گیارہ مئی کےعام انتخابات میں
جودھاندلیاں ہوئیں اُس کے خلاف پاکستان کی تقریبا ہر جماعت نے احتجاج کیا۔
تیس جولائی کے صدارتی انتخابات جس طرح منعقد ہوئےاُس پر احتجاج کرتے ہوئے
پاکستان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدواررضا ربانی، اعتزاز احسن
اوردیگررہنماوں نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر سخت الفاظ میں تنقید بلکہ
صدارتی انتخابات کا بایکاٹ بھی کیا۔ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک
انصاف کا نعرہ ہے "انصاف، انسانیت اور باعث فخر"۔ بدقسمتی سے یہ تینوں
پاکستان میں ناپید ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی اور رہنما عمران خان نے صدارتی
انتخابات کا تو بایکاٹ نہیں کیا لیکن جس انصاف کے حصول کےلیے بقول اُنکے وہ
جیل بھی گےاور موجودہ چیف جسٹس کی بحالی میں جدوجہد کی اُن کےہی ہاتھوں
انصاف کا خون ہوتے دیکھ کر 26 جولائی کو عمران خان نے عام انتخابات میں
مبینہ دھاندلیوں کا ذمہ دار الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کو قرار دیتے ہوئے
دونوں اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔عمران خان الیکشن کمیشن اور
عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہہ بیٹھیے "عدلیہ کا کردار شرمناک رہا"۔ سپریم
کورٹ میں موجود بقول جسٹس جواد ایس خواجہ "شیشے میں بند مچھلیاں" عمران خان
کے پتھر شرمناک کو برداشت نہ کرپایں اور عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس
جاری کردیا۔ عدالت کے نوٹس میں کہاگیا ہے کہ "بادی النظر میں عمران خان نے
عدلیہ کو اسکینڈلائز کیا اور ججوں کے خلاف نفرت پھیلائی"، لیکن اگراسکا عام
فہم زبان میں مطلب نکالیں تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ پوچھ رہی ہے کہ " شیشے
میں بند مچھلیوں پر عمران خان نے شرمناک کا پتھرکیوں مارا؟"۔
عمران خان نہ ہی پہلے فرد ہیں اور نہ ہی پہلے رہنما جن کو سپریم کورٹ نے
توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہو۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم کے قائدالطاف
حسین کو توہین عدالت کے سلسلے میں 7 جنوری کو عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے ایک محترم جج صاحب نےکراچی میں بدامنی کيس کی سماعت کرتے
ہوئے سيکرٹری اليکشن کميشن کو کراچی ميں نئی حلقہ بنديوں پر لائحہ عمل طے
کرکے رپورٹ عدالت میں پيش کرنے کی ہدايت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی ميں ايسے
انتخابی حلقے تشکيل ديئے جائيں جہاں کسی ايک سياسی جماعت کی اجارہ داری
قائم نہ ہو۔ محترم جج صاحب کے لفظ اجاراداری پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف
حسین نے سخت احتجاج کیا تھا۔عدالتی حکم ميں کہا گيا تھا کہ الطاف حسين
عدالت ميں آکر وضاحت ديں کہ کيوں نہ انکے خلاف توہين عدالت کی کارروائی کی
جائے۔ سپريم کورٹ کے مطابق توہين عدالت کی وجہ یہ تھی کہ"الطاف حسين نے ايک
عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کراچی ميں نئی حلقہ بنديوں کے فيصلے اور ججوں
پر تنقيد کی ہے۔ جلسے سے خطاب ميں الطاف حسين نے کہا تھا کہ ججوں کو معافی
مانگی چاہیے۔ جلسہ ميں استعمال کی گئ زبان عدالتی کاموں ميں رکاوٹ ڈالنے کے
مترادف بھی تھی۔ الطاف حسين کے الفاظ نہ صرف توہين آميز بلکہ دھمکی آميز
بھی ہيں۔ عدالت نے اپنے ريمارکس ميں کہا کہ کيا آپ چاہتے ہيں کہ ہم يہاں
بيٹھ کر کام نہ کريں، ايم کيو ايم کے رہنما نے قابل احترام ججز کيلئے
