تقسیم در تقسیم کا عمل

وطن عزیز میں جس قدر اتحاد، اتفاق اور یگانگت کی اس وقت ضرورت ہے اس سے پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ اس وقت ہمارے ملک میں مختلف طریقوں سے ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی سازش ہو رہی ہے کہ کسی طرح اس قوم کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے۔ کہیں لسانیت کے نام پر، کہیں قومیت کے نام پر کہیں فرقے کے نام پر اور کہیں مسلک کے نام پر۔

اسلام تو اتحاد کا درس دیتا ہے۔ اسلام تو وہ دین ہے جو دنیا کے دو مختلف کونوں میں رہنے والوں کو ایک کلمہ کی بنیاد پر ایک قوم قرار دیتا ہے اور ہم ایک قوم ایک کلمہ گو ہونے کے باوجود تقسیم ہیں۔ ذرا ماضی کا ایک چکر لگاتے ہیں۔ یہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں آپ کا تعلق فارس( ایران ) سے ہے لیکن حق کی تلاش آپ کو عرب کے صحراؤں میں لی آئی ہے۔ بالآخر آپ کو جس حق کی تلاش تھی وہ حق ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نظر آجاتا ہے۔ آپ کلمہ پڑھ کر ایمان لے آتے ہیں۔ پھر چشم فلک یہ عجیب منظر دیکھا کہ ایک فارسی جس کی زبان، تہذیب، معاشرت عربوں سے بالکل مختلف ہے وہ اس عرب معاشرے کا ایک حصہ بن جاتا ہے جو اپنے علاوہ دوسی قوموں کو عجم ( گونگا ) کہتے ہیں۔ یہ کلمہ کی برکت ہے۔

قارئیں ہمارا اسلام تو اتحاد، محبت، اخوت کا درس دیتا ہے لیکن آج ہم ٹکڑوں میں بٹتے جارہے ہیں۔ اگر ہم ایک دفعہ تقسیم ہوگئے تو پھر تقسیم در تقسیم کا ایک عمل شروع ہوجائے گا جو بالآخر ہمیں ختم کر کے ہی ختم ہوگا۔ ہم ایک جائزہ لیتے ہیں کہ اگر ہم متحد نہ رہے اور خدانخوستہ تقسیم ہوجاتے ہیں تو یہ عمل کیسے شروع ہوگا ( اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو )

فرض کریں کہ ہم ( میرے منہ میں خاک ) قومیت کی بنیاد پر تقسیم ہوجاتے ہیں اور الگ اپنا حصہ لیکر الگ ہوجاتے ہیں تو کیا یہ بات یہیں ختم یوجائے گی؟ جی نہیں بلکہ یہاں سے تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوگا کیوں کہ فرض کریں کہ بلوچ قومیت کی بنیاد پر الگ ہوتے ہیں تو کچھ عرصے کے بعد ہم بلوچ نہیں رہیں گے بلکہ اب ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہوگا کہ میں تو چاکر ہوں میں میرانی یا مری قبیلے سے برتر ہوں۔ دوسری طرف مری قبیلہ یہ سوچے گا کہ جناب میں تو رند،اور بگٹی قبیلے سے افضل ہوں۔ اس سوچ کے بعد ایک بار پھر تقسیم کا عمل شروع ہوگا۔ یہ عمل مکمل ہوگا تو پھر ایک سوچ پیدا ہوگی کہ میں چاکر یا مری یا میرانی قبیلے کا ایک دولت مند آدمی ہوں تو یہ میرے قبیلے کے غریب غرباء کمی کمین میرے نزدیک کیوں ہیں۔

یا فرض کریں کہ ہم مہاجر قومیت کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں تو پھر یہ نقشہ ہوگا کہ کچھ عرصے کے بعد یہ سوچ پیدا ہوگی کہ میں تو دلی والا ہوں، میں تو جبلپوری یا الہٰ آبادی سے افضل ہوں۔ یا میں تو علی گڑھ سے تعلق رکھتا ہوں میں زیادہ افضل ہوں۔اسی طرح ہم تقسیم در تقسیم ہوتے جائیں گے اور یہی چیز اگر پنجابی قوم پرستی میں بھی ہوگی کہ میں تو لاہور ہوں، میںتو امرتسری ہوں، میں تو فیصل آبادی ہوں میں زیادہ افضل ہوں یا میں تو بہاولپوری،ملتانی ہوں میں زیادہ افضل ہوں اور اس کے بعد مذکورہ بالا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

اگر ہم خدانخوستہ مسلک کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں تو پہلے ہم ایک مسلک کی بنیاد پر تقسیم ہوں گے، پھر سید، شیخ، صدیقی، اور دیگر ذاتوں میں تقسیم ہوتے جائیں گے ۔اور ہوتے ہوتے اس قدر تقسیم ہوجائیں گے کہ ہماری قوت ختم ہوجائے گی اور ہم دشمنوں کے لیے تر نوالہ بن جائیں گے۔ بقول شاعر تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

دشمن تو یہ چاہتا ہے کہ ہم آپس میں لڑتے رہیں۔ اسی لیے کبھی شیعہ سنی، کبھی قوم پرستی کے نام پر لڑاتا ہے لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس کا یہ داؤ اب بے اثر ہوگیا ہے تو اس نے اب بہت پرانا داؤ دوبارہ آزمانے کی کوشش کی ہے یعنی مسلکی اختلاف، دیوبندی، بریلوی، کی بنیاد پر لڑانے کا سوچا ہے اور طریقہ بھی بہت پرانا ہے کہ پہلے ایک مسلک کے کسی عالم کو قتل کرو اس کے بعد دوسرے مسلک کے عالم کو قتل کرو اور تماشہ دیکھو۔ ماضی میں دشمن یہ چال شیعہ سنی فسادات کے لیے کامیابی سے استعمال کرچکا ہے کہ پہلے ایک شیعہ عالم دین کو قتل کرو اس کے بعد کسی سنی عالم قتل کرو اور فسادات برپا کردو تاکہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں۔ میری اپنے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے یہی گزارش ہے کہ دہشت گردی کے کسی بھی واقعے پر فوری طور پر کوئی رائے قائم نہ کریں بلکہ دیکھیں کہ اصل بات کیا ہے۔ آپس میں دست و گریباں نہ ہوں بلکہ اصل دشمن کو پہچانیں۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1519901 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More