’’شہررمضان الذی انزل فیہ القرآن
وہدی للناس وبینٰت من الہدیٰ والفرقان‘‘الیٰ آخرالآیۃ(البقرۃ:۱۸۵)
ترجمہ:مہینہ رمضان کاہے جس میں نازل ہواقرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں
کواوردلیلیں روشن راہ پانے کی اورحق کوباطل سے جداکرنے کی،سوجوکوئی پائے تم
میں سے اس مہینہ کوتوضرورروزے رکھے اس کے،اورجوکوئی ہوبیماراورمسافرتواس
کوگنتی پوری کرنی چاہیے اوردنوں سے،اﷲ چاہتاہے تم پرآسانی اورنہیں چاہتاتم
پردشواری،اوراس واسطے کہ تم پوری کروگنتی اورتاکہ بڑائی کرواﷲ کی اس بات
پرکہ تم کوہدایت کی اورتاکہ تم احسان مانو۔‘‘(ترجمہ شیخ الہند
،تفسیرعثمانی:ص۱۰۹)
~ رمضان اورقرآن کاآپس میں بہت ہی گہرااورمضبوط رشتہ ہے،رمضان ہی وہ بابرکت
مہینہ ہے جس میں اﷲ تبار ک وتعالیٰ نے قرآن کریم کولوح محفوظ سے آسمان
دنیاپراتارا، اور پھراپنے محبوب اور آخری پیغمبرحضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم
پررمضان کے اسی مبارک مہینہ میں قرآن کریم کی پہلی سورۃنازل فرمائی۔ احادیث
میں بیان کردہ روایتوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کوبھی اسی مقدس
مہینہ میں صحیفہ سے نوازا گیااسی طرح توریت،زبور وانجیل کانزول بھی اسی ماہ
مبارک میں ہوا۔
مذکورہ آیت سے ہمیں واضح طورپر۴؍باتیں سمجھ میں آتی ہیں:(۱)رمضان اورقرآن
کاآپس میں تعلق۔(۲)رمضان کوپانے کی صورت میں روزہ رکھنا۔(۳) بیماراور مسافر
کے احکام۔(۴)اﷲ کامقصد اپنے بندوں کے لیے آسانی پیداکرناہے۔
رمضان اورقرآن کاآپس میں تعلق:رمضان اورقرآن کاآپس میں گہراتعلق ہے،کیوں کہ
دیگرآسمانی صحائف کے ساتھ ساتھ اﷲ نے قرآن کریم کوبھی رمضان کے مبارک مہینہ
میں ہی لوح محفوظ سے آسمان دنیاپرنازل کیا اورپھراﷲ نے اپنے محبوب صلی اﷲ
علیہ وسلم پرقرآن کی پہلی سورۃ کورمضان میں ہی نازل کیا۔ مفتی شفیع صاحب
رحمۃ اﷲ علیہ نے معارف القرآن میں لکھاہے کہ: ’’اﷲ تعالیٰ نے اس مہینہ
کواپنی وحی اورآسمانی کتابیں نازل کرنے کے لیے منتخب کررکھاہے،چنانچہ قرآن
بھی اسی ماہ میں نازل ہوا، مسنداحمد میں حضرت واثلہ بن نافع ؓ سے روایت ہے
کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے
صحیفے رمضان کی پہلی تاریخ میں نازل ہوئے،اورتورات چھ رمضان میں،انجیل تیرہ
رمضان اور قرآن چوبیس رمضان میں نازل ہوا،اورحضرت جابرؓ کی روایت میں یہ
بھی ہے کہ زبوربارہ رمضان میں، انجیل اٹھارہ رمضان میں نازل ہوئی۔ (ابن
کثیر بحوالہ معارف القرآن:۱؍۴۴۸)حدیث مذکورمیں پچھلی کتابوں کانزول جس
تاریخ میں ذکر کیا گیا ہے اسی تاریخ میں وہ کتابیں پوری کی پوری انبیاء
پرنازل کردی گئی ہیں،قرآن کریم کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ رمضان کی ایک رات میں
پوراکاپورالوح محفوظ سے سماء دنیا پرناز ل کردیاگیا،مگرنبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم پراس کانزول تئیس سال میں رفتہ رفتہ ہوا۔
رمضان کی وہ رات جس میں قرآن نازل ہوا،قرآن ہی کی تصریح کے مطابق شب قدر
تھی ’’انا انزلناہ فی لیلۃ القدر‘‘مذکورالصدرحدیث میں اس کو۲۴؍رمضان کی شب
بتلایاہے، اور حضرت حسن ؓ کے نزدیک چوبیسویں شب شب قدرہوتی ہے،اس طرح یہ
حدیث آیت قرآن کے مطابق ہوجاتی ہے،اوراگریہ مطابقت تسلیم نہ کی جائے
توبہرحال قرآن کریم کی تصریح سب پرمقدم ہے جورات بھی شب قدرہووہی اس کی
مرادہوگی۔(معارف القرآن:۱؍۴۴۸) مولاناشبیراحمدعثمانی رحمۃ اﷲ علیہ نے
مذکورہ آیت کی وضاحت میں لکھاہے کہ:حدیث میں آیاہے کہ ہررمضان میں حضرت
جبرئیل علیہ السلام قرآن نازل شدہ آپ کو مکرر سنا جاتے تھے، ان سب حالات سے
مہینہ رمضان کی فضیلت اورقرآن مجیدکے ساتھ اس کی مناسبت اور خصوصیت خوب
ظاہرہوگئی،اس لیے اس مہینے میں تراویح مقررہوئی،پس قرآن کی خدمت اس مہینہ
