سال بھرکے انتظار اور ایک مہینے
رمضان المبارک کی رونقوں کے بعدعید آتی ہے توخوشیوں کا پیغام لے کر آتی
ہے۔کہتے ہے کہ اگلی عید کا انتظار عید کے دوسرے دن سے ہی شروع ہوجاتا ہے ۔
لیکن شاید اب ایسی بات نہیں رہی کیوں کہ عالم اسلام میں ہر طرف انتشار و بد
امنی کا دوردورہ ہے۔اس لیے اب عید اس طرح سے منائی نہیں جاتی کیوں کہ عید
کی خوشیاں اسی وقت میسر آتی ہے جب ہر طرف امن وامان
ہو۔لیبیا،مصر،شام،عراق،بحرین ،افغانستان ایسے ممالک ہے جہاں کے باشندے عید
گاہ جاتے ہوئے بھی ایک عجیب سا خوف محسوس کرتے ہے کہ کہی کوئی حادثہ یا
دھماکہ نہ ہوجائے۔برما اور آسام میں رونما ہونے والے واقعات ہمارے سامنے
ہے۔اس کے برعکس اسلامی ممالک کے حالات انتہائی تشویشناک ہیں۔قبلۂ اول بیت
المقدس کے حا لات بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔ابھی حال ہی میں مزارات صحابہ کی
مسماری بھی امت مسلمہ کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ایسے ماحول میں عید کی
خوشیوں کا تصور کرنابے سود ہے۔
لیبیاجہاں کئی مہینوں سے لوگ گولیوں اور بموں کی آواز سن کر دہشت کے سائے
میں زندگی گزاررہے ہیں ۔ جنگ اور تصادم کے سبب روزمرہ زندگی کی بنیادی
سہولیات سے بھی محروم ہیں،وہاں کیسی عید؟اور کیسی عید کی خوشی؟اسی طرح شام
کی گلیوں میں جہاں ہر طرف احتجاجیوں کے ہنگامے اور پولس کی گولیاں گونج رہی
ہوں،جہاں عید کی نماز کے بعداحتجاج اور گولیاں چل رہی ہوں، وہاں عید کی کیا
خوشیاں منائی جا سکتی ہیں؟اسی طرح عراق وافغانستان جہاں ہر دم خود کش حملے
کا خدشہ لگا رہتا ہے وہاں بازار اور چوراہے کیسے عید کی رونقوں سے پرنور
نظر آئینگے؟لوگ نماز عید پڑھنے کے لیے جاتے ہیں اور آن واحد میں ایساکچھ
ہوجاتا ہے کہ ان کے رشتے دار اِن کی نماز جنازہ ادا کرتے نظر آتے ہے۔برما
و آسام میں ایسی کتنی ہی سہاگنیں ہوگی جن کے سر کا سہاگ عید کی آمد سے
پہلے ہی اجاڑ دیا گیا،عید کے دن ان کے ہاتھوں میں مہندی نہیں بلکہ اقربا کے
خون کی سرخی نظر آرہی ہونگی۔ایسے ہزاروں بچے ہے جن کے سر سے شفقت پدری کا
سایہ اٹھالیاگیاہے،کون انہیں نئے کپڑے دلائے گا،کون انہیں عیدگاہ لے جائیگا
اور کون انھیں عیدی دیگا۔ایسے ہزاروں مسلمان ہے جن کی میت پر کوئی نماز
جنازہ پڑھنے والا بھی نہیں ہے ، کوئی کفن پہنا کر دفن کرنے والا بھی موجود
نہ رہا،ان کی لاشیں یونہی بے گور وکفن کیڑے مکوڑوں کی غذا بن رہی ہیں۔
کیا کوئی اپنے سگے بھائی کی لاش دیکھنے کے بعد بھی خوشیاں منائیں گا؟یقینا
نہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ سنی دعوت اسلامی عید منانے سے منع کر ر ہی ہے ،ایسا
نہیں ہے،جنگ بدر ۱۷؍رمضان المبارک کو ہوئی تھی جس میں کئی صحابہ کرام نے
جام شہادت بھی نوش فرمایا تھا ، اس کے باجود آقاﷺ نے مع اپنے اصحاب کے عید
منائی تھی۔تحریک سنی دعوت اسلامی بھی یہی پیغام دینا چاہتی ہے کہ عیدمنائیں
مگر اس طرح منائیںجس طرح صحابۂ کرام نے منائی تھی۔اسلامی احکام کی پاسداری
کرتے ہوئے،فرمان خدا پر عمل کرتے ہوئے اور رسول اکرم ﷺ کی اطاعت واتباع
کرتے ہوئے۔عید کے دن ایسے کاموں میں مشغول نہ ہوجانا جس سے اللہ اور اس کے
رسول ﷺ ناراض ہوجائے۔
افسوس امت مسلمہ لاپرواہی اور غفلت کاشکارہوکر خواہشات نفسانی میںڈوب چکی
ہے، جس کی وجہ سے قوم مسلم میں بیہودہ رسم ورواج عام ہوچکا ہے۔ چنا نچہ اس
موقع پر لڑکیاں کا فی بیہودہ قسم کے لباس پہنتی ہیں اوربے حجاب بر سرعام
بازاروں کلبوں گلیوں میں گھومتی ہیں،جوکہ شریعت کے سخت خلاف ہے۔ بے پردہ
عورتوں کا حشر بڑا ہی درد ناک ثابت ہوگا، ایسی لڑکیوں پر لعنت برستی ہے،
قیامت کے دن عذاب الٰہی کی حقدار ہو نگی۔ اس کے علاوہ والدین اپنے بچوں پر
خوشی میں حد سے زیادہ تجاوز کرتے ہیں، کہیں ان کے لباس فیشن پر ست ہوتے ہیں
تو کہیں یہ سنیمامیں لے جاتے ہیں، آج معاشرہ کی بیہودگی اس قدر عروج پر ہے
کہ نوجوان اس دن فلم دیکھنا ،گانے اور ناچنے کی پارٹی میں شرکت کرنا،
مردوزن کے مخلوط مقامات پر حاضری کو ضروری سمجھتے ہیں۔ عید سعید در حقیقت
عمدہ کپڑاپہن لینے یا عمدہ کھانا کھالینے یا دنیاوی خواہشات میں ڈوب جانے
کا نام نہیں ہے بلکہ عید سعید تو اطا عت و فرمانبرداری عبادت میں کثرت لانے
کانام ہے۔ گناہوں سے توبہ کرنے اور عذاب الٰہی سے خوف کھا کر تو بہ و
استغفار کا نام ہے۔ لیکن آج ہمارا حال اتنا خراب ہوگیا ہے کہ ایک ماہ کی
عبادت کو عید کے دن خرافات میں پڑ کر ضائع کردیتے ہیں۔ کبھی فیشن تو کبھی
لذیذ کھانا تو کبھی فلم دیکھنا وغیرہ وغیرہ۔ انہیں یہ سب کرتے وقت ذرا سا
بھی اسلامی احکام کا خیال نہیں آتا۔ ایسی شیطان پرستی اور خواہشات میں ڈوب
کر خود کو بربادی کے دہانے پر پہونچا دیتے ہیں۔ہمارے نوجوان بے راہ روی اور
خرافات میں مشغول ہو نے سے بہت خوش ہو تے ہیں ۔اللہ رحم وکرم فرمائے ۔اللہ
پاک عالم اسلام میں امن وامان قائم فرمائے اور ہر مسلمان کو عید کی حقیقی
خوشیاں عطا فرمائے۔آمین |