پیپلز پارٹی کے فاروڈ بلاک نے
بیرسٹر سلطان محمود چودھری کی سربراہی میں وزیر اعظم چودھری عبدالمجید کی
حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں
جمع کرا دی ہے۔رکن اسمبلی عبدالماجد خان اور محمد حسین سرگالہ کی طرف سے
اسمبلی میں یہ تحریک کی گئی ہے۔22جولائی2013ء بروز پیرکی صبح آٹھ بجکر پانچ
منٹ پر سیکرٹری قانون ساز اسمبلی کے پاس تحریک عدم اعتمادزیر نمبر267 جمع
کرائی گئی۔
مکافات عمل دیکھیں کہ جس طرح پیپلز پارٹی نے مسلم کانفرنس کی حکومت پر عدم
اعتماد کراتے ہوئے مسلم کانفرنس کے ٹکڑے کرائے تھے اسی طرح آج پیپلز پارٹی
مسلم کانفرنس سے بھی کمزور پوزیشن میں آنے کے قریب ہے۔ عدم اعتماد کی اس
تحریک کو بعض افراد وفاق کی کاروائی قرار دیتے ہیں،کسی کو اس میں آزاد
کشمیر کا تشخص خطرے میں نظر آتا ہے اور کئی افراد اس معاملے میں نہایت حساس
و سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ان سے عرض ہے کہ یہ ’’جواب آں غزل‘‘مذاق ہے، اسے مذاق
کے طور پر ہی دیکھیں۔آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت جس طرح قائم کی گئی وہ سب
کو بخوبی یاد ہے۔پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے آزادکشمیر میں الیکشن سے
پہلے پیپلز پارٹی کو مضبوط بنانے کے لئے کیا کیا سیاسی سازشیں کیں، اور اس
حکومت کے دوران آزاد کشمیر میں رشوت،کمیشن،اقرباء پروری،قبیلائی و علاقائی
ازم کی بیماریوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ ٹھیکے مشتہر ہونے سے
پہلے ہی منظور نظر کو الاٹ کرتے ہوئے سرکاری ادائیگیاں بھی شروع ہو جانے کے
کارہائے نمایاں کا اعزاز بھی اسی حکومت کو حاصل ہے۔یہی وہ حکومت ہے جس نے
درجنوں کی تعداد میں نا اہل افراد کو کشمیر لبریشن سیل میں بھرتی کیا اور
سرکاری جھنڈیوں کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ڈھٹائی کی انتہا کہ اپنی’ کھاؤ
پیؤ کھلاؤ ‘پالیسی کو تحریک آزادی کشمیر کا مفاد قرار دیتے ہوئے ’’ کشمیر
لبریشن سیس‘‘ کا قانون بنا دیا گیا جو ٹینڈر فارم،نکاح فارم سمیت ہر جگہ
عوام پر عائیدہے ۔پھر کون قربان نہ جائے آزاد کشمیر حکومت کی مقبوضہ کشمیر
کے حریت پسند عوام کے لئے دی جانے والی ان بے مثال قربانیوں پر ۔’’
ظالموں‘‘ نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہوئے یہ خیال بھی نہ کیا کہ کچھ
ہی عرصہ پہلے مظفر آباد میں میر واعظ عمر فاروق نے وزیر اعظم چوہدری
عبدالمجید کو ’’ اچھی کارکردگی دکھانے کا سرٹیفیکیٹ‘‘ عنایت کیا تھا۔لیکن
میں اپنے آج کے اس کالم میں وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کے خلاف عدم اعتماد
کی مخالفت یا حق میں دلائل کی جگہ اس صورتحال کو ایک الگ نظر سے پیش کرنا
چاہتا ہوں جو سیاسی نہیں بلکہ انسانی، سماجی نکتہ نظر پر مبنی ہے۔
مجھے یاد آیا کہ آزاد کشمیر کی اایک بڑی شخصیت نے ایک موقع پر یہ تاریخی
بات کہی کہ ’’ تمھیں کیا پتہ اقتدار کیا ہوتا ہے،جب یہ جاتا ہے تو یوں
محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ناخنوں کے راستے جسم سے روح نکل رہی ہو‘‘۔ایک سابق
وزیر اعظم کے بقول ’’ ہوٹر کے مزے ہی اور ہوتے ہیں‘‘۔گزشتہ پانچ سال میں یہ
چوتھی عدم اعتماد کی تحریک ہے جس کے ذریعے ارکان اسمبلی حکومت کو تبدیل کر
رہے ہیں۔میں سوچنے لگا کہ ہر عدم اعتماد کے وقت ،عدم اعتماد کا نشانہ بننے
والے وزیر اعظم پر کیا گزرتی ہو گی؟عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے ہی اس کے
حالات نظر آنے لگتے ہیں لیکن ’سرکاریت‘ کے لبادے میں لپٹا وزیر اعظم اپنی
