔ملاقات
اگر چہ ایک یا دو مر تبہ ہی ہوئی ۔لیکن پہلی ہی ملاقات سے یہ احساس سعید
بھائی کی طرف نہیں ہو ا کہ ہم دوستی کے ان نئے مر حلوں سے گذر ہے ہیں جہا ں
تکلفات ذیادہ ہوتے ۔بلکہ شاعرکے اس قول کے مصداق سعید صاحب کا معاملہ ہمارے
ساتھ ہوا ع
یہ روح کا رشتہ ہے پہنچا ن پرانی ہے
ابھی جناب سعید بھائی کی عمر پچس یا چھبس سال کی رہی ہو گی ۔ اس عمر میں
کتنے ارمان دل میں ہونگے ۔کیا کیا اور کیسی کیسی خواہشیں اس نئی نویلی دلہن
کی ہو نگی جس کا لباس عروس ابھی میلا بھی نہیں ہواتھا ۔کیا امیدیں اس ماں
ہو نگی جس نے اپنے لخت جگر کو اپنے مستقبل کے لئے پا لا اورپرورش کیا ہو ۔کیا
آرزو اس با پ ہو نگی جس نے اپنے نوجوان لڑکے کواپنے بڑھا پے کا آسرااور
وارث مان رکھاہو۔ سعید بھائی کے اہل خانہ کی تر جمانی پروین شاکر کی زبان
میں ع
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے میرے خیمے ،میرے خوابوں کی طرح
سب کچھ چھوڑکر یہ نیم جواں پھول صحراء کو معطر کئے بغیرہی خزاں کی نذر ہو
گیا ۔ ثناء اﷲ صاحب نے ہمیں ان کی وفات کی خبر سنا ئی۔اور ساتھ ساتھ یہ بھی
بتا یا کہ سعید صاحب کا انتقال کیسے ہو ا۔’’ دراصل سعید صاحب کے متعلق
ڈاکٹروں نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ ان کو برین ٹیو مر یعنی مر دماغی کینسر
ہے ۔ اس جان لیوا موذی مرض کا علم سعید صاحب کو موت سے دو مہینے پہلے ہو
گیا تھا اس کا علم ہو نے کے بعد مریض کی کیا کیفیت اور حالت ہو تی ہے ۔وہ
کن کن مر حلوں گزرتا ہے کیا کیا تفکرات اس کے دلودماغ پر گردش کر تے ہیں ۔صبر
،ضبط اور تحمل کے باوجود اس کو چین نہیں ملتا۔آرام کی تمام شکلیں مفقود ہو
جاتی ہیں۔ہمارے سعید بھا ئی بھی یقینا ان تمام مرحلوں سے گذرے ہوں گے لیکن
سعید بھائی کے حوالے سے ان کے ملنے والے بتا تے ہیں کہ کبھی کوئی حرف شکایت
ان کی زبان پر نہیں آیابلکہ اس دوران کی نفلی عبادت اور ذکر واذکار بڑھ گیا
تھا۔دو مہینے کے بعد جب ان کے اوپریشن کا وقت آیا ۔تو آپریشن روم میں جا نے
سے پہلے غسل کیا ۔دو رکعت نماز ادا کی ۔اس بعد یاسین شیریف پڑھی ۔اپنے تمام
دوست واحباب ۔ماں باپ بھائی بہن اور بیوی بچوں سے معافی تلافی کرکے آپریشن
روم چلے گئے اور ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سو گئے ۔ یہ حسن خاتمہ سعید بھائی
کے نیک یوں کے اضافے اور اﷲ کے نزدیک مقبول ہو نے کی دلیل ہے ۔ |