ایرانی انتخابات میں ایرانی صدر محمود
احمدی نژاد کی کامیابی اور سرکاری ٹی وی پر سپریم لیڈر خامنہ ای کی جانب سے
محمود احمدی نژاد کو مبارکباد اور ان کی مکمل حمایت کا اعلان کے ساتھ ہی
امریکہ اور یورپی ملکوں کی اس امید کا خاتمہ ہوگیا کہ ایران میں کوئی
تبدیلی آئے گی۔ سپریم لیڈر خامنہ ای نے محمود احمدی نژاد کی حمایت کر تے
ہوئے دیگر صدارتی امیدواروں کو نومنتخب صدر کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے
جبکہ میر حسین موسوی کے حامیوں کا احتجاج جاری ہے۔ اصلاح پسند گروپ کے 100
رہنماﺅں کو گرفتار کر لیا گیا ہے احتجاجی مظاہروں میں اب تک ایک ہلاکت کی
اطلاع ملی ہے۔ موسوی کے حامیوں نے الزام لگایا ہے کہ انتخابی نتائج میں بڑے
پیمانے پر بے قاعدگیاں ہوئی ہیں۔ جبکہ ایران کے نو منتخب صدر محمود احمدی
نژاد نے مغربی میڈیا پر ایرانی انتخابات کی گمراہ کن کوریج کا الزام عائد
کردیا۔ انہوں نے ایرانی انتخابات کو عظیم فتح قرار دیا ہے۔ امریکا جسے سب
سے زیادہ ایران میں تبدیلی کی فکر تھی اس نے ایرانی صدارتی انتخابات کے
نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم انتخابات میں دھاندلی
کے الزامات کا جائزہ لے رہے ہیں جبکہ یورپی یونین نے ایران کے صدارتی
انتخابات کو متنازع قرار دیے جانے اور اس کے بعد ہونے والے پرتشدد واقعات
پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کے دسویں صدارتی انتخابات میں عوام کی
شرکت کا جوش و خروش اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ اس انتخابات میں خاص کر
آزاد سوچ رکھنے والا شہروں میں متوسط طبقہ اور خوشحال لوگ، ایک بڑی تبدیلی
کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ تاہم کم آمدن والے طبقے اور دیہاتی علاقوں میں
موجودہ حکومت کے حامی احمدی نژاد کی حکومت برقرار رکھنے کے حامی تھے۔۔
ایرانی وزیر داخلہ صادق محصولی نے صدر احمدی نژاد کی فتح کا باضابطہ اعلان
کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات میں احمدی نژاد نے باسٹھ اعشاریہ چھ فیصد اور
میر حسین موسوی نے تینتیس اعشاریہ سات فیصد ووٹ حاصل کئے۔ صادق محصولی کا
کہنا ہے کہ کل تین کروڑ اکیانوے لاکھ ووٹ ڈالے گئے۔ صدر احمدی نژاد نے دو
کروڑ پینتالیس لاکھ اور میر حسین موسوی نے ایک کروڑ بتیس لاکھ ووٹ حاصل کئے۔
محسن رضاعی چھ لاکھ تینتیس ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسرے اور مہدی کروبی تین
لاکھ اکیس ہزار ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہے۔ ووٹنگ کی شرح پچاسی فیصد رہی۔۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے ایرانی صدارتی انتخابات میں صدر احمدی
نژاد کی دوبارہ کامیابی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ایرانی
انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور اس کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لے
رہا ہے اور انتظار کر رہے ہیں کہ ایرانی عوام کیا فیصلہ دیتے ہیں۔ ادھر
برسلز میں یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر سے جاری ایک بیان میں بھی ایران میں
صدارتی انتخابات کے بعد ہونے والے پرتشدد واقعات پر افسوس کا اظہار کیا گیا
۔ یورپیئن پریذیڈنسی نے توقع ظاہر کی ہے کہ نئی ایرانی حکومت عالمی برادری
