کچھ مجھ پر بھی لب کشائی کریں

سمجھ نہ آتا آنکھیں پتھرا گئیں ہیں یا دل مردہ ہو گیا ہے، ظلم و بربریت کے کئی پہاڑٹوٹ جانے کے با وجود لب ہیں کہ جنبش ہی نہ کرتے، آنکھیں ہیں کہ اشک بھانے کو تیار نہیں، اسی کشمکش میں اپنے اردگرد نگاہ ڈالی تو معاشی بدحالی، اخلاقی پستی، معاشر ت و تہذیب کے زوال، درندگی کی اعلی سے اعلی مثال ، غرض کے ہر گام انسانیت کی رسوائی اورکئی صدیوں سے اپنے لہو میں گھلنے والازہر یاد آگیا جو دھیرے دھیرے میرے لہو میں شامل ہوتا رہا اور آج بے حسی کے اس عروج پر لے آیا کہ، اپنی خستہ و شکستہ حالی پر مجھے رونا بھی نہ آیا ۔اور یوں ہر ظلم پر میں نے خاموش تماشائی کا کردارنبہایا۔

بذات خود تو نہ چاہتی تھی کہ ظلم و بربریت اور خاموشیوں کی تمہید باندھوں، مگر مرتی کہ کچھ نہ کرتی کہ جب ملی و قومی حالات پر قلم اٹھاتی ہوں، اچھائیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے کمیوں کے وسیع ذخیرے سے تھک کر ادھار مانگنا پڑتا ہے ۔ بہر کیف حالت جیسی بھی ہو امید باقی ہے کہ یہ مشکلات تو کچھ نہیں، ارضِ وطن کی جانب اٹھنے والی ہر میلی آنکھ کا یہ قوم ڈٹ کر مقابلہ کرے گی اور ہمارے جسم میں گردش کرتے اس زہر کا اثر بھی ضرور زائل ہوگا ، انشاء اﷲ ہوگااور حالات بدلیں گے ،اس نام نہاد جمہوری دور میں نہ سہی مگر بدلیں گے کہ امید پہ دنیا قائم ہے اور تبدیلی کی امید مجھ میں بھی قائم ہے۔

تو جناب !اسی امید پر قلم اٹھایا کہ کیا ہوا ،اگر دنیا کہ ڈکٹیٹروں نے کشمیر کو بھارت کے نقشے سے ملادیا ، کیا ہوا کہ اس حق تلفی پر ہم نے، اشرافیہ اور اعلی عیدیداروں، نے اف تک کیا۔ مسلمان بھائیوں کا قتل عا م کیا جارہا ہے ، عورتوں ، بچوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں ، جس سے کشمیریوں میں پاکستان مخالفت بڑھتی جا رہی ہے مگران سب باتوں سے بے پرواہ ہم آج بھی اس ہی رنگیں وآوارہ خیال کے متلاشی ہیں کہ کشمیر ہمارا ہے؟ ہماری آنکھیں یہ کب دیکھیں گی کہ دنیا کے علم بردار کشمیر انڈیا کو ممکنہ طور پر سوپنتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے چند اخباراس غیر ملکی ابجنڈے کی تائید کرتے نظر ہیں اور پاکستا ن کے نقشے سے کشمیر کو جدا دکھاتے ہیں اور یہ سب ان حالات میں کیا جا رہا ہے کہ جب مملکت خداداد ملکی استحکام کی جنگ میں ہے اور انڈیا پنے خواب کو حقیقی جامہ پینانے کے لئے کوشاں ۔ مجھے ڈر ہے کہ کشمیر کی خوبصورتی کو ماند کرتی دہتشگردی ، لاکھوں مسلمان کشمیریوں کا ناحق قتل عام کہیں طوفان کے آنے کی نوید نہ ثابت ہو۔

اور یہاں،اپنی اخلاقی حالت سے بخوبی واقف ہونے کے سبب مجھے اس خیال نے بھی جھنجوڑ دیا کہ کچھ ناقدین یہ کہہ سکتے ہیں کہ محترمہ نے قبل از کردہ مسائل سے واقف ہونے کے باوجود ایک سخت جاں مسئلہ چھیڑ دیا ۔ تو ان دوستو ں کو یہ بتاتی چلوں کہ بہت سوچ بچار کے بعد اس مسئلے کوموضوع بنایا ۔ کیونکہ ہمارے آبی مسائل اور وسائل اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دے رہے کہ ہم اس سخت جاں مسئلے کو نرم دمِ گفتگو بنائیں جبکہ لگتا تو یہ بھی ہے کہ جنوبی ایشائی ممالک بھی اس بات کو حتہ المکاں قبول کر چکے ہیں جیسا کہ حال ہی میں حسینہ معین کے ساتھ ہوئی ملاقات نے واضح کر دیاجو بنگلا دیشی وزیرِ اعظم کم انڈیا کی وکیل زیادہ لگ رہی تھیں۔بہرحال دنیا بھر میں پانی کا مسئلہ بہت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور ایسے میں پاکستان جس کی معیشت کی بنیادہی ذراعت ہے،جو پانی کے بغیر ممکن نہیں اور، از حالات نہ صرف ہمارے پاس آبی ذخائر کی کمی ہے بلکہ عوام میں اس کے درست طریقہ استعمال کی رہنمائی بھی نہیں ہے ، ان حالات میں پاکستان سے کشمیر کا جدا ہونا مطلب کشمیر کے دامن سے پھوٹنے والے دریاؤں سے سیراب ہونے کے تصور سے بھی دور ہو جانا ہے۔

جس کے بعد معاشی بدحالی ہمارے گردن کا طوق بن جائے گی اور ممکن ہے کہ عالمی سطح پر ہمیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے ،اپنی عالمی سکھ اور اقدار تو ہم کھو ہی چکے ہیں اور معاشی ابتر حالی کا شکاار بھی ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں جب ہماری نسلیں سوال کریں گی تو یقینا، سوائے اپنی نا اہلی کے اعتراف کے ہمارے پاس کوئی چارہ نہ ہوگا۔تو بہتر یہی ہے کی دنیا بھر کے مو ضو عات پر لب کشائی کے ساتھ ساتھ اپنی نسلوں کے مستقبل کی جانب کوچ کریں اور اس سخت جاں مسئلے کو بھی موضوع گفتگو بنائیں، سر جوڑ کر بیٹھیں اور حل تلاش کریں۔ تاکہ آنے والی نسلوں کو آج سے بہتر پاکستان دیا جاسکے ۔اوراگر آج سے اس سفر کی طرف کوچ نہ کیا تو ہماری نسلیں ہم سے زیادہ غلام اور ابتر حال ہونگی ، اور ان کے روشن مستقبل کیلئے ہمیں وقت کی للکارکو نہ صرف سننا ہوگا بلکہ سمجھنا ہوگااور عملی طور پر کوششیں کرنی ہونگی۔

RUBY ZAHEER
About the Author: RUBY ZAHEER Read More Articles by RUBY ZAHEER: 2 Articles with 1350 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.