وہی قومیں زندہ رہتی ہے جس
کارشتہ اپنی تاریخ اور ماضی سے مضبوط ہوتا ہے
ایک خبر ہے۔ بڑی ہی کرب ناک اور دل خراش کہ چند ہفتہ پیشترکسی خاص پلاننگ
کے تحت بارگاہ رسالت سے سیف اللہ کاخطاب پانے والے مشہور صحابی رسول سیدنا
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مزار شریف کومسمار کردیاگیا ۔اس پر بھی دل
کابخار ہلکا نہ ہواتو شاہکار دست قدرت مصطفی جان رحمتﷺکی نواسی حضرت زینب
رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک کو شہید کردیاگیا۔اسلاف کرام کے مزارات کے
مسماری جیسے مذموم ورذیل فعل کے جواز کی صورت میں سعودی حکام دوباتیں کہتے
ہیں۔جن میں سے ایک یہ ہے کہ حاضری کے نام پر لوگ شرک وبدعت کرتے تھے اور
دوسری بات یہ کہ قبر فرضی اور خیالی تھی ،اپنی اصل جگہ نہیں تھی،اس لئے اسے
مسمار کرنے کا سعودی اقدام حق بجانب ہے۔یہ دو باتیں نئی نہیں ہے بلکہ بہت
پرانی ہے۔جس وقت نبی پاکﷺکی والدۂ محترمہ کے مزارمقدس پر سعودی بلڈوزر
چلایاگیاتھااس وقت بھی انہی جملوں کے پردوںمیں اپنی خباثت
کوچھپایاگیاتھا۔مولدالنبیﷺاور مولد فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہاکو منہدم
کرنے کے بعدبھی ایسے ہی بے تکے الفاظ کے ذریعے اپنی کمینگی کوچھپانے کی
کوشش کی گئی ،کہاگیااس کی اصل نہیں کہ یہ وہی جگہ ہے۔اگر اس کی سند نہیں تو
مکہ مکرمہ میں کوئی تو جگہ ہوگی جہاںیہ واقعات رونما ہوئے ہونگے۔ اگر آپ
ان مقامات مقدسہ کی سند کا انکار کرتے ہوتو آپ پر فرض تھاکہ اصل مقامات کی
تحقیق کرکے انہیں اسلامی یادگار کے طور پر باقی رکھاجاتا۔شہزادیٔ رسول
خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا کی جائے پیدائش پر تو غریب بچوں
کامدرسہ تھا،وہ کون سی بدعت تھی کہ اس کو بھی قائم نہ رہنے دیاگیا۔اگر عشاق
شعائر اسلام کی زیارت کے لئے جاتے ہیں توکون ساگناہ کرتے ہیں،علمائے حق نے
تو تمہیں تفصیل کے ساتھ جوابات دے دیئے کہ مزارات کی حاضری شرک وبدعت نہیں
بلکہ رسول اللہ ﷺ کی سنّت ہے۔حضورﷺنے سب سے پہلا سفراپنی مادر مشفقہ کے
ساتھ اپنے والد گرامی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قبر کی زیارت کے لئے
کیاتھا۔اور بھی متعدد روایتیں ہے جن میں اس بات کا ثبوت موجودہے کہ آقا
علیہ السلام نے قبورِ زیارت کیں۔خیر اگر آپ کی یہی ہٹ دھرمی ہے کہ زیارت
قبور شرک وبدعت ہے تو حکومت عرب کا یہ فرض عین تھاکہ ایسے مقامات پر زیارت
کے لئے روک لگائی جاتی نہ کہ ان مقدس مقامات کو صفحۂ ہستی سے ہی
مٹادیاجاتا۔اچھاہمیں یہ بتائیں کہ آپ نے جوشعائر اسلام کی اینٹ سے اینٹ
بجائی ہے اس سے اسلام کو کونسی تقویت حاصل ہوگئی؟؟
اصل میں عرب حکام کا تعلق یہودی ذہنیت سے ہے۔سلطان اپنی بادشاہی کے غرہ
میںآکر یہ سب کچھ کررہا ہے،ان کو حد سے آگے نہیںگزرناچاہئے۔ان کو اہل
اسلام کے ہر قلب کا لحاظ کرتے ہوئے سلطنت کرنا مناسب ہوگا۔وہ بادشاہ ہی
کیاجواپنے اثر سے بدعات کو روک نہ سکے اور اللہ کی نشانیوں کومسمار ومنہدم
کرکے اپنی کمزوری کاثبوت دے۔قبروں کو مسمار کرنے کے لئے آل سعود کو کسی
سند جواز کی ضرورت نہیں۔سعودی ونجد کی خمیر ہی میںگستاخی اور سنگ دلی کے
عناصر واجزاء شامل ہیں۔اور سارا عالم اسلام ان کے مذہبی مزاج سے اچھی طرح
واقف ہے۔شرک وبدعت کے نام پر وہ چاہیں تو زندوں کوبھی قبر میں دفن کردیںاور
پھر وہاں سے ان کی ہڈیاں نکال کر نذرآتش کردیں۔یہ سب ان کے یہاں گویاعینِ
توحید ہے۔وہ جو کریں وہ عین اسلام ہے اور کتاب وسنّت کے مطابق ہے۔یہ سلسلہ
آج سے نہیں تقریباًدوسو سال سے جاری ہے اور حجاز مقدس کی لگ بھگ پنچانوے
فیصدوہ نشانیاںجنہیں نہایت اہتمام کے ساتھ رکھنا چاہئے تھا،انھیں
ڈھونڈڈھونڈ کر خاک بوس اور بے نام ونشان کردیاگیا۔ان تمام خرافات کے پیچھے
ان کا مقصد حقیقی یہ ہے کہ وہ کسی دن روضۂ رسول ﷺکو نقصان
پہنچائے۔(معاذاللہ)
آج دنیا اپنے باقیات کو تلا ش کررہی ہے۔آثار وصنادید کی تحقیق جاری ہے۔سچ
نہ سہی تو جھوٹی روایتیں اور جھوٹی اشیا رکھ کر جھوٹی تاریخ کو ثابت کرنے
کی کوشش کی جارہی ہے۔اور تمہاری آنکھوں پر یہ کیسی پٹی بندھ گئی ہے کہ تم
اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی تاریخ کو مٹارہے ہو،اللہ کی نشانیوں کو نیست ونابود
کرہے ہو۔یادرکھووہی قومیں زندہ رہتی ہے جس کارشتہ اپنی تاریخ اور اپنے ماضی
سے مضبوط ہوتا ہے۔تم یہودونصاریٰ کے ذریعے فراہم کی جانے والی عیاشی میں اس
قدرمگن ہوگئے کہ ان کی چالوں سے بھی ناواقف ہوگئے ہو۔انہوں نے تمہارے
ہاتھوں میں دوشیزائیں اور شراب کی بوتلیں کیاتھمادی تم ملت کاسوداکرنے کے
لئے تیار ہوگئے۔نکل جائو یہودی شکنجے سے،بچالواپنے آپ کو نصرانی چنگل
سے۔آجائومحمدعربی کے قدموں میں۔یہی وہ درہے جہاں سے تمہیں مغفرت کا پروانہ
ملے گا،یہی وہ بارگاہ ہے جو اگرشفارش کردے تو مولیٰ تمہارے سابقہ گناہوں کو
معاف فرمادے گا۔رب تمہیں اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع دے رہاہے۔توبہ کرلو
ورنہ یاد رکھو اللہ کی پکڑبہت مضبوط ہے اور اس کا عذاب بہت شدید ہے۔ |