غزوہ بدر، ورفعنا لک ذکر ک کا
اظہار، نبوت و رسالت کی بھر پور قوت کا اظہار۔ابھی سترہ ماہ قبل کے حالات
کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کفار مکہ نے اﷲ کے محبوب اور رحمۃ
للعلمین ﷺ پر مظالم کی انتہا کردی۔مگر انہیں سوائے ناکامی کے کچھ حاصل نہ
ہوا کیونکہ روز بروز قبول اسلام والوں میں اضافہ ہورہاتھا۔ اس کے ساتھ ساتھ
متشدد شیاطین کفار کے سینوں میں رسول اﷲ ﷺ کی خصومت اور حسد کی آگ میں
اضافہ ہورہاتھا ۔ شیخ نجدی اور ابوجہل کے فیصلے پر مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کے
قتل کا منصوبہ تیارکرہی لیا۔اﷲ تعالی نے اپنے نور کو عروج عطا کرنا تھا تو
کفار کے تمام منصوبوں سے آپکو آگاہ فرماتے ہوئے ہجرت کا اذن عطا فرمایا۔
یوں ابوجہل اور دشمنان رسول شیاطین کے دکھ میں مزید اضافہ ہوگیا کہ آپ ﷺ
انکے تمام حربوں کو ناکام بناتے مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوگئے۔ اب یہیں
سے اسلام کا عروج شروع ہوتا ہے۔مشرکین مکہ کی رات کی نیندیں حرام ہوگئیں۔
ابوجہل تین سو آدمی لے کر مدینہ طیبہ کی طرف گیا تاکہ مسلمانوں کو تکلیف
پہنچا کر اپنی خفت مٹا سکے ۔سید العالمین ﷺ نے سیدنا حضرت امیر حمزہ بن
عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ کوپہلا پرچم اسلام عطافرماکر مشرکین کی جارحیت کے
خلاف کاروائی کا حکم صادر فرمایا مگر ابوجہل ہیبت زدہ ہوکر بھاگ کھڑا ہوا۔
نور حق کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیئے کفر وشرک مزید متحرک ہوکر جنگی
تیاریوں کے لیئے سرمایہ کی فراہمی کے لیئے دشمن رسول ابوسفیان بن حرب ایک
تجارتی قافلہ لے کر جاتا ہے ۔ تاکہ اس سے حاصل کردہ زرکثیر سے مدینہ طیبہ
پر بھرپور فیصلہ کن حملہ کرکے کفر سے آباد دل کی کھیتی کو سیراب کردیں۔ حیف
ہے کہ ابھی تک انہیں سمجھ نہیں آئی کہ اﷲ تعالی اپنے رسول ﷺ کو کفار کی
ہربات سے مطلع فرما دیتا ہے۔ اچانک تاجدار انبیاء ﷺ لشکر تیار کرنے کا حکم
صادر فرماتے ہیں ۔ اﷲ کے رازوں کو سوائے نبی کے کوئی نہیں جان سکتا ۔ کہاں
جارہے ہیں اور کیوں جارہے ہیں ۔ ابوسفیان مسلمانوں کے حملے سے خوف زدہ ہوکر
اپنے امیر ابوجہل کو پیغام بھیجتا ہے کہ میری مدد کو پہنچو۔ ابوجہل نے بصد
شوق زبردست منادی کرادی اور ایک ہزار پر مشتمل لشکر تیار کیا۔ ایسا لشکر
مکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تیار ہوا کہ جس کی شان و شوکت پر مکہ کے
مردوزن اظہار تفاخر کرتے ہوئے ناچ گانے کی سروں میں اسے رخصت کرتے ہیں
اورشیخ نجدی انکے ساتھ ہے ۔ انکا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہ رہاتھا کہ آج تمہیں
کوئی شکست نہیں دے سکتا اور میں بھی تمہارے ساتھ ہوں(سورۃ انفال میں ان
تمام باتوں کا ذکر ہے کہ جب میدان بدر میں پہنچے اور فرشتوں کی فوج کو
دیکھا تو شیخ نجدی بھاگ کھڑا ہوا تو ابوجہل نے کہا کہ کیا ہوا؟ تو بولا کہ
جو کچھ میں دیکھ رہاہوں تمہیں نظر نہیں آتا میں اﷲ کے عذاب سے خائف ہوں آج
کے دن جو نازل ہونے والا ہے)۔ غزوہ بدر میں جانے کے لیئے عام منادی نہیں
کرائی گئی۔ مدینہ پاک میں جو لوگ موجود تھے وہی رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ عازم سفر
ہوئے۔ سیدنا حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اﷲ عنہ کی زوجہ مطہرہ دختر رسول
