کہتے ہیں چھٹی صدی قبلِ مسیح میں
ایران میں جسے فارس کہا جاتا تھا ‘ایک بادشاہ کی حکمرانی تھی جس کا نام
داریوش تھا۔ داریوش کی حکومت ایک وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی تھی اس لئے
فوجیں ہمیشہ حرکت میں رہتیں تاکہ کسی بھی جگہ کوئی گورنر بغاوت کر کے اپنی
حکومت قائم نہ کر لے۔ ہزاروں سپاہی گھوڑوں پر اور پیدل سفر کرتے اور جہاں
بھوک لگتی وہیں پڑاو ¿ڈال کر اپنا کھانا پکاتے اور کھا لیتے۔ تاریخ کہتی ہے
کہ داریوش کے فوجی اپنی تلوار کی ڈھالوں کو توے کی طرح گرم کر کے ایک ایسی
روٹی پکاتے جو پکانے میں آسان اور کھانے میں مزیدار ہوتی۔ روٹی بیل کر
کھجور کے ٹکڑے چپکاتے اور جب ڈھال پر سینکنے کے لئے ڈالتے تو اس پر پنیر
چھڑک دیتے جو پگھل کر کھجور کو روٹی پر چپکائے رکھتا۔ داریوش کے فوجی یہ
روٹی پیدل چلتے ‘ یا گھوڑے پر سواری کرتے ہوئے آرام سے کھا لیا کرتے تھے۔
داریوش کے فوجیوں کا یہ طریقہ صدیوں کا سفر کرتا رومیوں تک پہنچا اور انہوں
نے تیسری صدی قبلِ مسیح میں گرم پتھروں پر وہ روٹیاں پکائیں جس پر زیتون کا
تیل‘ ہری سبزیاں اور شہد لگا کر پکایا جاتا تھا۔پومپیائی کی کھدائی میں
پہلی صدی قبل مسیح کی ایک کھانا پکانے کی کتاب ملی جس میں ایک ایسی بھری
ہوئی روٹی کا ذکر ہے جس کے بارے میں پڑھ کر وہ نام آپ کے ذہن میں جگ مگ
کرنے لگے گا جو اب تک آپ سمجھ ہی چکے ہیں۔اس کتاب میں لکھا تھا کہ روٹی کو
بیچ سے خالی کر کے اس میں مرغی کے ٹکڑے‘ چاول‘ پنیر‘ لہسن‘ پودینہ‘ کالی
مرچ اور تیل ڈال کر تندور میں پکایا جاتا تھا اور یہ سارے اجزاءآج کے پیزا
ہی کے تو ہیں۔پیزا کا لفظ قدیم اطالوی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ”point
“یعنی وہ نقطہ جو مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔پیزا کا مرکزی نقطہ کیا ہو سکتا ہے
پنیر‘ روٹی یا پھر دونوں کا ذائقہ روم اور یونان سے گھومتا پیزا نیپلز
پہنچا جو ایک یونانی کالونی تھی اور اس وقت دنیا کے قدیم شہروں میں سے ایک
ہے یہاں پر یہ پیزا بنتا او دوکانوںپر فروخت ہوتا۔1889 ءکا زمانہ تھا جب
اٹلی کے بادشاہ کو اپنی ملکہ مارگریٹ کو سیر کرانے کا شوق ہوا اور وہ انہیں
لے کر نیپلز جا پہنچے ۔ یہاں پہنچ کر انہوں نے نیپلز کے سب سے بہترین پیزا
شیف کو بلایا اور ملکہ کے لئے پیزا بنانے کی فرمائش کی۔ پیزا شیف نے 3طرح
کے پیزا بنائے جن میں پنیر اور ٹماٹر کے علاوہ الگ الگ چیزیں ڈالی گئیں
تھیں اور یہ تینوں ہی پیزا ملکہ کو بہت پسند آئے۔ اس زمانے میں نیپلز میں
پیزا ایک بڑی سی ٹرے میں تندور میں پکایا جاتا اور پھر اس کے ٹکڑے کاٹ کر
ناشتے‘ دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کے لئے بیچے جاتے تھے۔
19 ویں صدی میں امریکہ میں پیزا ‘ایک چھابڑی والے نے متعارف کرایا جو اپنے
سر پر ایک ٹب میں انگارے بھرے پائپ کے چاروں طرف پیزا رکھ کر سڑک پر پھیری
لگاتا اور 2 سینٹ کی آوازیں لگا کر پیز ا بیچا کرتا جس طرح کہ نیپلز میں
رواج تھا۔
پھر ہوا یوں کہ 1945 ءمیں دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی فوجیوں کو اٹلی
میں رہنا پڑا اور پہلے پہل تو مجبوراًمگر بعد میں شوق سے وہ سب پیزا کھانے
لگے۔جب یہ فوجی امریکہ واپس آئے تو اپنے ساتھ پیزا کا ذائقہ اور پکانے کا
طریقہ بھی لے آئے اور ایک بار پھر فوجیوں کا کھانا عام لوگوں میں مقبول
ہونے لگا۔
دسمبر2009 ءمیں یورپی یونین نے ایک قانون پاس کیا کہ نیپلز میں موجود قدیم
پیزا شاپس اور ان کے پکانے کے طریقے اور ترکیب کو محفوظ کیا جائے( جس میں
سین مرزانو ٹماٹر اور بھینس کے دودھ سے بنا تازہ موزریلا پنیر استعمال ہوتا
تھا )کیونکہ وہ ہمارا ورثہ ہیں ‘ ہمارے کھانے کی تاریخ کا حصہ ہیں۔اس قانون
سے اور کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ان قدیم پیزیریاز کو قیمت بڑھانے کا موقع
مل گیا۔
آج دنیا بھر میں طرح طرح کے پیزا بنائے اور کھائے جاتے ہیں‘ ہر ٹی وی چینل
پیزا بنانا سیکھاتا ہے‘ پکے پکائے پیزا سپر اسٹورز کا حصہ بن چکے ہیں اور
آج پیزا کا لفظ سنتے ہی ہر عمر کے چہروں پر ایک مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ایک
چٹ پٹی چٹخارے دار مسکراہٹ!!!! |