سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ میں
مجھے عمران خاں ، شیخ رشید اور الطاف حسین ہی پسند ہیں باقی سب تو بس
’’ایویں ‘‘گزارا ہی ہیں۔اِنہیں پسندکرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اِن کے
خطاب سُن کر خون میں اتنا اُبال آتا ہے کہ گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے کو
جی چاہنے لگتا ہے۔ دوسرے اِنہوں نے ہم جیسوں کے اندرمیں بھی سیاسی جرثومے
پیدا کر دیئے ہیں۔یہ جرثومے بھٹو مرحوم نے بھی جیالوں کے اندرپیدا کیے تھے
لیکن اب یہ بوڑھے ہو چکے ہیں اور نئے جرثوموں کے بارے میں ابھی تحقیق ہو
رہی ہے کہ یہ ’’بھٹوز‘‘ کے پیدا کردہ ہیں یا ’’زرداریز‘‘ کے؟۔ اپنے آئیڈیلز
کو دیکھ سُن کر ایک دفعہ تو میرا بھی جی چاہا کہ سیاسی پارٹی بنا لوں لیکن
جب میرے میاں کو میری اِس’’ عظیم سوچ‘‘ کا پتہ چلا تو اُنہوں نے کہا ’’
تمہارے تو کالم بھی بعض اوقات تمہارے اخبار والے ڈکار جاتے ہیں اورتم چلی
ہو سیاسی پارٹی بنانے‘‘ ۔میاں کی جلی کَٹی سُن کر مجھے غصّہ تو بہت آیا
لیکن پھر یہ سوچ کرخون کے گھونٹ پی لیے کہ ماہِ رمضان میں صبر کی تلقین کی
گئی ہے۔بہرحال مجھے اب بھی یقین ہے کہ میں کم از کم ’’عوامی لیگ‘‘ جتنی بڑی
’’نسوانی لیگ‘‘ تو بنا ہی سکتی ہوں۔اِسی لیے میں نے سیاسی پارٹی کی تشکیل
کا خواب دیکھنا نہیں چھوڑا ۔ویسے خواب دیکھنے میں ہرج ہی کیا ہے۔
آمدم بَر سرِ مطلب ، میں عرض کر رہی تھی کہ مجھے فقط تین سیاستدان ہی پسند
ہیں ۔ویسے تو ذوالفقار مرزا اور مشاہد اﷲ خاں بھی میرے پسندیدہ ہیں لیکن
مرزا صاحب تو ویسے ہی سیاست سے دُم دبا کر بھاگ گئے اورمشاہد اﷲ خاں ابھی
کچے ہیں۔ وہ ٹاک شوز میں شیخ رشید بننے کی کوشش تو بہت کرتے ہیں لیکن
’’کہاں گنگو تیلی ، کہاں راجہ بھوج‘‘۔شیخ صاحب تو براہِ راست میاں برادران
سے ’’متھا‘‘ لگا کر بیٹھے ہیں۔ چند دِن پہلے ہی شیخ صاحب نے اپنی زبان کا
’’گنڈاسا‘‘ چلاتے ہوئے نواز لیگ کو کہا کہ وہ سیدھی ہو جائے ورنہ وہ لال
حویلی اُٹھا کر پارلیمنٹ میں لے آئیں گے ۔تب سے اب تک میں یہی سوچ رہی ہوں
کہ شیخ رشید صاحب اپنی ’’لال حویلی‘‘ رکھیں گے کہاں؟َاگر پارلیمنٹ کی چھت
پر رکھ دی تو یقیناََ چھت بیٹھ جائے گی اور اگر پارلیمنٹ کے پہلو میں سجا
دی تو ’’ریڈ زون‘‘ کا کِرچی کِرچی ہونا اظہر من الشمس ہے کیونکہ شیخ صاحب
کی ’’عوامی لیگ‘‘ کے عوامی کارکُن وہاں ہمہ وقت دھما چوکڑی مچایا کریں گے ۔
