جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے
حالات و واقعات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں پرانے وقتوں میں ہر چیز اصل اور خالص
ہوا کرتی تھی بڑوں کا ادب چھوٹوں پر شفقت ،انسان کا احترام اور اپنی
اولادوں کی تربیت کی فکریں ہر کسی کو لاحق ہوتی تھیں۔خاندان کا ہر شخص عزت
کو ترجیح دیتا تھا اور خاندان،باپ دادا کی عزت و ناموس بحال رکھنے اور
معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا اولین خواہش ہوتی تھی۔خاندان کے بڑے بزرگ
چھوٹوں کی تربیت پر خاص توجہ دیتے تھے۔چھوٹے بچوں کی ہر بات پر روک ٹوک اور
حرکات و سکنات پر نظر رکھنا ، بری سوسائٹی سے دور رکھنا اولین فرض سمجھا
جاتا تھا۔ بزرگ کہا کرتے تھے کہ خاندان کے بڑوں کی عزت و وقار برقرار رکھنے
کے لیے اولاد کی صحیح تربیت بہت ضروری ہے مگر نہ جانے کیوں جوں جوں وقت
گزرتا جا رہا ہے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ رسم و رواج،اقدار، طور طریقے
بھی بدلتے جا رہے ہیں نہ بڑوں بزرگوں کا احترام نہ چھوٹوں سے شفقت کسی کو
کسی کی پرواہ نہیں حتیٰ کہ اولاد سے بے خبری ، لاپرواہی کے نتیجے میں بری
سوسائٹی اور برے کاموں میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔تعلیم عام ہو گئی ہے مگر
ادب آداب اور احترام کا نام و نشان نہیں،دولت عام ہو گئی ہے مگر ہمدردی اور
میل جول پیار محبت کا خاتمہ نمود و نمائش کے ساتھ ساتھ تکبر،غرور، بے حیائی
فیشن میں اضافہ ہو گیا ہے نفسا نفسی کا عالم ہے ہمدردی تو دور کی بات
ہمدردی کے دو بول بولنے اور دلاسہ دینے یا نصیحت کرنے کا احساس ختم ہو چکا
ہے۔شاید اس کی بڑی وجہ اولاد کی صحیح تربیت نہ کرنا ہے اولاد کے ساتھ
لاڈ،پیار کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی بچہ کسی بڑے سے بدتمیزی کر رہا
ہے،گالیاں دے رہا ہے یا کوئی بھی الٹے سیدھے الفاظ کہہ رہا ہو تو والدین
بجائے منع کرنے یا سمجھانے کے خوش ہوتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان
کا بیٹا یا بیٹی میٹھی میٹھی باتیں کر رہا ہے بچوں کو آرام سے بیٹھنے یا
بڑوں سے بدتمیزی نہ کرنے کے دو بول بھی نہیں کہہ پاتا اور بالآخر وہی بچہ
تھوڑا بڑا ہو کر والدین کے لیے درد سر بن جاتا ہے اور والدین خود اقرار
کرتے ہیں کہ ان کے بچپن کے بے جا لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیا ہے اگر بغور
اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو نوجوان نسل غلط کاموں اور بری
سوسائٹی سے وابستہ نظر آتی ہے شہر تو شہر دیہاتوں میں بھی حالات خراب اور
منشیات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔جس میں والدین اور سرپرستوں کا قصور ہے
کہ وہ اپنی اولاد کی نگرانی اورتربیت پر خصوصی توجہ نہیں دیتے کہ ان کے
بچوں کا کس سوسائٹی میں اٹھنا بیٹھنا ہے کس شخص سے کس طرح کے مراسم ہیں ،کب
گھر سے باہر جاتے ہیں کب واپس آتے ہیں رات کا کتنا حصہ غائب رہتے ہیں،کس
قسم کا نشہ کرتے ہیں۔بعض اوقات والدین کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا
بچہ کہاں کام کرتا ہے کیا کماتا ہے کتنا اور کہاں کہاں خرچ کرتا ہے کچھ
والدین بچوں پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے انھیں سمجھدار نیک،پارسا سمجھنے
لگتے ہیں جس کا نتیجہ غلط نکلنا فطری امر ہے۔ذیادہ تر نوجوان بے روزگاری کی
وجہ سے آوارہ گردی کرتے ہیں اور بری سوسائٹی کا شکار ہو جاتے ہیں اور خاص
کر منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں اور چرس، شراب، ہیروئن جسے عرف عام میں پوڈر