کے سامنے ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گی اور ایٹمی تنازع پر مذاکرات کا دوبارہ
آغاز کرتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح کرے گی۔ ان حالات میں ایران کے لیے بڑا
چیلینج انتخابات کے بعد حالات اور ماحول میں ٹھراؤ پیدا کرنا ہوگا جس کے
لیے ابھی سے ایران کے مذہبی اور انقلاب کے حامیوں نے اعلیٰ اخلاقی اقدار
اور جمہوریت میں عدم تشدد کی اہمیت کے بارے میں بیانات دینے شروع کردیے ہیں۔
چند اخبارات میں اور حکومت مخالف حلقوں میں دھاندلی کے بارے میں تشویش یا
افواہیں کی خبریں بھی ہیں۔ لیکن انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار ادارے اور
وزارت داخلہ دھاندلی کے ان خدشات یا شک کو دور کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
اس وقت مختلف اندازوں رائے عامہ کے جائزوں سے جو بات واضح ہے وہ یہ کہ
موجودہ صدر محمود احمدی نژاد کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے تاہم ان
کے سب سے بڑے حریف، میر حسین موسوی، کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔
تہران کے بازاروں اور گاڑیوں میں ان کی انتخابی علامت، سبز رنگ بہت واضح
نظر آتا تھا۔ شاید یہ ہی وجہ تھی کہ مغربی طاقتیں یہ امید کر رہی تھی کہ
صدارتی انتخاب کے نا پسندیدہ نتائج نکلے گا تو ایران سیاسی عدم استحکام کا
شکار ہوجائے۔ انتخابی مہم کے دوران مغربی اخبارات میں تاثر یہ پیدا ہوا کہ
اگر میر حسین موسوی انتخاب جیت گئے تو شاید یہ ایران کے قدامت پسندوں کی
شکست ہوگی اور شاید اس طرح ایران بین الاقوامی معاملات، خاص کر جوہری
پروگرام کے بارے میں کوئی نرم رویہ اختیار کر لے گا۔ لیکن شاید انہیں اس
حقیقت کا ادراک نہیں ہوسکا کہ ایران اپنی پالیسیوں میں تسلسل رکھتا ہے اور،
ایران کے جوہری پروگرام یا مشرق وسطیٰ کے بارے میں اس کی پالیسیوں میں
تبدیلی کے بہت کم امکانات ہیں۔
میر حسین موسوی، کو ان کا حامی میڈیا ریفارمسٹ یعنی اصلاح پسند قرار دیتا
رہا ہے۔ ان کے حامیوں نے گزشتہ برس کے پارلیمانی انتخابات میں اصلاح پسندوں
کو بری طرح شکست دی تھی دراصل جن لوگوں کو اصلاح پسند کہا جا رہا تھا۔ وہ
دراصل احمدی نژاد مخالف اتحاد تھا۔ میر حسین موسوی کے حامیوں میں سب سے بڑی
شخصیت، سابق صدر محمد خاتمی ہیں جو اصلاح پسند ہیں، آیت اللہ ہاشمی
رفسنجانی یا سابق سپیکر حجت الاسلام ناطق نوری بھی اصلاح پسندوں کے کیمپ
میں تھے۔ اس کے علاوہ جمعیت مبارزان روحانیان (مجاہد علما کی جماعت)، اصول
گرایان اسلامی ( اصولیت پسند جماعت)، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، حزب
مشارکت اسلامیت وغیرہ بھی اصلاح پسندوں کے اتحاد میں شامل تھیں۔ ان میں
اسلامی لیبر جماعت بھی تھی۔ جو اصلاح پسندوں میں سیکیولر یا جدید نظریات کی
طرف جھکاؤ رکھنے والے دانشور اور شہری آزادیوں کے حامی جماعت سمجھی جاتی
تھی۔ انقلاب مخالف ایرانی جو مغربی ممالک میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں وہ
اصلاح پسندوں کے ساتھ بے حد امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ انتخابات میں محمود
احمدی نژاد پر سب سے بڑا الزام ان کے مخالفین کی جانب سے یہ لگایا گیا کہ
انہوں نے تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی دولت کو اپنی سیاسی مقبولیت کے
لیے عوام میں لٹا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صنعتی مزدوروں کی کئی یونینیں،