میں خوب اہتمام سے کرنی چاہیے کہ اسی واسطے مقرر اورمعین ہوا ہے۔ (تفسیر
عثمانی: ۱۱۰)
رمضان کوپانے کی صورت میں روزہ رکھنا:رمضان کے روزہ کی فرضیت گذشتہ آیت
’’یاایہاالذین آمنوا کتب علیکم الصیام‘‘(البقرۃ:۔)کے تحت گذرچکی ہے،لیکن اس
آیت میں اتنی گنجائش تھی کہ اگرکوئی شخص طاقت رکھتے ہوئے بھی روزہ نہ
رکھناچاہے تووہ فدیہ دیدے ،اوریہ حکم ابتدائی تھا،مقصدلوگوں کوروزہ کا خوگر
بنانااوریکبارگی مشقت میں نہ ڈالنا،لیکن جب لوگ اس کے خوگرہوگئے توفوراًہی
یہ آیت نازل فرما کرفدیہ کے احکام کومنسوخ کردیا،لہٰذااس آیت میں اﷲ تبارک
وتعالیٰ نے تاکیدفرمادی کہ جوشخص بھی اس حالت میں رمضان کامہینہ پائے کہ وہ
عاقل اوربالغ ہو،مقیم ہومسافرنہ ہو،صحت مندہوبیمارنہ ہوتواس کو چاہیے کہ وہ
رمضان کے روزے رکھے،مولاناشبیراحمدعثمانی لکھتے ہیں:یعنی جب اس ماہ مبارک
کے فضائل مخصوصہ عظیمہ تم کومعلوم ہوچکے تواب جس کسی کویہ مہینہ ملے اس
کوروزہ ضروررکھناچاہیے،اوربغرض سہولت ابتداء میں فدیہ کی جواجازت برائے
چندے دی گئی تھی وہ موقوف ہوگئی۔(تفسیرعثمانی:۱۱۰)
بیماراورمسافرکے احکام:جیساکہ اوپرگذراکہ جوشخص بھی رمضان کامہینہ پائے وہ
روزہ رکھے،اس حکم عام سے یہ سمجھ میں آتاتھاکہ شایدمریض اورمسافرکوبھی
افطاروقضاکی اجازت باقی نہیں رہی اورجیسے روزہ رکھنے کی طاقت رکھنے والوں
کواب افطارکی ممانعت کردی گئی ایسے ہی مریض اورمسافرکوبھی ممانعت ہوگئی، اس
لیے مریض ومسافرکی نسبت پھر صاف فرمادیاکہ ان کورمضان میں افطارکرنے
اوردنوں میں قضا کرنے کی اجازت اسی طرح باقی ہے جیسے تھی۔(تفسیرعثمانی:۱۱۰)
اﷲ اپنے بندوں کے لیے آسانی چاہتاہے:مطلب یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے جواول رمضان
میں روزہ کاحکم فرمایا اور بوجہ عذرپھرمریض اورمسافرکوافطارکرنے کی اجازت
دی اور دیگر اوقات میں ان دنوں کے شمارکے برابر روزوں کا قضاکرناتم
پرپھرواجب فرمایاایک ساتھ ہونے یامتفرق ہونے کی ضرورت نہیں تواس میں اس کا
لحاظ ہے کہ تم پر سہولت رہے اور دشواری نہ ہواوریہ بھی منظورہے کہ تم اپنے
روزوں کا شمار پورا کر لیا کرو ثواب میں کمی نہ آجائے اوریہ بھی مدنظرہے کہ
تم اس طریقہ سراسرخیرکی ہدایت پرتم اپنے اﷲ کی بڑائی بیان کرو اوراس
کوبزرگی سے یاد کرو اوریہ بھی مطلوب ہے کہ ان نعمتوں پرتم شکرکرواورشکرکرنے
والوں کی جماعت میں داخل ہوجاؤ،سبحان اﷲ روزہ جیسی مفیدعبادت ہم پرواجب
فرمائی اور مشقت وتکلیف کی حالت میں سہولت بھی فرمادی اورفراغت کے وقت میں
اس نقصان کے جبرکاطریقہ بھی بتلادیا۔ (تفسیرعثمانی:۱۱۰)
مندرجہ بالاوضاحت سے ہمیں یہ سمجھ میں آتاہے کہ رمضان خیروبرکت کامہینہ
ہے،رمضان قرآن کامہینہ ہے،جس طرح ہم رمضان کے مبارک مہینہ میں خیروبرکت
اورنیکی کے دیگر کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اسی طرح قرآن کی تلاوت
کاخوب اہتمام کیاکریں،کیوں کہ قرآن کریم کی تلاوت بذات خود خیروبرکت کاباعث
ہے اورثواب کاکام ہے،لیکن اگررمضان کے مہینہ میں ہم زیادہ سے زیادہ تلاوت
قرآن کا معمول بنالیں تویہ ہمارے درجات میں مزیداضافہ کاباعث ہوگا۔رمضان
اور قرآن کاآپس میں اتنا گہر ا اور مضبوط رشتہ اس بات سے بھی سمجھ میں
آتاہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہرسال ماہ رمضان میں حضرت جبرئیل
علیہ السلام کے ساتھ ختم قرآن کاایک دورکیاکرتے تھے اور جس سال آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس رمضان میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوختم قرآن
کیے۔اﷲ ہمیں اورتمام مسلمانوں کورمضان کے مہینہ میں زیادہ سے زیادہ تلاوت
قرآن کااہتمام کرنے والااورنیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے والا
بنائے ۔آمین٭٭٭ |