اﷲ ﷺ شدید علیل تھیں ،رسول پاک ﷺ نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو انکی
تیمارداری کے لیئے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا۔ مدینہ طیبہ اور بدر شریف کے
درمیان مقام روحاء ہے جہاں پانی کا ایک کنواں ہے ،یہاں سے بدر شریف تقریبا
ستر کلومیٹر ہے (گذشتہ رمضان المبارک میں اس مقدس مقام پر میں نے کچھ دیر
قیام کیا، اس کنواں سے پانی لیا اور یادگار کے طور پر تصویریں بھی
بنائیں)حبیب کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے مقام روحاء پر قیام فرمایا اور
سیدنا حضرت ابو لبابہ رضی اﷲ عنہ کو مدینہ طیبہ میں اپنا قائم مقام والی
بنا کر روانہ فرمایا۔ یہیں پر معلوم ہوا کہ دشمن رسول ابو سفیان تجارتی
قافلہ کو مسلمانوں کے حملہ سے بچاکر راستہ بدلتے ہوئے نکل چکا ہے اور
ابوجہل کی سربراہی میں ایک ہزار کا لشکر مسلمانوں کو تجارتی قافلہ سے روکنے
کے لیئے آچکا ہے۔ یہیں پر حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے مشاورت
فرمائی کہ تجارتی قافلہ کا انتخاب کیا جائے یا لشکر ابوجہل کا۔ آپ ﷺ نے
صحابہ کرام کرام رضی اﷲ عنہم سے فرمایا کہ اﷲ تعالٰی نے تم سے دونوں طائفوں
میں ایک طائفہ کا وعدہ فرمایا ہے کہ قافلہ کو لو یا قریش سے جنگ کرو۔ اس
موقع پر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ، سیدنا حضرت عمر رضی اﷲ
عنہ،سیدنا حضرت مقداد رضی اﷲ عنہ ،سیدنا حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ عنہ نے
نہائت عمدہ فرمانبرادری اور اطاعت گذاری، وفاشعاری اور جاں نثاری کا اظہار
کرتے ہوئے پرجوش تقریریں فرمائیں۔ جنگ کے وقت ہم بڑے صابر اور دشمن کے
مقابلے کے وقت بڑے صادق ہیں۔ امید ہے کہ اﷲ تعالی آپ کو ہم سے وہ امر
دکھادے کہ جس سے آپکی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں ۔ آپ ہمیں اﷲ کی برکت پرلے
جائیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اﷲ کی برکت پر چلے جاؤاور تمہیں بشارت
ہوکیونکہ اﷲ تعالی نے دو گروہوں میں سے ایک کا مجھ سے وعدہ کر لیا ہے۔ واﷲ
میں کفار کے مرنے کی جگہوں کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے بدرشریف کی طرف
کوچ کا حکم فرمادیا۔مشرکین پہلے ہی وادی بدر میں عدوۃ القصوی کے مقام پر
اتر چکے تھے جو جنگی اعتبار سے عمدہ جگہ تھی۔اور پانی کے کنوؤں پر قبضہ کر
لیا تھا۔ مسلمان ایسی جگہ اترے جہاں ریت زیادہ تھی اور قدم نہ جمتے تھے اور
پانی بھی نہ تھا۔ شیطان نے مسلمانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالے، تعداد اور
اسلحہ کی قلت مزید برآں پانی کی تنگی اور پھر یہ کہ صبح بعض صحابہ کرام کو
غسل کی حاجت ہوئی۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی پہلی مدد یوں فرمائی کہ سورۃ
انفال کے مطابق اﷲ تعالی آسمان سے پانی نازل کرتا ہے کہ اس سے تمہیں ہر طرح
سے پاک کردے، تم سے شیطان کے بہکاوے کی نجاست کو لے جاوے، اور تمہارے دلوں
پر صبر کو باندھے۔ اس قدر بارش ہوئی کہ جل تھل ہوگیا۔ ریت بیٹھ گئی اور
پاؤں جمنے لگے۔ حضور ﷺ کے لیئے ایک جھونپڑاجسے عربی میں عریش کہتے ہیں
بنادیا گیا۔جہاں اب مسجد العریش ہے اور ہم نے وہاں نماز نوافل ادا کرنے کا