مزدور تنظیمیں، سکولوں کے اساتذہ کی یونینیں، نچلے طبقوں کی کئی تنظیمیں،
کسانوں کی کئی تنظیمیں اسلامی انقلاب سے کمٹمنٹ رکھنے والے محمود احمدی
نژاد کے حامی تھے۔الیکشن میں سابق وزیر اعظم حسین موسوی صدر احمدی نژاد کے
اصل حریف کے طور پر ابھرے۔ ایران کے دسویں صدارتی انتخابات میں سب سے بڑا
موضوع عوام کی اقتصادی حالت تھی۔ تاہم جوہری پروگرام اور مغرب بالخصوص
امریکہ، سے تعلقات پر بھی بحث ہوتی رہی۔ ایران کے صدارتی اتخابات میں جو
اہم نعرے مختلف امیدواروں کی مہموں کا حصہ بنے۔ ان میں ’قانون کی حکمرانی‘،
’عدل اور آزادی والا ترقی پسند ایران‘، ’اقتصادی انقلاب‘ اور ’سیاسی
اصلاحات‘ شامل تھے۔ ایران کے دسویں صدارتی انتخابات ایرانی عوام اسلامی
انقلاب کی تیسویں سالگرہ کے دنوں میں ہوئے۔ اس انقلاب سے متعلق بنیادی
سوالات بھی اٹھائے گئے۔ انقلاب کے مخالفین ایران کی ناکام اقتصادی پالیسیوں
کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی افادیت کو چیلنج کرتے رہے۔ جبکہ انقلاب کے حامی
اقتصادی پالیسوں کی ناکامی کی ذمہ داری ’انقلاب کے بنیادی اصولوں سے انحراف‘
کو قرار دیتے رہے۔ ایرانی انتخابات کا اہم موضوع مہنگائی، بے روزگاری اور
نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی تھا۔ میر حسین موسوی نے جو ایران کے انقلاب
کے بعد 1981 سے لیکر 1989 ایران کے وزیراعظم رہے ہیں۔ ایرانی معیشت کی زبوں
حالی کو اپنی انتخابی مہم کو بنیادی نقطہ بنا کر احمدی نژاد کی پالیسیوں کو
سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ایرانی انتخابات کئی لحاظ سے ایران کی سیاسی
تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انتخابات میں پہلی مرتبہ امیدواروں کے
درمیان ٹیلی ویژن پر مباحثے ہوئے۔ ایران میں اب تک امیدوار کی ذمہ داری
ہوتی تھی کہ وہ اپنے مد مقابل کے خلاف الزام تراشی سے باز رہے جس کے نتیجے
میں وہ مجبور ہوتا تھا کہ صرف اپنی کارگزاری یا اپنا پروگرام ہی پیش کرے۔
مگر اس مرتبہ انتخابات میں مغرب جمہوریتوں کی طرح ایران میں امیدوار ایک
دوسرے کے خلاف سخت الزامات اور سخت زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔ مثلاً احمدی
نژاد نے میر حسین موسوی سے مباحثے کے دوران موسوی کے حامی سابق صدر محمد
خاتمی اور سابق صدر ہاشمی رفسنجانی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے
سولہ سالہ دور میں ایرانی عوام کی حالت تو نہ سدھری تاہم ان سابق صدور کی
اولادیں ارب پتی بن گئیں۔ اس کے جواب میں احمدی نژاد پر یہ الزام لگتا رہا
ہے کہ ان کی بدانتظامی کی وجہ سے ایران نے تیل کی بہت زیادہ قیمتوں سے جو
منافع حاصل کیا تھا وہ سارے کا سارا ضائع ہوگیا۔ ایران کی آبادی کا ستر
فیصد حصہ تیس برس کی عمر سے کم کا ہے اور چھبیس فیصد حصہ پندرہ برس کی عمر
سے کم کا ہے۔ یہ انقلاب کے بعد پیدا ہونے والی نسل ہے اور انہوں نے ایران
کو بھی کامیاب ریاست کے طور پر نہیں دیکھا ہے۔ حکومت کے اعداد و شمار کے
مطابق نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ منشیات کا شکار ہے اور اس مسئلے پر اپنی
انتخابی مہم میں میر حسین موسوی حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ نئے دور
حکومت میں ایٹمی پالیسی پرانی رہےگی، محموداحمدی نژاد ایرانی صدر محمود
