قوم کی بیٹیاں بھی ظلم کا شکار
آزادی کی تحریکیں ہیں یا ظلم وبربریت کے لشکر جس کی نہ غیرت ہے اور نہ کوئی
اصول ،بے گناہو عورتوں پر ہاتھ اٹھانا جن کا قصور بھی کوئی نہ ہو۔اورایک
منتخب رکن اسمبلی کی کون سی بہادری ہے کہ ایک غریب کا چہرہ ہی ملا بہادری
دکھانے کے لئے جسے اس کی جگہ پہ ہونا چاہئے تھا لیکن قسمت بھی آپ کے اچھی
رہی وہ تعلیم یافتہ ہوکے بھی بس میں غیر محرموں تک کی خدمت کر رہی ہے اور
یہ بے ضمیر لوگ پارلیمنٹ کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔یہ بھی کوئی انصاف ہے جب
ظالم صرف پیاز توڑنے پر غریب کی معصوم بچی پرکتے چھوڑ دے جس کا مستحق خود
ہے۔افسوس ہوتا ہے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ان خبروں کو دیکھ کے۔جس کا من
چاہا اس نے انسانیت سوز کام کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ہماری قوم
میں سے تو محمد بن قاسم جیسے سپہ سالار پیدا ہوئے جو ایک بہن کی آواز پر
عرب سے ہند آئے لیکن آج ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ہماری بیٹیوں بہنوں کے ساتھ ظلم
ہورہا ہے۔کوئٹہ میں حالیہ دنوں بربریت کا نشانا بننے والی بیٹیوں کی کیا
قصور تھا کیا انہوں نے ان درندوں کی آزادی میں رخنہ ڈالا تھا جو انہیں
بیدردی سے شہید کردیا گیا درندگی بھی شرماتی ہے ۔ان لوگوں کو شرم نہیں آئی
جس نے بھی جس نام سے اس سفاکیت کی ذمہ داری قبول کی ہے ان سے پوچھا جائے کہ
اگر تم لوگ کون سا نظام نافذ کرنا چاہتے جس سے بیٹیوں کو تشدد کر کے حاصل
کرو گے۔ نہ تو ہمارا مذہب اس بات کی حمایت کرتا ہے نہ کوئی قبائلی روایات
اس کا ساتھ دیتی ہیں نہ یہ لوگ مسلمان کہلانے کے مستحق ہیں نہ یہ بلوچ
کہلانے کے۔ یہ لوگ نہ تو شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور نہ یہ مظلوم بلوچوں
کے حقوق کے لئی لڑ رہے ہیں یہ ان ایجنسیوں کے کارندے ہیں جو ہمیشہ ہمارے
دشمن رہے ہیں۔اسلام تو جنگ وجہاد میں بھی عورتوں،بچوں اور بوڑھوں کو استثنا
دیتا ہے پھر یہ درندے کون سی شریعت نافز کرنا چاہتے ہیں؟ یہ مسلمان نہیں
بلکہ انسان بھی نہیں یہ بھیڑیے ہیں یہ بزدل اور بے غیرتی مین اپنی مثال آپ
ہیں۔ یہ بیٹیاں بھی تو کسی کی اولاد تھیں ان کے ماں باپ بھی تو تھے جو اپنی
آنکھوں میں خواب سجائے ہوئے تھے اب یہ آنکھیں صرف آنسوؤں کے سمندر بن جائیں
گی۔اس مذموم کاروائی میں جو بھی فرقہ وارانہ ینظیم ہے یا آزادی پسند تحریک
ان کے لئے سخت سے سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے اور ان سیکورٹی
اداروں کو بھی شامل تفتیش کیا جائے جن کے ہوتے ہوئے بھی دہشت گرد اتنے بڑے
شہر کے اندر دندنا رہے ہیں اورتحقیقات کی جانی چاہیے کہ اس بس کی تلاشی
کیوں نہین لی گئی جس میں بچیوں کو سفر کرنا تھا دہشت گرد یونیورسٹی تک بمع
اسلحہ کیسے پہنچ گئے۔
ظلم کی ایک اور داستاں بس پہ سفر کرنے والی رکن اسمبلی نے ایک غریب بس