شرف بھی حاصل کیا۔ اب ذرا یوم الفرقان کو مدمقابل لشکروں کا موازنہ کریں:
لشکر اسلام ---- لشکر کفار------- تفصیل
۳۰۵
۹۵۰ افراد
۷۰
۷۰۰ اونٹ
۳ ۱۰۰ گھوڑے
۸
۹۵۰ تلواریں
۶ ۹۵۰ زرہیں
درج بالا جدول سے قارئیں اندازہ لگالیں کہ مسلمانوں کی حربی قوت کفار کے
مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس صورت حال کا جائزہ لے کر سیدالمرسلین
ﷺ اپنے عریش میں تشریف لے جاتے ہیں اور اپنے رب کریم کے حضور سربسجود ہوکر
آہ زاری کرتے ہیں: اے اﷲ جس نصرت کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے وہ عطا
فرما، اگر آج تو نے اہل ایمان کی اس جماعت کو ہلاک کردیا تو قیامت تک زمین
پر تیری عباد ت نہ ہوگی۔ آپ ﷺ کی اس حالت کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ
دیکھ کر بے چین ہوگئے اور عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ اﷲ تعالی آپکے ساتھ وعدہ کو
پورا فرمانے والا ہے(کیونکہ وہی اﷲ کے حبیب کی شان کے رازدان تھے) آپ ﷺ کو
غنودگی آگئی پھر ایسے حال میں بیدار ہوئے کہ تبسم فرمارہے تھے اور حضرت
ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو یہ جبریل علیہ السلام
موجود ہیں ان کے سامنے کے دونوں دانتوں پر غبارہے(جو نصرت اور اہتمام کی
وجہ سے تھا) پھر آپ ﷺ عریش کے دروازے سے باہر تشریف اور پڑھ رہے تھے :
سیھزم الجمع ویولون الدبر ۔ سورۃ انفال آئت ۱۲۴ اور ۱۲۵ میں فرشتوں کے لشکر
وں کی آمد شروع ہوگئی ۔ لشکر اسلام کے دائیں طرف سے حضرت جبریل علیہ السلام
فرشتوں کے صف بہ صف دستے لے کر حاضر ہوئے، پہلے ایک ہزار پھرتین ہزار پھر
سورۃ آل عمران کے مطابق پانچ ہزار فرشتے نازل ہوئے۔ تاکہ حق کا بول بالا ہو
اور کلام الہی کی سچائی ہو اور کفار کی جڑیں کاٹنا ۔ فرشتوں نے آج تک قتال
نہ کیا تھاسو انہوں نے استفسار کیا کہ ہم کیسے قتال کریں تو حکم الہی ہو ا
کہ کافروں کی گردن کے اوپر مارواور انکی ایک ایک پور پر ضرب لگاؤ(سورۃ
انفال نمبر ۱۲) کیوں ؟ سورۃ انفال آئت نمبر ۱۳ اس لیئے کہ انہوں نے (کفار
نے) اﷲ اور رسول سے مخالفت کی جواﷲ اور رسول سے مخالفت کرے تو بے شک اﷲ کا
عذاب سخت ہے۔قتال کا حکم دیتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ
سورۃ انفال آئت نمبر ۱۵ اے ایمان والو جب کافروں کے لام سے تمہارا مقابلہ
ہو تو انہیں پیٹھ نہ دوجو پیٹھ دے گا تو وہ اﷲ کے غضب میں پلٹا اور اس کا
ٹھکانہ دوزخ ہے سوائے لڑائی کا ہنر کرنے یا اپنی جماعت میں جا ملنے کو۔اب
نصرت الہی کے انداز ملاحظہ فرمائیں قدم جمانے اور تازہ دم کرنے کو باران
رحمت برسا دی، فرشتوں کی فوج آگئی جسنے کفارکے دلوں میں مسلمانوں کی ہیبت
ڈال دی، سیدالکونین ﷺ نے ایک مٹھی خاک لے کر کچھ پڑھ کر کفار کی طرف پھینک
دی جسکے ذرات ہرلشکری اور جانور کی آنکھوں میں پہنچے کہ وہ تکلیف میں مبتلا
ہوگئے اور دیکھنا محال ہوگیا۔ سورۃ انفال آئت نمبر ۱۴ میں اﷲ نے فرمایا کہ
اے میرے محبوب: وہ تم نے نہیں پھینکی بلکہ اﷲ نے پھینکی حضور ﷺ کے اس فعل
مبارک کو اﷲ نے اپنی طرف منسوب کرکے اعلان کردیا کہ میرے محبوب کا قول و
فعل وہ میرا قول و فعل ہے۔ ہیبت و قوت و شان مصطفٰے کریم ﷺ کا اظہار ہے۔ اب
ذرامیدان کارزار کی طرف چلیں مخبر صادق ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ میدان