نامناسب الفاظ استعمال کيے "۔ الطاف حسین خودتو حاضر نہیں ہوئے مگر سپریم
کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی انکے تین اور ساتھیوں نے بھی غیر مشروط
معافی مانگی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی الطاف حسین کو جس زمانے میں نوٹس
ملا تھا اُس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرفیصل رضا عابدی نے ایک
نہیں دو نہیں بلکہ درجنوں مرتبہ چیف جسٹس صاحب پر ذاتی حملے کیےبلکہ ایک
نیوز چینل پر فیصل رضا عابدی نے چیف جسٹس صاحب اور ارسلان چوہدری کے بارے
میں بہت سی ایسی باتیں کی ہیں جنہیں اخلاقی طور پر یہاں نہیں لکھا جاسکتا۔
پاکستان کے تمام نیوز چینلز شرجیل میمن ، فواد چوہدری اور فیصل رضا عابدی
کے انٹرویو مسلسل نشر کرتے رہے اور سارا پاکستان حیرت میں ڈوبا ان الزامات
کوسن رہا تھا۔ ہر چینل پر اور ہر پیریس کانفرس میں فیصل رضا عابدی نے چیف
جسٹس صاحب پر الزامات لگائے اور ارسلان کے خلاف کرپشن کے ثبوت پیش کیے، چیف
جسٹس آف پاکستان پر اس طرح کے الزامات تاریخ میں پہلی مرتبہ سامنے آئے۔
لیکن فیصل رضا عابدی کو کبھی کوئی توہین عدالت کا نوٹس نہیں ملا اور نہ ہی
کسی نیوز چینل کو۔ ملک ریاض جنہوں نے ارسلان کے خلاف فراڈ کی درخواست دی
تھی الٹااُنہیں توہین عدالت کا ملزم ٹھہرا دیا گیا اور کاروائی بھی شروع
ہوگئی۔ ارسلان کیس میں سپریم کورٹ خود بطور ادارہ ملوث ہوگئی، حتیٰ کہ چیف
جسٹس صاحب خود اس کیس کی سماعت کرنے لگے مگرجب میڈیا نے شور کیا تو چیف
جسٹس صاحب کیس سے الگ ہوئے،البتہ نیب کو تحقیقات کرنے سے روک دیا گیا۔
بیرسٹر اعتزاز احسن نےچیف جسٹس صاحب کو کہا تھا کہ فیصل رضا عابدی کو فوراً
بمعہ تمام ثبوت کے عدالت میں طلب کرلیا جائے تا کہ سچ اورجھوٹ کا پتا چل
سکے مگر ایسا نہ کیا گیا۔ ارسلان کے خلاف پرویز مشرف دور میں بھی سنگین
الزامات لگے تھے اور ارسلان کو نوکری سے نکالا گیا تھا۔
اُسی زمانے میں لاہور ہائی کورٹ نے کالاباغ ڈیم پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے
حکم دیا کہ کالا باغ ڈیم بنایا جائے حالانکہ معزز عدالت اس بات سے لازمی
آگاہ ہوگی کہ پاکستان کے تین صوبے کالا باغ ڈیم کے نہ صرف خلاف ہیں بلکہ
تینوں صوبوں کی اسمبلیاں کالا باغ ڈیم کےخلاف قراداد منظور کرچکی تھیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف میڈیا سے بات کرتے ہوئےعوامی نیشنل پارٹی
کے سربراہ اسفندیارولی نے کہاہے کہ "پاکستان اور کالا باغ ڈیم ایک ساتھ
نہیں چل سکتے، عدالت توہین عدالت کا نوٹس بھیج دے میں تیار ہوں"۔ اُن
کاکہناتھاکہ "سپریم کورٹ بھی یہ ہی فیصلہ دے تو قبول نہیں"۔ لیکن
اسفندیارولی کی خواہش پوری نہیں ہوئی اور فیصل رضا عابدی کی طرح انہیں بھی
کوئی توہین عدالت کا نوٹس نہیں ملا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جج نہیں
بولا کرتے انکے کیے ہوئے فیصلے بولا کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں
جب بھی جج بولے اُنکے فیصلے اُنکے بولنے کے مطابق ہوے، لاہور ہائی کورٹ کے
چیف جسٹس مولوی مشتاق ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمے میں مسلسل بولے اور
جو کچھ وہ کہتے تھے ایسا لگتا تھا جیسے بھٹو سے انکو ذاتی عناد ہے، عدالتی
کارروائی کے دوران بھٹو کو نام کامسلمان قرار دیا اور ان کیخلاف سزائے موت
کافیصلہ دیا، فیصلہ وہی تھا جو وہ بولے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا کیس جب
