ثانیء الزہرہ

انسان کی زندگی میں کبھی کبھی ایسے واقعات رونماہوتے ہیں کہ اُس کے صبرکاپیمانہ لبریزہوجاتاہے‘بڑی بڑی آفتیں جھیلنے والے بھی دین پرضرب لگتی دیکھیں توانکی آنکھیں اشکبارہوجاتیں ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ روز سے عشاق رسول ﷺ کاقلم دہائی دے رہاہے‘الفاظ رورہے ہیں ‘ذہن ماؤف اورجسد خاکی پرلرزہ طاری ہے۔حیرت کی بات نہیں تاریخ شاہد ہے کہ اہل بیت رسولﷺ پرکس طبقہ نے اورکیوں مظالم ڈھائے ۔واقعہ کربلاانسانیت کے لیئے جہاں مشعل راہ ہے وہیں تاریخ انسانی کے بدقسمت ترین انسان کی پیشانی پربدنماداغ ہے۔یہی وہی لوگ ہیں جن کے لیئے دین نہیں‘حق وخیرنہیں بلکہ تخت وتاج ‘مال ومتاع اورجاہ حشمت ہی سب کچھ ہے۔آپ انھیں خارجی کہیئے ‘

کلمہ گوبدبخت کہیئے یامنافق کہیئے ‘حقیقت یہ ہے کہ یہ اس دائرے میں نہیں ہیں جسے اسلام کہتے ہیں۔

انسان کی روح کوگھائل ‘احساسات کوزخمی ُقلوب کومثل ماہی بے آب اورآنکھوں سے لہووہی باتیں رواں کرتی ہیں جن میں اُن کے محبوب پریااس کے قرابت داروں پرزخم لگانے کی خبرہو۔سیدہ زینب کااس سے بڑاکیاتعارف ہوگاکہ وہ نواسی رسول ﷺ ہیں ۔جن کے اسم مبارک زینب کامطلب ہے ’’باپ کی زینت‘‘باپ کون ؟علم کادروازہ‘شیرخدا‘دامادرسولﷺ‘اندازہ کیجئے اسکی زینت کتنی عفت ماب ہوگی ‘اس کامقام یقیناانسانی عقل سوچتے سوچتے منجمدہوتی ہوگی۔

ہجرت کے چھٹے سال5جمادی الاول کو آپ کی ولادت ہوئی۔آپ امام عالی مقام سیدناحسین سے دوسال چھوٹی تھیں۔جناب زینب کی ولادت کے وقت دوجہانوں کے سردارمدینہ سے باہرتھے۔جب تشریف لائے توآپ نے سیدہ کو آغوش میں لیااورفرمایامیں حاضرین وغائبین سے وصیت کرتاہوں کہ اس بچی کااحترام کریں یہ بچی خدیجہ سے شبہات رکھتی ہے۔ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ کونام ’’زینب ‘‘جبرئیل امین نے بتایا۔ایک اورروایت میں آتاہے کہ جب آپ ﷺ نے بچی کوگودلیاتوآنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے ۔جب وجہ پوچھی گئی توسرورکائنات نے ارشادفرمایا’’خداکی جانب سے جبرئیل نے مجھے خبردی ہے کہ اس نومولود کے رنج وغم اورمصائب بے شمارہوں گے اوریہی میرے گریہ کی علت ہے‘‘۔حجتہ الوداع میں ناناکے ساتھ تھیں ۔جب وہ سات سال کی ہوئیں توناناشاہ کونین کی جدائی کاصدمہ سہناپڑا۔اسکے تین ماہ بعد والدہ ماجدہ کی اس دنیاسے رخصت نے سیدہ زینب کو رنج وغم میں ڈبودیا۔خداجانے قدم قدم پرکیوں اہل بیت رسولﷺکومشکلات کاسامناکرناپڑا۔ہمارے ایک دوست کہتے تھے کہ میں نے داداسے سناہے کہ اگرواقعہ کربلامن وعن کسی کے گوش گزارہوجائے تووہ پوری عمر مسکرانے سے قاصررہے گا‘لیکن یہ ذیشان گھرانہ صبروشکرکے مقام پرفائزرہا۔

حضرت زینب بلندقامت ُخوبصورت اورعالی مقام تھیں۔آپ کی تربیت امیرالمومنین نے کی ۔یہ اسی اعلی دردگاہ کاہی اثرتھاکہ آپ وقاروعظمت میں اپنی نانی جناب خدیجہ ‘عفت اورحیامیں اپنی والدہ محترمہ ‘فصاحت وبلاغت میں اپنے والد‘صبروضبط میں اپنے بھائی حسن اورشجاعت وقوت قلب میں اپنے بھائی حسین کی مانند تھیں۔آپ کالہجہ حضرت علی کاتھا۔ویسے توتاریخ میں آپ کے 61القاب مذکورہیں۔لیکن آپ کوزیادہ تر ثانی الزہراورذہانت وفطانت کی بنیاد پرعقیلہ القریش کہاجاتارہاہے۔’