جنگ کو اپنے قدوم مبارک کی لذت سے آشنا فرماتے ہیں تو اپنے چھڑی مبارک سے
سرداران قریش کی قتل گاہوں کی نشان دہی فرماتے ہیں کہ اس جگہ عتبہ گرے گا،
یہاں ولید مرے گا یہاں ابوجہل قتل ہوگا وغیرہم ۔ بخاری شریف ودیگر کتب
احادیث میں موجود ہے کہ حضور ﷺ نے کفار کے مرنے اور گرنے کی جگہ نام بنام
بتادیں اور ایک ایک کی جگہ پر نشانات لگادیئے اور یہ معجزہ دیکھا گیا کہ ان
میں سے جو مرکر گرا اس نشان پر پرگرا اس سے خطا نہ کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ
آپ ﷺ کو کفار کے قتل ہونے اور جگہ کا پورا علم اﷲ نے عطا فرمایا کہ جس علم
پر کسی اور کو دسترس حاصل نہیں۔ جمعۃ المبارک ۱۷ رمضان المبارک سن ۲ ہجری
کا سورج طلوع ہوگیا۔ یہ یوم الفرقان ہے کہ زمین آسمان اور فرشتے اﷲ اور
اسکے رسول کی صداقت اور جلال کا منظر دیکھنے کو بے چین ہیں۔ لشکر کفار میں
سے عتبہ بن ربیعہ ،اس کا بھائی شیبہ بن ربیعہ اور عتبہ کا بیٹا ولید بن
عتبہ میدان میں آکر مبارز طلب کرتے ہیں تو لشکر اسلام سے تین انصاری مقابلے
کو نکلے مگر مشرکین نے کہاکہ ہمارے مقابلے پر ہمارے قومی ہمارے برابر کے
آئیں تو رسول اﷲ ﷺ نے تین ھاشمی حضرت حمزہ بن عبدالمطلب، حضرت علی بن ابی
طالب بن عبدالمطلب اور حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اﷲ عنہم کو مقابلے کا حکم
صادر فرمایا۔ ھاشمی تلواریں بلند ہوئیں کوندیں گریں تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ
کا مد مقابل ولید، حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کا مدمقابل شیبہ خاک و خون میں تڑپ
رہے تھے جبکہ حضر ت عبیدہ رضی اﷲ عنہ بڑی عمر کے تھے زخمی ہوگئے اور حضرت
حمزہ وحضرت علی رضی اﷲ عنہ نے انکے مد مقابل عتبہ کو قتل کرنے میں مدد دی۔
بعد حضرت عبیدہ رضی اﷲ عنہ شہیدہوگئے۔ عام جنگ شروع ہوئی جبریل علیہ السلام
نے بھی خوب بھڑاس نکالی۔ سرداران قریش واصل جہنم ہوگئے ۔ ابوجہل زخمی پڑا
تھا ۔حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے اس کا سر کاٹ کر رسول اﷲ ﷺ کے
قدموں میں لاڈالا جس پر حضور ﷺ نے اﷲ کی حمد و ثنا فرمائی۔ ستر کافر واصل
جہنم ہوئے اور اتنے ہی قیدی ہوئے ۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو ابوجہل کے
مجبور کرنے پر بادل نخواستہ بدر میں آئے ۔ دوران غزوہ معجزات کا ظہور: حضرت
عکاشہ بن محصن الاسدی رضی اﷲ عنہ کی تلوار دوران جہا د ٹوٹ گئی ۔ وہ حضور ﷺ
کی خدمت میں تلوار کے لیئے حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں ایک سوکھی لکڑی کا
تنا دیدیا جس میں کوئی شاخ نہ تھی اور فرمایا اس سے جنگ کرو۔انہوں نے اس
حرکت دی تو وہ لکڑی کا تنا ان کے ہاتھ میں لمبے قد کی سخت پیٹھ سفید چمکدار
تیز تلوار بن گئی جس سے انہوں نے جہاد کیا ۔ اس تلوار کا نام عون تھا اور
اس تلوار سے حضرت عکاشہ رضی اﷲ عنہ نے کئی مرتبہ جہاد کیا اور بعد میں بوقت
شہادت بھی انکے پاس تھی۔ انہیں کے بارے ہے عکرمہ بن ابی جہل نے غزوہ بدر
میں تلوار مارکر انکا بازو جدا کردیا جسے وہ لے کر رسول پاک ﷺ کی خدمت میں
آئے تو آپ ﷺ نے اس پر اپنا لعاب دہن لگایا اور ہاتھ مل گیا۔ حضرت عکاشہ رضی
اﷲ عنہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دور تک حیات تھے۔ حضور ﷺ کے حکم پر