لال حویلی کے پارلیمنٹ کے پہلو میں آنے سے پارلیمنٹیرینز کو اتنا فائدہ
ضرور ہو جائے گا کہ اُنہیں دہی بھلے ، فروٹ چاٹ اور سموسے پکوڑے وغیرہ
پارلیمنٹ کے پہلو ہی سے مل جایا کریں گے البتہ ’’ سَتّو‘‘ نہیں ملیں گے
کیونکہ اِس کا سٹاک اُنہوں نے اپنے بُرے وقتوں کے لیے سنبھال رکھا ہے۔شاید
اُن کا خیال ہوکہ اگر (خُدانخواستہ) اُنہیں کبھی میاں نواز شریف صاحب کے
پاس جانا پڑ جائے تو وہ پہلے ’’سَتّو‘‘ پی کر ٹھنڈے ٹھار ہو جائیں اور پھر
’’نیویں نیویں‘‘ ہو کر میاں صاحب کے دربار میں حاضر ی دے آئیں۔
عقیل و فہیم اور با صلاحیت شیخ صاحب سے کچھ عرصہ پہلے تک محترم عمران خاں
سخت ’’اوازار‘‘تھے اور قسمیں اٹھایا کرتے تھے کہ اُنہیں تا دمِ مرگ شیخ
رشید صاحب کی ’’سنگت ‘‘ قبول نہیں لیکن جب اُنہیں شیخ صاحب میں اپنا ہی عکس
نظر آیا تو اُنہوں نے ساری قسمیں بھول کر شیخ صاحب کو اپنے دل کے قریب کر
لیا۔ دوسری طرف شیخ صاحب بھی ٹاک شوز میں کپتان صاحب کا مذا ق اڑاتے ہوئے
کہا کرتے تھے کہ خاں صاحب کے پاس تو ’’تانگے کی سواریاں‘‘ بھی نہیں لیکن
پھر سب کچھ ہَوا میں اُڑا کر وہ خاں صاحب کے تانگے میں سوار بھی ہو گئے
کیونکہ اُنہیں ملک و قوم کی بہتری مقصود تھی۔کچھ بد باطن خاں صاحب کو ضدّی
اور ہٹ دھرم کہتے ہیں ۔اگر وہ واقعی ایسے ہوتے تو کبھی بھی شیخ صاحب کو گلے
نہ لگاتے۔وہ ضدّی اور ہٹ دھرم نہیں بلکہ بات کے سچّے اور قول کے پکّے
ہیں۔البتہ کبھی کبھی وہ ملک و قوم کی خاطر عہد شکنی کر جاتے ہیں۔
ہم جہاں برطانیہ اور امریکہ کے انتہائی ممنون ہیں جنہوں نے اپنے حسنِ کرشمہ
ساز کی بدولت ملالہ یو سف زئی کو بین الاقوامی شخصیت بنا دیا لیکن مغموم
بھی ہیں کہ حکومتِ برطانیہ نے اپنے مخلص شہری اور ہمارے محبوب قائد جناب
الطاف حسین کے ساتھ ’’ہتھ‘‘کر دیا ۔ہم تو سمجھتے تھے کہ الطاف بھائی کو امن
کا نوبل انعام ملنے والا ہے لیکن اُنہیں قتل اور مَنی لانڈرنگ جیسے گھناؤنے
جرائم میں ملوث کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔تسلیم کہ ملالہ نا تراشیدہ ہیرا
ہے جسے برطانیہ میں تراش خراش کرکے ہشت پہلو بنایا جا رہا ہے ۔ویسے تو تراش
خراش کے لیے ہمارے پاس ایسی ڈھیروں ڈھیر ’’ملالائیں‘‘ ہیں لیکن انگریز کہتے
ہیں کہ اگر وہ ساری ملالاؤں کو لے گئے اور اُن کے والدین کو ضیاء الدین
یوسف زئی کی سی سہولتیں دینے لگے تو کچھ عرصہ بعد وہ خود پاکستان کے
چوراہوں پر بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ ویسے بھی جب حصولِ مقصدکے لیے ایک
