بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی
زبان پھسل جاتی ہے۔ نادانستگی میں ادا شدہ الفاظ ضمیر کی خلش بن جاتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں تحفظ ایمان کیلئے ماسوائے الله سے معافی کے طلبگار ہونے
کے اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا
قصہ کچھ یوں ہے کے گزشتہ دنوں بلکہ ٹھیک رمضان سے ایک روز قبل برمنگھم کی
سول عدالت میں لین دین کے تنازع میں مجھے مدعی کیجانب سے بطور گواہ پیش
ہونا پڑا۔ فریقین، گواہان اور وکیل سب الله کے فضل سے کلمہ گو مسلمان تھے۔
البتہ انصاف کا قلمدان ایک ادھیڑ عمر انگریز کے ہاتھ میں تھا۔ شواہد کی مد
میں ہماری کل کائنات مجھ سمیت تین گواہان اور دو ٹیکسٹ میسج تھے اور وہ بھی
ایک سال پرانے۔ مقدمے کے آغاز سے قبل ہی ہماری خاتون وکیل نے خبردار کردیا
تھا کہ کامیابی کے امکانات کم ہیں اور مخالف فریق مکمل تیاری کے ساتھ میدان
میں اترا ہے۔آپ صرف الله سے دعا کریں کہ وہ جج کو ہدائت عطا فرمائے کہ وہ
سچ اور جھوٹ میں تمیز کرسکے۔ یک لخت ایک طنزیہ مسکراہٹ میرے چہرے پر پھیل
گئی ۔ اگر انگریزوں کو الله کی ہدائت ہوتی تو کیا وہ مسلمان نہ ہوجاتے؟ قصہ
مختصر مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی۔ میں توقع کررہا تھا کہ قانونی
موشگافیوں کا باب کھل جائیگا، دلائل اور جوابی دلائل کی بوچھاڑ ہوگی مگر
تمام تر توقعات کے برعکس جن دلائل سے کارروائی کا آغاز کیا گیا اس سے نہ
صرف فریق مخالف کی اپنی بلکہ اس عمومی زہنئت کی عکاسی ہورہی تھی جو ہم نے
اہل مغرب کے بارے میں قائم کر رکھی ہے۔حیرت انگیز طور پر مخالف فریق نے اس
خالص دیوانی مقدمے میں جج کے سامنے ایک اسلامی جماعت کے بارے میں دہشت گردی
اور طالبان سے روابط کی خبروں پر مبنی کچھ پاکستانی اور غیر ملکی اخبارات
کی خبریں پیش کیں۔ایک سیاسی تقریر کی اور ہم سب کا اس جماعت سے تعلق ظاہر
کرکے ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔میرے دوست یعنی مدعی کے امیگریشن معاملات
پر بھی روشنی ڈالی۔ مقصد غالبا یہ تھا کہ اسلام اور امیگریشن کے حوالے سے
جو بے چینی برطانوی معاشرے میں پائی جاتی ہے اسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے جج کے
جذبات ہمارے خلاف بھڑکائے جاسکیں۔ تقریبا ١٥ سے ٢٠ منٹ تک نہائت تحمل سے یہ
سب کچھ سننے کے بعد انگریز جج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اس نے سختی سے
تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا وقت ضایع نہ کیا جائے اور دلائل کو
الزامات کے دفاع تک محدود رکھا جائے۔یہی وہ موڑ تھا جہاں مجھے احساس ہوا کہ
غیر مسلم انگریز جج کو الله کی جانب سے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کی ہدائت
موصول ہوگئی ہے۔ بقیہ کارروائی مزید تین چار گھنٹے جاری رہی تاہم جج کے
چہرے کے اتار چڑھاؤ سے واضح نظر آرہا تھا کہ وہ رائے قائم کرچکا ہے۔ فریق
مخالف اگرچہ مسلسل ان تمام معاملات کو جھٹلاتے رہے جن میں سے ایک کا میں
بھی گواہ تھا اور میں مسلسل یہ سوچتا رہا کہ کہ اگر یہ سماعت ایک روز بعد
ہوتی تو اس تمام دروغ گوئی کا مظاہرہ روزے کی حالت میں بھی کیا جاتا۔ فیصلہ
ہمارے حق میں ہوا اور فریق مخالف کو ٢١ روز میں تمام رقم بمعہ قانونی
اخراجات مدعی کو ادا کرنے کا حکم سنادیا گیا۔
عدالت سے گھر واپس آتے ہوئے مقدمے کی کارروائی زیر بحث رہی۔بے اختیار ابن
تیمیہ کاقول یاد آگیا کے معاشرے کفر کی حالت میں زندہ رہ سکتے ہیں لیکن
ناانصافی میں نہیں۔ ایک غیر مسلم ملک میں بغیر رشوت اور اثرورسوخ کے ایک دن
میں انصاف کی فراہمی، کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ممکن تھی۔ میرے دوست
سید نعمان نے جو اس مقدمے کا دوسرا گواہ تھا انگریز جج کی انسان شناسی اور
انصاف پسندی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا اچھا ہوتا اگر یہ جج مسلمان
ہوتا۔ناجانے کس کیفیت میں میرے منہ سے یہ الفاظ نکل پڑے
“اگر مسلمان ہوتا تو انصاف کیسے کرتا“
بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی زبان پھسل جاتی ہے۔ نادانستگی میں ادا شدہ
الفاظ ضمیر کی خلش بن جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں تحفظ ایمان کیلئے ماسوائے
الله سے معافی کے طلبگار ہونے کے اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ۔ |