عالمی ادارہ صحت کا مشورہ یہ ہے کہ بچے کی غذا میں چینی
کا حصہ10فیصد سے کم ہونا چاہئے یعنی اگر اسے دن بھر میں 100گرام غذا دی
جارہی ہے تو اس میں 10گرام سے زیادہ چینی نہ ہو لیکن اگر ہم بازار میں
دستیاب بچوں کی من بھاتی غذائی اشیاءاور مشروبات پر نظر ڈالیں تو اندازہ
ہوگا کہ ان میں مقررہ مقدار سے کہیں زیادہ چینی ہوتی ہے۔ یہ بات ماہرین کے
لئے باعث تشویش ہے ۔آپ خود اندازہ لگائیے کہ صبح کے ناشتے میں میٹھے میٹھے
دلیوں سے لے کر رات کے کھانے میں کیک اور میٹھی دہی تک یہ اشیاءکتنی چینی
بچے کے جسم میں پہنچادیتی ہیں اور پھر مشروبات اس کے علاوہ ہیں۔
حال ہی میں2 برطانوی ماہرین غذا نے خبردار کیا ہے کہ آج کے بچے چینی بہت
زیادہ کھارہے ہیں اور اس کی زیادتی کا ان کے وزن اور رویئے مےںپر شدیدمنفی
اثر پڑسکتا ہے۔ ایک ماہر نے اپنی کتاب میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ چینی کا
بچے کا طرز عمل پر نمایاں اثر پڑتا ہے ۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ ہر عمراور ہر
طبقے کے بچے آج کل چینی بہت زیادہ کھارہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے کلینک میں
بچوں کے مشاہدے کی بنیاد پر یہ بات کہی ہے کہ ان کے پاس اکثر ایسے بچے آتے
ہیں جن میں غصہ زیادہ تھا اور انہیں موڈ خراب رہنے کی شکایت تھی۔ اس کے
علاوہ وہ پڑھائی یا دوسری باتوں پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتے تھے۔ لیکن جب ان
کے والدین اور گھر والوں نے ان کی غذا پر توجہ دیتے ہوئے ان کی غذا میں
چینی کی مقدار میں مناسب کمی کی تو بچوں کے رویئے میں بہتری آگئی بلکہ یوں
کہنا چاہئے کہ یہ تاثر بالکل بدل گیا ۔ ان ماہر کے خیال میں عام طور پر
والدین کو اس بات کا حساس ہی نہیں ہوتا کہ چینی کی زیادتی بچوں کی خوش گوار
زندگی کو کتنا متاثر کرتی ہے۔
ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہمارے بچے کتنی چینی کھارہے ہیں۔ بازار میں ملنے
والی اکثر غذائی ذائقے میں جو کمی ہوتی ہے اسے دور کرنے کے لئے چینی کی
مقدار معمول سے بہت بڑھادی جاتی ہے ۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بچے کے لئے
مفید ہے لیکن ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ اس میں چینی کتنی زیادہ ہے۔پھلوں سے
تیار شدہ گاڑھے مشروب کے معاملے میں بھی محتاط رہنا چاہئے خواہ ان میں
علیحدہ سے چینی نہ بھی ملائی گئی ہو ‘وجہ یہ ہے کہ کئی پھلوں سے تیار شدہ
ایسے رس میں خود پھلوں کی چینی کی مقدار بہت ہوجاتی ہے اور اسے بچہ ایک دم
پئے تو اس کا بھی اس کے جسمانی نظام پر اچھا اثر نہیں ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ
اگر بچے کو یہ گاڑھا جوس پلائیں تو اس میں تھوڑا سا پانی ملالیں تاہم اس
ماہر کی رائے یہ ہے کہ ایسا مشروب بہرطور گیس آمیز مشروب سے بہتر ہے۔
ماہرین کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچوں کو چینی سے بالکل ہی محروم کردیا جائے۔
ظاہر ہے کہ غذا میں سے مٹھاس کا عنصر بالکل نکال لیا جائے تو بچہ کھانے کو
ہاتھ ہی نہ لگائے گا۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ بچوں کو مٹھاس کی فراہمی کے
لئے چینی کے متبادل ذرائع پر بھی توجہ دی جائے مثلاً خشک ناریل‘ خشک پھل‘
کچلا ہوا کیلا اور شہد جو ہر جگہ دستیاب ہوتے ہیں۔ بچوں کی چینی ایک دم بند
کی جائے گی تو وہ چھپ کر کھائیں گے لہٰذا مناسب یہ ہوگا کہ رفتہ رفتہ چینی
کی مقدار کم کرتے ہوئے اُن کی عادت چھڑائی جائے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ
اگر آپ بچے کو زیادہ چینی کھانے سے باز رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو ایک ماہ
میں ان کے رویئے میں خود بخود فرق محسوس کریں گے۔ |