ملالہ ہی کافی ہے تو پھر دوسری ملالاؤں پر ڈالر ، پونڈ یا یورو صرف کرنے کی
بجائے اُنہیں ڈرون حملوں کے ذریعے رزقِ خاک بنا دینے میں ہی مصلحت ہے۔
ملالہ تو بچی ہے جسے ’’مدر ٹریسا‘‘ بننے میں ابھی وقت لگے گا لیکن جس
مرنجاں مرنج شخصیت کی صلاحیتوں سے حکومتِ برطانیہ فائدہ اٹھا سکتی تھی ،
اُسے کیوں ناراض کر دیا؟۔ سبھی جانتے ہیں کہ الطاف بھائی سے زیادہ نرم مزاج
اور باغ و بہار شخصیت کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔وہ تواپنے ایک ہی خطاب میں
تلاوت بھی کرتے ہیں ، نعتیں بھی سُناتے ہیں ، اور لہک لہک کر گانے بھی گاتے
ہیں۔’’اوئے جاگیر دارا ! ‘‘جیسی بڑھکیں تو وہ سامعین کو ’’فریش‘‘ رکھنے کے
لیے لگاتے رہتے ہیں۔لیکن اُن کی بڑھکوں کا غلط مطلب نکالتے ہوئے کپتان صاحب
نے اُن پر زہرہ شاہد کے قتل کا الزام لگا دیا۔ہم تو ہمیشہ کپتان صاحب کو
غائبانہ کہتے رہتے ہیں کہ ’’پہلے تولو ، پھر بولو‘‘ لیکن وہ صرف بولتے ہیں
، تولتے نہیں۔اب ایم کیو ایم نے اُن پر پانچ ارب روپے کا ہتکِ عزت کا دعویٰ
دائرکر دیا ہے۔شنید ہے کہ تحریکِ انصاف بھی ایم کیو ایم پر دس ارب کا دعویٰ
کرنے جا رہی ہے لیکن جانتے دونوں ہی ہیں کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں آج
تک ایسے کسی دعوے کا کبھی فیصلہ نہیں ہوا۔ایم کیو ایم کو چاہیے تھا کہ وہ
بی بی سی کے خلاف دعویٰ دائر کرتی جس نے مَنی لانڈرنگ اور ڈاکٹر عمران خاں
کے قتل کا شوشہ چھوڑا ہے۔ برطانوی عدالتیں تو ایسے دعوؤں کا ’’فٹا فٹ‘‘
فیصلہ کر دیتی ہیں۔ کتنا مزہ آتا جب ایم کیو ایم کو بیٹھے بٹھائے پانچ ارب
پاؤنڈمِل جاتے لیکن اکابرینِ ایم کیو ایم نے سوچا ہو گا کہ اگر انگریزوں نے
کوئی چکر چلا کر اُنہیں ہی جھوٹا ثابت کر دیا تو پھر؟۔ شاید اسی لیے الطاف
بھائی نے بی بی سی پر دعویٰ کرنے کی بجائے برطانوی حکومت کو متنبہ کرتے
ہوئے فرمایاہے کہ یا تو وہ اپنی ’’شرارتوں ‘‘سے باز آ جائے یا پھر خطرناک
نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائے ۔فی الحال تو برطانوی حکومت نے اپنی بے
بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ پولیس اور تفتیشی اداروں پر اُس کا
کوئی کنٹرول نہیں لیکن شنید ہے کہ ’’اندرو اندری ‘‘ وہ پریشان اور خوف زدہ
بہت ہے اور چپکے چُپکے کسی ایسی آئینی ترمیم کے چکر میں ہے جس کی بدولت
تفتیشی ادارے اور پولیس اُس کے کنٹرول میں آ جائیں اور وہ الطاف بھائی کے
سامنے سُرخرو ہو سکیں۔ |