سرداران مشرکین کے لاشے ایک گندے کنوئیں میں ڈالے گئے ۔ جب تیسرے روز آپ ﷺ
نے کوچ حکم فرمایا تو اس کنوئیں پر آئے اور کفار کے نام لے کر فرمایا اﷲ
اور اسکے رسول نے تم سے جو وعدہ کیا تھا کیا تم نے اس کو حق پایا اﷲ تعالیٰ
نے جو وعدہ مجھ سے کیا میں نے اس کو حق پایا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ آپکے
قریب تھے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ آپ ان جسموں سے کیونکر کلام کرتے ہیں جن میں
ارواح نہیں آپ ﷺ نے فرمایا جو بات میں کہتا ہوں تم ان لوگوں سے زیادہ نہیں
سنتے ہو۔ فرق یہ ہے کہ یہ لوگ جواب میں کچھ کہنے کی قدرت نہیں رکھتے۔
بدرشریف میں غزوہ بدر کی یاد میں شاہی طبل جنگ کا بجنا مشہور واقعہ ہے جس
میں حضرت مرزوق رحمۃ اﷲ علیہ کا خود طبل جنگ سننے کا واقعہ ایک بڑی دلیل
ہے(حوالہ مواھب الدنیہ)۔ اس سے لشکر اسلام کی عظمت و ہیبت کا پتہ چلتا ہے۔
مکہ معظمہ میں لشکر کفار اور بڑے بڑے سرداروں کے مارے جانے کی خبر پر کہرام
مچ گیا۔ ہندہ بنت عتبہ نے حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کے قتل اور کلیجہ چبانے کا
عہد کیا۔ ابوسفیان نے مال تجارت کے منافع سے مسلمانوں پر فوری چڑھائی کی
تیاری شروع کردی اور اگلے سال احد کے مقام پر پہنچا۔ ابولہب تو غزوہ بدر
میں اپنے یاروں کے انجام بارے سن کر اتنا پریشان ہوا کہ چند روز بعد ایک
گندے مرض میں مبتلا ہوکر واصل جہنم ہوا۔یہودیوں کے حسد میں اضافہ ہوا اور
مشرکین کے ساتھ ساز باز میں مشغول ہوگئے۔ حضور ﷺ جب واپس تشریف لائے تو
آپکی صاحبزادی کی تدفین ہوچکی تھی اور بعض روایات کے مطابق نہیں ہوئی تھی
آپ ﷺ کے حکم پر حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ عنہ نے انہیں قبر مبارک میں اتارا۔
عید الفطر سے دو روز قبل فطرانہ ادا کرنے کا حکم ہوا۔ مال غنیمت کو حلال
قرار دیا گیا اور اسکے احکامات نازل ہوئے۔ بدری صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی
تعداد ۳۱۳ ہے کچھ بحکم رسول ﷺ وہاں موجود نہ تھے مگر انہیں مال غنیمت سے
حصہ دیا گیا۔ بدری حضرات اﷲ کے نزدیک وہ ابرار ہیں کہ اﷲ نے فرمایا کہ جو
چاہو کرو تمہارے لیئے جنت واجب ہوگئی۔گویا انہیں معصوم عن الخطا کردیا اور
یہ درجہ ہے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا۔ حضور ﷺ کے دور کی جنگی
مہمات کو غزوہ اور سریہ کہنا لازم ہے ۔ جس مہم میں آپ ﷺ خود شریک رہے وہ
غزوہ ہے جس مہم میں آپ ﷺ نے کسی اور کو سالار بنایا وہ سریہ ہے۔ ان مہمات
کو جنگ کہنا شان رسالت میں بے ادبی اور گستاخی ہے۔ اسی طرح جو لوگ بحالت
کفر اﷲ کے رسول کے مدمقابل تھے اور بعد میں مسلمان ہوگئے تو سابقہ مہمات کے
ذکر میں انہیں رضی اﷲ عنہ ہرگز نہ کہا جائے ۔ جیسا کہ کوئی کہے کہ حضرت
ابوسفیان رضی اﷲ عنہ تجارتی قافلہ لے کر بچ کر چلے گئے۔ یا لشکر کفار کی
کمان کرتے ہوئے احد یا خندق کے مقام پر گئے۔ اس وقت وہ رضی اﷲ عنہ کے اہل
نہ تھے وہ کافر تھے۔ ہاں ایمان لانے کے بعد اگر رضی اﷲ عنہ کہے توکہ سکتا
ہے۔ اﷲ تعالی ہمیں اﷲ کے محبوب ﷺ اور آپ ﷺ کے جاں نثاروں کی محبت پر زندگی
اور موت عطا فرمائے اور انکی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے آمین۔ |