سپریم کورٹ پہنچا تووہاں چیف جسٹس انوارالحق تھے، جسٹس دراب پٹیل کے مطابق
جسٹس انوارالحق کو بھٹو سے ذاتی عناد اوردشمنی تھی ۔گذشتہ سال اُسی بینچ کے
ایک رکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنا گناہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے
سپریم کورٹ نے پھانسی کے حق میں فیصلہ ضیاء حکومت کے دباؤ میں آکر دیا تھا۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ایک عدالتی قتل
تھا۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کو جب برطرف کیاگیا تو نواز شریف اپنا کیس
سپریم کورٹ میں لےگے، اسوقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ ہی تھے،
جسٹس نسیم حسن شاہ نے اس کیس کے پہلے دن ہی اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ
"ہم جسٹس منیر بننے کو تیار نہیں" ہر شخص سمجھ گیا کہ نواز شریف حکومت بحال
ہوجائے گی اور ایسا ہی ہوا۔ یہاں یہ بات بھی بیان کرنا ضرروی ہے کہ سابق
صدر رفیق تارڑ بھی اُسی بینچ کا حصہ تھے جس نے نواز شریف حکومت کو بحال کیا
تھا۔ نواز شریف کی دوسری حکومت کے وقت نسیم حسن شاہ نے مسلم لیگ ن سے
سینٹرکا ٹکٹ مانگا تھا۔
دو اگست کو عمران خان نے دو مرتبہ اپنا جواب جمع کرایا مگر سپریم کورٹ نے
عمران خان کے جواب کو مایوس کن قراردیا اور ایک بار پھرجواب داخل کرانے
کیلئے 28 اگست تک کی مہلت دی ہے۔ جہاں تک بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ
سپریم کورٹ کی یہ خواہش تھی کہ دوسروں کی طرح عمران خان بھی معافی مانگ لیں
مگرایسانہ ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میچ کھیلتے ہیں تو ایک کی جیت اور دوسرے
کی ہار ہوتی ہے لیکن امپائر پر الزام نہیں لگاسکتے ۔ شاید ایسا کہتے ہوئے
اُنکو یاد نہیں رہا کہ کرکٹ کی دنیا میں عمران خان ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے
نیوٹرل امپائر کا مطالبہ کیا تھا۔ چیف جسٹس نےیہ بھی کہا ہزاروں لوگ روز
ہرزہ سرائی کرتے ہیں لیکن وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے، عمران خان کے منہ سے
نکلنے والی بات کی اہمیت ہوتی ہے، عمران خان وہ ہیں جنہوں نے اداروں کی
بالادستی کا جھنڈا اٹھایا۔ چیف جسٹس کے ان ریمارکس پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ ہزاروں لوگ روز ہرزہ سرائی کیوں کرتے ہیں اور عمران خان کیوں یہ کہنے پر
مجبور ہوا کہ "عدلیہ کا کردار شرمناک رہا"۔ حالیہ انتخابات میں اگر الیکشن
کمیشن اور عدلیہ مکمل غیر جانبدار رہتے تو عمران خان الیکشن کمیشن اور
عدلیہ کے کردار کو شرمناک نہ کہتے اورجب انکو عدلیہ پر تنقید کرنے کی وجہ
سے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا تو ساتھ ہی رضا ربانی اور بیرسٹر
اعتزاز احسن کو بھی نوٹس جاری ہونے چاہیئے تھے ورنہ یہ کہنا کہ ہم نیوٹرل
امپائر ہیں بے معنی ہے۔ اس پر کوئی دو رائے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
کہ پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق کوئی کسی سے بالاتر نہیں ۔ وزیر اعظم
ہویا گورنر، کسی سیاسی پارٹی کا لیڈر ہویا بیوروکریسی کا افسر، فوجی جرنیل
ہو یا اعلی عدلیہ کا جج،یا پھر عام لوگ قانون اور انصاف کی نظرمیں سب کے
ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ اورجب ایسا ہوگا تو نہ ہزاروں لوگ روز ہرزہ
سرائی کرینگے اور نہ ہی سپریم کورٹ کو یہ سوال کرنے کی ضرورت پڑئے گی کہ "
شیشے میں بند مچھلیوں پرعمران خان نے شرمناک کا پتھرکیوں مارا؟" |