ہوسٹس پر تھپڑوں کی بارش کردی یہ نااہل لوگ ویسے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر تو
نہیں کرتے شاید اس لئے اس عورت نے اپنا غصہ ایک غریب لڑکی پر نکالا یہ بھی
ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے تعلیم یافتہ بیٹیاں بسوں پر غیر لوگوں کی خدمت
کر رہی ہیں ایک تویہ مغرب کی تقلید ہمیں تاریکی میں لئے جارہی ہے دوسی
ہمارے ملک کی غربت ہماری بیٹیوں سے یہ سب کروانے پر مجبور ہے ورنہ یہ تھپڑ
مارنے والوں کی جگہ پر ان بیٹیوں کا حق بنتا ہے رکن اسمبلی تعلیم سے بے
بہرہ لوگ بنتے ہیں جو ملک وقوم کی تقدیر لکھتے ہیں۔کیا اس کے ساتھ انصاف
ہوگا ۔اس کے ساتھ وہی انصاف ہوگا جیسا نفیسہ شاہ کے تھپڑ کھانے والی ٹیچر
کے ساتھ ہوا تھا جس بیچاری نے خود کو ہی قصور ور ٹھہرا لیا تھا۔یہ بیٹی بھی
جب تک میڈیا کے سامنے ہے تو خبریں چلتی رہیں گی میڈیا سے اوجھل ہوتے ہی
نگہت شیخ کے وارث پھر طاق میں رہیں گے۔انصاف تو ایسے ہو کہ اس بے ضمیر عورت
جسے عورت ذات کی قدر کرنا نہیں آتی اس کو اسمبلی کی رکنیت سے بھی محروم
کردیا جائے تاکہ پھر کبھی کوئی اس ظلم کا شاخسانہ نہ بنے۔
سفاکیت کا ایک اور واقعہ جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں رونما ہو جہاں
ملک جاویدنامی ایک زمیندار وڈیرے نے ایک معصوم چھ سال کی بچی پر کتے چھوڑ
دیے اور کتے اس بچی کو نوچتے رہے جب اس بچی کو میڈیا کے سامنے لایا گیا تو
دل پھٹ سا گیا۔ اس معصوم کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اس درندہ صفت
زمیندار کے کھیت سے پیاز توڑنے کی جسارت کی تھی۔یہ غریب لوگ ان زمینداروں
کے زندگی بھر غلام رہتے ہیں اور غربت ان کی نسلوں کا مقدر رہتی ہے یہ غلامی
نسل در نسل چلتی رہتی ہے اور یہ ظلم بھی ان پہ تسلسل سے جاری رہتا
ہے۔حکومتی عہدیدار ایم این اے اور ایم پی اے بھی ان زمینداروں،جاگیرداروں
میں سے ہوتے ہیں جو ووٹ نہ دینے پر ان غریبوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔
جنوبی پنجاب کیانپسماندہ علاقوں میں میڈیا بھی متحرک نہیں ہے جس سے یہ
سفاکیت کی داستانیں بہت کم سننے کو ملتی ہیں ورنہ یہ ظلم یہاں کا معمول بن
چکا ہے۔ان غریبوں کو انصاف اﷲ تعالیٰ کی ذات سے ضرور ملے گا۔یہ ظلم اس وقت
تک ہوتا رہے گا جب تک انصاف صرف امیروں کے دروازوں تک محدود ہوگا۔قانون صرف
غریبوں کی گرفت کے لئے ہوگا۔قاتل سزا ملنے پر فاتحانہ انداز دکھائیں
گے۔ایٹمی طاقت ہو کے بھی اپنی حفاظت نہ ہوسکے۔جہاں اپنے ہیروز کے گھر بموں
سے اڑا دیے جائیں ۔سیکورٹی ادارے صرف امیروں کبیروں کے بچوں کی حفاظت کریں
اور وزیروں مشیروں کے آگے پیچھے ہوں پھر اس ملک میں یہ ظلم کی داستانیں رقم
ہوتی رہیں گی ۔ہمیں معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرنی ہوگی قانون امیر غریب کے
لئے جب ایک جیسا بنے گا تب جا کے یہ ظلم ختم ہوگا۔ |