کہا جاتا ہے کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ انھیں اس منشیات کے استعمال کو
چھوڑنا زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔اس میں منشیات مافیا کا بھی بڑا
ہاتھ ہوتا ہے جو کہ پہلے پہل مفت فیشن کے طور پر ان چیزوں کو مہیا کرتے ہیں
اور بعد میں آمدن کا ذریعہ بنا لیتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنے
بچوں پر کڑی نظر رکھتے ہوئے انھیں کنٹرول کریں اب تو نوجوان لڑکیاں بھی
منشیات میں ملوث ہو رہی ہیں اور کسی حد تک منشیات کی عادی ہو چکی ہیں اور
بے خبرے والدین کو بھنک تک نہیں پڑنے دی جا رہی۔منشیات کی وجہ سے معاشرے
میں اور بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں جن میں چوری، ڈکیتی، فراڈ، زنا جیسے
جرائم جنم لے رہے ہیں۔اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو دیہاتوں کے نزدیک
قبرستانوں‘ ویران جگہوں،پلوں کے نیچے، گاؤں میں قائم دکانوں،با اختیار
لوگوں کی بیٹھکوں میں سر عام نوجوانوں کی محفلیں سج جاتی ہیں اور نشہ کیا
جاتا ہے۔حالانکہ بعض اوقات چند افراد کو خبر ہونے کے باوجود ان نوجوانوں کو
منع کرنے یا روکنے کی جرات نہیں کی جاتی اور نہ ہی ذمہ دار وں یا والدین
کوآگاہ کیا جاتا ہے بعض اوقات اگر والدین کو دبے لفظوں میں آگاہ کیا بھی
جائے تو وہ برا منا جاتے ہیں۔منشیات کے عادی نوجوانوں کی ذیادہ تعداد کا
تعلق کھاتے پیتے گھرانوں سے ہوتا ہے جو کہ والدین کی طرف سے نوجوان بچوں کو
جیب خرچ کی صورت میں دی جانے والی رقم اس کا سبب بنتی ہے دیہاتوں میں رہنے
والے نوجوان طبقہ جن کی گھر کی مالی پوزیشن بہتر ہوتی ہے یا ایسے نوجوان جن
کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہوتااس گھناؤنی اور جان لیوا لت میں پڑ
جاتے ہیں اور ساتھ شریف گھرانوں کے لاڈلوں کو بھی ملوث کر لیتے ہیں اکثر
اوقات گھروں کے مخصوص کمروں میں بیٹھ کر ٹی وی کیبل،ڈی وی ڈی،کمپیوٹرپر فحش
فلمیں اور گانے سننے والے دوست گروپوں میں عام طور پر منشیات کا استعمال
ذیادہ ہوتا ہے کسی زمانے میں اگر کسی گھر کا بچہ یا نوجوان سگریٹ پیتا تھا
تو اسے معیوب سمجھا جاتا تھا اور پینے والا بڑوں بزرگوں سے چھپ کر پیتا تھا
مگر آج کل کے دور میں سب کے سامنے بطور فیشن سگریٹ نوشی اور نسوار خوری کی
جاتی ہے۔کئی جگہوں پر والدین اولاد کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں جنہیں آخر
کار مشکلات اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور روز مرہ زندگی میں بے
شمار مسائل جن میں لو میرج، اغواء ،لڑکی لڑکے میں طلاق کا معاملہ،عاشق
معشوقی، زنا، راہزنی، چوری، ڈکیتی، اور بہت سی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔جنہیں
بعد میں کنٹرول کرنا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہوتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ
وہ شروع دن سے ہی اولاد پر کنٹرول رکھیں اور انھیں بری سوسائٹی اور دوستوں
سے دور رکھیں اور بے جا جیب خرچ سے اجتناب کریں اور ان کی حرکات و سکنات پر
کڑی نظر رکھیں تاکہ معاشرے میں بہتری کے ساتھ ساتھ ان کی اولاد بھی ایک
بہترین انسان کے روپ میں ان کی نیک نامی اور عزت وقار میں اضافے کے طور پر
زندگی گزارے۔ہمیں چاہیے کہ معاشرے سے برائیوں کے خاتمے اور اپنی آنے والی
نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے غور و فکر کریں اور جہاں تک ممکن ہو سکے اسے
عملی جامہ پہنائیں۔ |