آپ کی شادی عبداﷲ بن جعفرطیارؓ سے ہوئی ۔آپ کے پانچ صاحب زادے تھے جن میں سے عون ومحمد واقعہ کربلامیں شہیدہوئے۔کربلاکے دلخراش سانحہ کے بعد سیدہ زینب ہی تھیں جنھوں نے اس لٹے پٹے خانوادہ رسولﷺ کو سنبھالا۔امام زین العابدین کوابن زیاد کے جبرواستبدادسے زندہ بچالائیں۔ابن زیاداورکوفہ کے بازاروں میں ایسی تقریرفرمائی کے دل کانپ اُٹھے اوراہل ایمان پرلرزہ طاری ہوگیا‘کوفہ کہ تماشائیوں کی نظریں جھک گئیں۔ایسالگتاتھاکہ زینب کے روپ میں امیرالمومنین خطاب فرمارہے ہیں۔

یزید اپنی فتح کے زعم میں منہمک تھاکہ علی کی بیٹی نے للکارکے فرمایا:
’یزید اگرچہ حادثات زمانے نے ہمیں اس موڑ پرلاکھڑا کیاہے اورمجھے قیدی بنایاگیاہے لیکن جان لے میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں‘خداکی قسم خداکے سواکسی سے نہیں ڈرتی‘اس کے سواکسی اورسے گلہ شکوہ بھی نہیں کروں گی۔اے یزید مکروحیلے کے ذریعہ تو ہم لوگوں سے جتنی دشمنی کرسکتاہے کرلے۔لیکن خدا کی قسم توہمارے نام کولوگوں کے دلوں و ذہن اورتاریخ سے نہیں مٹاسکتااورچراغ وحی کونہیں بجھاسکتا۔توہماری حیات اورہمارے افتخارات کونہیں مٹاسکتااوراسی طرح تواپنے دامن پرلگے ننگ وعارکے بدنماداغ کوبھی نہیں دھوسکتا۔خداکی نفرین ولعنت ہوظالموں اورستمگروں پر‘‘۔’’یہ وہ حقیقت آفرین اورآتشیں خطاب ہے جس سے یزید کاتخت کمزورہوا‘نخوت کاکاخ مرمر بنی زادی کے استدلال سے پاش پاش ہوگیااوربالاخربنی امیہ کاسورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔حضرت زینب کبری نے مظلوم انسانیت کوزبان وبیان کی وہ راہ سکھلائی جس کے راستے قوت گویائی سے شمشیرسناں کوہیچ اورحق کی آوازکوبلندکرکے عوام کے دلوں میں گھرکیاجاتاہے۔شیرخداکی بیٹی کے عصمت شعارخطاب کی نظیر تاریخ عالم میں پیش نہیں کی جاسکتی۔اس حقیقت شعارتقریرسے قیامت تک استعمار‘جبر‘نخوت وتکبرکے ایوان اقتدارلرزتے رہیں گے ۔اپنے بھانجوں‘بھتیجوں‘بھائیوں ‘جواں سالہ بیٹوں کی قربانی دینے والی یہ صابرومقدس ہستی ان حملوں سے نہیں مٹائی جاسکتی ۔خداایسے ظالموں کوبربادکرے جوشریعت کالباس چراکراپنے مکروہ ومنافق چہرے پراوڑھے ہوئے ہیں۔یہ مسلمان نہیں طاغوت کے خریدے ہوئے کارندے ہیں‘نہیں معلوم یہ ابن زیاد کے متعقد ہیں یاکفرکی ظلمت میں پلنے والے۔کیسے ممکن ہے کہ جس کہ دل میں نبی پاکﷺکی رائی برابر عظمت بھی ہواوروہ ان کی نواسی‘اصحاب رسولﷺ کے مزاروں کاتقدس پامال کرے ‘یقیناوہ ان مقدس ہستیوں کاگستاخ ہے جن کی محبت میرے پیارے نبی کے دل میں ہے اورخداکے نبی کودکھ دینے والاہرگزہرگزجنتی نہیں ہوسکتا۔

بہرطور یہ جوبھی ہیں انکے منشور وایجنڈے سے مسلمانوں کوخیرکی توقع نہیں کرنی چاہیئے اوراس نازک مرحلے پرآپس میں اتحادقائم رکھناچاہئے ۔آخرمیں ان بدبخت ‘گستاخ آل رسولﷺواصحاب رسولﷺ کیلئے سیدنامولاناالحسین کے خظاب کاایک مبارک جملہ ’’لوگوتم میرے حسب نسب پرغورکرواوردیکھوکہ میں کون ہوں اپنے گریبانوں میں منہ ڈالواوراپنے آپ کوملامت کرو‘‘۔پوری امت کوچاہیئے کہ اس دلخراش سانحہ پر‘پرامن اندازمیں اُٹھ کھڑی ہواور’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘بنے مسلم حکمرانوں کی حمیت کوجگادے۔

sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174676 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.