پاکستان کی 51 فیصد آبادی خواتین
پر مشتمل ہے محدود وسائل کے باوجود خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبے
میں خود کو منوایا چاہے شعبہ کوئی بھی ہو طب کا شعبہ ہو یا انجینئر نگ کا ،
کسی بھی شعبے میں وہ مردوں سے پیچھے نہیں رہیں خواتین کو پاکستان میں
مرودوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مساوی مواقع دستیاب ہوتے ہیں اس بات کا
اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید عالم
اسلام کی پہلی خاتون منتخب وزیر اعظم تھیں یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہے کہ
اس کی سابقہ قومی اسمبلی کی منتخب سپیکر بھی خاتون ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ہی
تھیں جو عالم اسلام کی پہلی منتخب سپیکر قومی اسمبلی تھیں اور جنھوں نے
پانچ سال تک ایوان کو کامیابی سے چلایاپاکستان میں کسی بھی شعبے کو دیکھ
لیں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد ہمیں ان تمام شعبوں میں مردوں کے شانہ
بشانہ کام کرتی اور کامیابیاں سمیٹنے میں مصروف نظر آتی ہیں پاکستان میں
خواتین کو بلا شبہ دوسری اقوام کے مقابلے میں ترقی کے زیادہ مواقع میسر ہیں
شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی خواتین کو جب مواقع ملتے ہیں تو وہ ایسے
کارہائے نمایاں سرانجام دیتی ہیں کہ دنیا ان کے کارناموں کی معترف نظر آتی
ہے ۔
پاکستان میں جہاں دیگر شعبوں میں خواتین مردوں کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی میں
اپنا کردار ادا کررہی ہیں وہیں پاک سرزمین کی حفاظت کیلئے فوج میں بھی
خواتین کی بڑی تعداد اعلیٰ اور اہم عہدوں پر کام کررہی ہے قیام پاکستان سے
خواتین آرمی میں بطور ڈاکٹر اور نرس خدمت انجام دیتی چلی آرہی تھیں لیکن اب
میڈیکل کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی خواتین کو بطور آفیسر بھرتی کیا جا رہا
ہے دو ہزر چھ میں تیس خواتین کو سگنلز، تعلقات عامہ، کمپیوٹر سیکشن، تعلیم
اور قانون کے شعبوں میں بطور کیپٹن اور میجر تعینات کیا گیاتھااب یہ تعداد
بہت بڑھ چکی ہے اور خواتین کیڈٹس کو اب مخصوص شعبوں کے علاوہ میدان کارزار
میں اتارنے کے لئے بھی تیار کیا جارہا ہے ویسے تو بری، بحری اور فضائیہ میں
طب اور دیگر شعبوں میں خواتین کام کرتی ہی ہیں پاک فوج کی جانب سے بھی اس
سلسلے میں اہم اقدامات اٹھائے گئے اور خواتین کو باقاعدہ فوجی تربیت کے
ساتھ ساتھ تمام عسکری شعبوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا خواتین کیڈٹس
نے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تربیت کے تما م مراحل کو خوش اسلوبی سے انجام
دیا اور ہر شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دیئے گزشتہ دنوں پاک فوج کی
خواتین کیڈٹس نے ایک اور تاریخ رقم کی جب انہوں نے بلندی سے چھلانگ لگاکر
خواتین کے پہلے پیرا ٹروپنگ کورس کی کامیابی سے تکمیل کی یہ کورس پیرا شوٹ
ٹریننگ سکول پشاور میں ہوا یہ سکول جمپنگ ٹریننگ کے لحاظ سے دنیا کے ممتا ز
اداروں میں سمجھا ہوتاہے پہلے بیچ میں چوبیس پرعزم خواتین آفیسرز کو شامل
کیا گیا تھا تین ہفتوں پر مشتمل اس کورس کے ہر مرحلے پر انہوں نے بہادری
عزم اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا ثبوت دیااور ثابت کیا کہ پاکستانی خواتین
بھی کسی بھی طور پر کم نہیں ہیں پیرا شوٹ سے جمپ لگانا جان جوکھوں کاکام ہے
جو انتہائی مہارت اور دلیری کا متقاضی ہوتا ہے اڑتے ہیلی کاپٹر سے چھلانگ
لگانے فضاؤں کو تیرنے اور چیرنے کے بعد پیراشوٹ کو کھولنے اور پھر اسے
الجھنے سے بچانے اور توازن قائم رکھنے کے لئے پیراٹروپرز کو نہ صرف جسمانی
لحاظ سے مستعد ہونا ضروری ہے بلکہ ذہنی لحاظ سے بھی کسی بھی ہنگامی حالات
سے نمٹنے کے لئے تیار ہونا پڑتا ہے کسی بھی مرحلے پر بے احتیاطی، ذہنی دباؤ
یا خوف آپ کو موت کے دہانے پر لے جاسکتا ہے اس لئے ان تمام مراحل میں پیرا
ٹروپس کو گزرتے وقت ہر لمحے چوکس رہنا پڑتا ہے پاک فوج کے افسر اور جوان
خاص طورپر سپیشل سروس گروپ سے تعلق رکھنے والے جری جانبازوں کے لئے تو یہ
مراحل معمول کی بات ہیں مگر خواتین کے لئے واقعی یہ جوئے شیر لانے سے کم
نہیں تھا مگر پاک فوج کے ان خواتین نے جو کمال کردکھایا ہے اس سے یقینا
ہماری تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے جو ہر سطح پر سراہے جانے کے
قابل ہے پاک فوج میں اب خواتین صرف طب کے شعبوں تک محدود نہیں رہیں بلکہ
تعلیم وتربیت اور مینجمنٹ کے علاوہ میدان کارزار میں بھی اب وہ اپنی خدمات
بڑے اعتماد سے نبھانے کے قابل ہوگئیں ہیں پاک فوج نے ان کی صلاحیتوں کو جو
نکھار بخشا ہے اس سے ان کے اعتماد میں بے حد اضافہ ہوا ہے اور انشاء اﷲ
مستقبل میں امید ہے کہ وہ حرب وضرب میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیں گی اس
کے علاوہ پاکستان ائیر فورس میں بھی خواتین لڑاکا پائلٹ شامل کیا گیا ہے
اور انھوں نے مردوں کے مقابلے میں انتہائی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اور اس
بات کا قوی امکان ہے کہ بہت جلد پاکستان ائیر فورس میں بھی خواتین لڑاکا
پائلٹ کی خاصی تعداد موجود ہو گی کیونکہ اس طرح خواتین کا ان نسبتا مشکل
شعبوں میں کامیاب ہونے کی وجہ سے دیگر شعبوں کی خواتین میں یہ جزبہ پروان
چڑ رہا ہے کہ وہ بھی اس شعبے میں کامیاب ہو سکتی ہیں ان اعدادوشمار کو
دیکھتے ہوئے کسی بھی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستانی خواتین کو
ترقی کے مساوی مواقع میسر نہیں بلکہ اب تک کے اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے اس
بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جس طرح مشکل اور مردانہ
شعبوں میں خواتین کو شامل کیا جا رہا ہے اور جس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ
ان شعبوں میں خواتین کرتی نظر آرہی ہیں وہ قابل تحسین ہے اور اس طرح خواتین
کی کامیابی سے اس بات امید پیدا ہو چلی ہے کہ جب بھی وطن عزیز کو ان ماؤں،
بہنوں اور بیٹیوں کی ضرورت پڑے گی وہ مردوں کے شانہ بشانہ تعمیر وطن ،استخکام
وطن اور دفاع وطن میں اپنا کردار بخوبی سر انجام دیں گی۔ |