مضبوطی پر کامل یقین رکھتے ، اپنی ہر بات کو درست قرار دیتے ہوئے اسے
دشمنوں کا پروپیگنڈہ قرار دیتا ہے ۔تحریک عدم اعتماد کا نوٹس سیکرٹری
اسمبلی کے پاس جمع ہوتا ہے تو وزیر اعظم اپنی محفلوں میں مختلف
شخصیات،افراد پر کئے گئے اپنے ’’ سرکاری اور غیر سرکاری‘‘ احسانات/اخراجات
گنواتے ہوئے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے کیونکہ
احسانات کے باوجود مخالفت اورعدم اعتماد سے وزیر اعظم کے دل میں دھکتی آگ
اور بھی بھڑک اٹھتی ہے۔ یہ دیکھ کر وزیر اعظم کو اور بھی غصہ چڑہتا ہے کہ
اس سے ملاقات،بات کرنے کی تگ ودو میں ہمہ تن مصروف ہجوم یکدم غائب ہو جاتا
ہے۔تحریک عدم اعتماد کے نشانے پہ موجود وزیر اعظم کو اصل دکھ ان وزراء کا
ہوتا ہے جن کو وہ اپنی حکومت کے مضبوط ستون قرار دیتا تھا اور ان سیاسی
مخالفین کا، جن کی اخباری مخالفت کے باوجود ان کے’ کام کاج‘ اور اخراجات کا
وزیر اعظم ’’ چھپ کر کی جانی والی نیکی کی طرح‘‘ خیال رکھتا تھا۔جن وزرائے
اعظم پہ اس طرح گزری ہے وہ ایسا بھی سوچتے ہوں گے کہ اگر انہیں دوبارہ موقع
ملا تو وہ اب والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے لیکن اکثر قانون فطرت کے ہاتھوں
دوبارہ ویسا ہی طرز عمل اپنانے پہ’’ مجبور‘‘ ہو جاتے ہیں۔ان حالات میں عدم
اعتماد کے نشانے پہ موجود وزیر اعظم اس وقت نمناک آنکھوں کے ساتھ مسکرانے
پہ مجبور ہو جاتا ہے جب اقتدار جاتا دیکھ کر اس کے اپنے گھر والوں کے روئیے
میں بھی تبدیلی واضح محسوس ہونے لگتی ہے۔لیکن اس وزیر اعظم کا پیمانہ صبر
اس وقت لبریز ہو جاتا ہے کہ جب اس کی حکومت کی ’’ کچن کیبنٹ‘‘ بھی اسے ہی
مورد الزام ٹہراتے ہوئے کہتی ہے کہ دیکھا ہماری بات نہ ماننے کا انجام۔ اس
پر بیچارہ وزیر اعظم اپنا سر پیٹنے پہ آ جاتا ہے کہ وہ تو تمام فیصلے اسی
کچن کیبنٹ کے کہنے پر ہی کرتا رہا۔یہی وہ دن ہوتے ہیں جب وزیر اعظم مسکراتے
ہوئے اپنی اجڑی محفلوں میں دعوی کرتا ہے کہ کسی نے صبر اور برداشت دیکھنی
ہو تو مجھ سے ملے۔
ایسے وزیر اعظم کو گانا آتا ہو یا نہ آتا ہو لیکن اسے یہ خیال ضرور آتا ہو
گا کہ’’ تاش کے اڑتالیس(سوری باون) پتے،پنجے ،ستے ،اٹھے ،نکلے سب کے سب
ہرجائی،میں لٹ گیا زرداری(سوری رام) جی ہے دھائی‘‘۔ایسا وزیر اعظم اقتدار
کے محل سے روانگی کے وقت جاتے ہوئے یہ نہیں کہتا کہ’’ تیری دنیا سے ہو کے
مجبور چلا‘‘ بلکہ یہ نعرہ مستانہ لگاتا ہو گاکہ ’’ میں گزرا وقت نہیں جو
لوٹ نہ سکوں، اے ایوان اقتدار،میں آس پاس ہی ہوں،جب بھی بلائے گا دوڑا چلا
آؤں گا۔‘‘ لیکن ایسے خوش نصیب کم ہی ہوتے ہیں جنہیں دوسری بار بھی اقتدا ر
ملے کیونکہ آزاد کشمیر کی قبیلائی اور علاقائی طور پر تقسیم کے میرٹ کی
لائین پہلے سے ہی لگی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں صبر ،تحمل،برداشت کا دعوی
کرنے کے لئے شادی شدہ ہونا اور الیکشن لڑ چکنا لازم ہے اور اگر عدم اعتماد
کا شکار وزیر اعظم ہو تو واقعی اس کے حوصلے کی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ کیسے
مسکراتے ہوئے اقتدار کی روح نکلنے کے عمل سے گزرتا ہے۔حکومت اگر ناقابل
اصلاح ہو تو اس کا جانا ہی بھلا،کہ امید بہتری قائم رہے۔آزاد کشمیر میں کیا
ہونے جا رہا ہے اور کیا ہو گا،یہ منظر کافی واضح ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ
’’ چل ساتھ کہ حسرت دل مرحوم سے نکلے ، عاشق کاجنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘
،میں تو صرف اتنا کہوں گا کہ’’ بادشاہ مر گیا ،بادشاہ زندہ باد‘‘۔ |