میڈیا: بڑھتی ہوئی فحاشی

ہمارے میڈیا پر فحاشی اور عریانی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔اگر چہ کئی درد مند لوگ اس حوالے سے مراسلات، کالمز اور مضامین لکھتے رہتے ہیں لیکن متعلقہ اداروں اور وزرات اطلاعات و نشریات پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ باقاعدہ منصوبے کے تحت معاشرے میں یہ ثقافتی اور میڈیائی دہشت گردی پھیلائی جارہی ہے تاکہ لوگ اس میں مگن رہیں اور مسائل کی طرف ان کی توجہ کم رہے۔ پہلے تو ہمارے نجی چینلز بھارتی چینلز کی صرف نقالی کرتے تھے لیکن اب بھارتی چینلز کے پروگرام باقاعدہ دکھائے جارہے ہیں،اور کوئی یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ ایسا کیوں کیا جارہا۔

ایک طرف جہاں یہ بھارتی فحش چینلز ہیں وہیں اشتہارات بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ اگر کوئی فرد یہ چاہے کہ وہ ان عریاں چینلز سے بچتے ہوئے اپنی فیملی کے ساتھ کوئی اسپورٹس یا نیوز چینل ہی دیکھ لے تو اس کام سے روکنے کے لیے اشتہارات ہی کافی ہیں۔ ہم پہلے بھی اپنے ایک مضمون میں ان اشتہارات کے حوالے سے بات کرچکے ہیں لیکن معاملہ مزید بڑھتا جارہا ہے اور جس طرح بھارتی چینلز کے پورے پورے پروگرام دکھائے جارہے ہیں اسی طرح اب اشتہاری کمپنیوں نے بھی یہ کام شروع کردیا ہےکہ یہاں کوئی اشتہار تیار کرنے کے بجائے باہر کے بنے بنائے اشتہار یہاں چلائے جاتے ہیں اس حوالے سے میں ایک اشتہار کی مثال دونگا، ایک آئسکریم کا اشتہار آج کل ہمارے ٹی وی چینلز پر چلایا جارہا ہے وہ کسی بھی طرح ہمارے معاشرے اور ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتا ہے،اس اشتہار میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ ایک نوجوان راستے میں ایک جیپ جس میں دو نوجوان لڑکے اور ایک لڑکی موجود ہیں ان سے لفٹ مانگتا ہے لیکن وہ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے گزر جاتے ہیں، آگے جاکر وہ ایک بار یا شاپ پر رکتے ہیں تو مذکورہ نوجوان بھی وہاں پہنچ کر اشتہار میں دکھائی گئی آئسکریم کھاتا ہے اور انعام میں ایک ہیوی بائیک جیت کر باہر نکلتا ہے تو جیپ میں موجود لڑکی اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر اس نوجوان کے ساتھ بائیک پر بیٹھ کر چلی جاتی ہےاور جیپ والے دونوں نوجوان ہاتھ ملتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔اس اشتہار کا تجزیہ کیا جائے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ آئسکریم کا اشتہار ہے، ہیوی بائیک کا اشتہار ہے یا مغربی ابلیسی تہذیب کا اشتہار ہے۔ جہاں اسی طرح لڑکے اور لڑکیاں آپس میں ناجائز دوستاناں رکھتے ہیں اور جب چاہے اپنے بوائے فرینڈ تبدیل کرتے ہیں۔یہ اشتہار نوجوانوں کے جذبات کو بھڑکا کر انہیں گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔

اسی طرح ایک اور بے ہودہ اشتہار ایک موبائل کمپنی کا ہے جس میں ایک ڈیڑہ منٹ تک ایک لڑکی کو جھومتے، گاتے، ناچتے، مدہوش ہوتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور آخر کے چند سیکنڈ میں ایک معروف کمپنی کا موبائل بھی دکھا دیا جاتا ہے تاکہ فارمیلیٹی پوری ہوسکے کہ یہ موبائل کا اشتہار ہے کسی لڑکی کا نہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ایک موبائل سے لڑکی کے ڈانس کا کیا تعلق ہے؟

آخر میں ہم بات کریں گے کہ ایک معروف مشروب کی! اس کا اشتہار بھی آج کل کافی زو و شور سے دکھایا جارہا ہے ( بررررر والا ) اس اشتہار میں یہ سبق دیا جارہا ہے کہ اب اس برانڈ کے مشروب کے لیے نام لینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ فحش انداز میں سینے کو تھرکایا جائے تو آپ کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ اس اشتہار میں مزید کیا کہا جائے کہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ اس فحاشی کے سیلاب سے بچنا چاہیں تو وہ چاہنے کے باوجود نہیں بچ سکتے ہیں کہ اب اشتہارات ہی فحاشی پھیلا رہے ہیں۔ اگر لوگ اپنے گھروں سے ڈش اور کیبل نکال دیں تو یہ بھی مسئلے کا حل نہیں ہے کیوں کہ اب تو پی ٹی وی بھی اس دوڑ میں آگے آگے ہے اور مذکورہ اشتہارات تو پی ٹی وی پر بھی چلائے جارہے ہیں۔ اس لیے ہماری ارباب اختیار سے یہی اپیل ہے کہ اس جانب توجہ دی جائے اور سرکاری و نجی ٹی وی چینلز کو پابند کیا جائے کہ وہ ہمارے معاشرے اور ثقافت اور ہماری اقدار کے مطابق پروگرامات اور اشتہارات بنائیں۔اور بھارتی اور مغربی ابلیسی تہذیب کے پرچار سے گریز کیا جائے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520367 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More