احمدی نژاد نے انتخابات میں اپنی فتح کو جائز قرار دیا ہے ۔ ایک پریس
کانفرنس کے دوران انتخابی نتائج پر کی گئی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے انہوں
نے کہا کہ انتخابات کے بھاری ٹرن آؤٹ سے دنیا پر حکمرانی کرنے والے جابرانہ
نظام کو دھچکا لگا ہے۔ احمدی نژاد نے کہا کہ ان کے نئے دورِ صدارت میں
ایران کی جوہری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ انہوں نے خبردار کیا
کہ ایران پر حملہ کرنے والے کسی بھی ملک کو پچھتانا ہی پڑے گا۔ احمدی نژاد
کے حریف اعتدال پسند رہنما محمد علی عبتاحی کا کہنا ہے کہ ہفتے کی رات
پرتشدد مظاہروں کے دوران ان کے ایک سو سے زائد کارکنوں کو ان کے گھروں سے
گرفتار کیا گیا ہے۔ عبتاحی نے خدشہ ظاہر کیا کہ مزید گرفتاریاں عمل میں آ
سکتی ہیں۔ گرفتار شدگان میں سابق صدر محمد خاتمی کے بھائی محمد رضا خاتمی
بھی شامل ہیں۔ تاہم عدالتی ترجمان کے مطابق اعتدال پسند کارکنوں کو گرفتار
نہیں کیا گیا بلکہ انہیں طلب کر کے کشیدگی پھیلانے سے باز رہنے کے لئے
خبردار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد کو بعد ازاں رہا کر دیا گیا۔
ایرانی حکومت نے انٹرنیت کی فلٹرنگ میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ تاہم موبائل
فون سروس بحال کر دی گئی لیکن ایرانی شہری ابھی تک ایس ایم ایس ارسال نہیں
کرسکتے۔
اعتدال پسندوں رہنما میر حسین موسووی کی جانب سے صدارتی انتخابات میں
دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے الزام پر ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے
بعد ہفتے کو بدترین احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین نے دارالحکومت میں متعدد
گاڑیاں نذرآتش کیں اور پولیس پر پتھراؤ کیا۔ دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں
نے احمدی نژاد کے دوبارہ انتخاب کو مغربی طاقتوں کے لئے مایوس کن قرار دیا
ہے جو ایران کو اپنا جوہری پروگرام روکنے پر قائل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔
لندن میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مارک فٹزپیٹرک
کہتے ہیں کہ احمدی نژاد کی انتخابی کامیابی ایران کے جوہری تنازعے کے جلد
حل کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ ان انتخابات کے بعد ایران کے بارے میں
بیرونی دنیا میں تو بحث چھڑی ہوئی ہے۔ اندرون ملک بھی سیاسی دھڑوں میں
اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ احمدی نژاد نے اپنے حریفوں پر الزام عائد
کیا کہ وہ مغرب کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے اصولوں کو اپناتے ہوئے قومی
تشخص کو نقصان پہنچا رہے ہیں جبکہ احمدی نژاد کے حریف سابق وزیر اعظم میر
حسین موسووی کا کہنا ہے کہ قدامت پسند صدر نے اپنی انتہاپسند خارجہ پالیسی
کے ذریعے ایرانیوں کی تذلیل کی۔ 52 سالہ احمدی نژاد نے چار سال قبل 1979 کے
اسلامی انقلاب کی بحالی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے تیل برآمد کرنے والے
دنیا کے چوتھے بڑے ملک کی صدارت کا منصب سنبھالا تھا۔ انہوں نے ملک کے
جوہری پروگرام کی توسیع کی، ان مغربی الزامات کو رد کیا کہ اس منصوبے کا
مقصد جوہری ہتھیاروں کی تیاری ہے۔ ہولوکوسٹ کا انکار اور اسرائیل کے خلاف
سخت بیانات کے ذریعے بھی انہوں نے عالمی طاقتوں کو ناراض کیا۔ |