امت محمدیہ کی امتیازی شان ہے شب قدر

باسمہ تعالیٰ
اناانزلناہ فی لیلۃ القدر،وماادراک مالیلۃ القدر،لیلۃ القدرخیرمن الف شہر،تنزل الملائکۃ والروح فیہاباذن ربہم من کل امر،سلام،ہی حتیٰ مطلع الفجر(سورۃالقدر)
ترجمہ:بے شک ہم نے اسے(قرآن کو)شب قدرمیں اتاراہے،اورآپ کوخبرہے کہ شب قدرہے کیا؟شب قدرہزارمہینوں سے بڑھ کرہے،اس رات فرشتے اورروح القدس اترتے ہیں اپنے پروردگارکے حکم سے ہرامرخیرکے لیے،سلامتی(سلامتی ہی)ہے وہ رہتی ہے طلوع فجرتک۔(تفسیرماجدی)

امت محمدیہ کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی عمریں کم کردیں،لیکن عبادت کاثواب بڑھادیااوران سب سے بڑھ کراہم خصوصیت یہ ہے کہ اس امت کوایک ایسی فضیلت والی رات عطاکی جس میں کی گئی عبادت کاثواب ہزارمہینوں میں کئے گئے عبادتوں کے برابرہے یااس سے بھی زیادہ ہے،اوروہ فضیلت والی رات ’’شب قدر‘‘کی بابرکت رات ہے۔

شب قدرکی اہمیت وفضیلت سے امت محمدیہ کوواقف کرانے کے لیے اﷲ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ القدرنازل فرمایا،جس کے شان نزول کے بارے میں ابن ابی حاتم نے مجاہدسے مرسلاًروایت کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک مجاہدکاحال ذکرکیاجوایک ہزارمہینے تک مسلسل جہادمیں مشغول رہا،کبھی ہتھیارنہیں اتارے، مسلمانوں کو یہ سن کرتعجب ہوا،اس پرسورۃ القدرنازل ہوئی جس میں اس امت کے لیے صرف ایک رات کی عبادت کواس مجاہدکی عمربھرکی عبادت یعنی ایک ہزارمہینے سے بہترقراردیاہے۔ابن جریرنے مجاہدکی روایت سے ایک دوسراواقعہ ذکرکیاہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابدکایہ حال تھاکہ ساری رات عبادت میں مشغول رہتااورصبح ہوتے ہی جہادکے لیے نکل کھڑا ہوتا دن بھرجہادمیں مشغول رہتا،ایک ہزارمہینے اس نے اسی مسلسل عبادت میں گذاردیے،اس پراﷲ تعالیٰ نے سورۃ القدرنازل فرماکراس امت کی فضیلت سب پرثابت فرمادی۔ جس سے امت محمدیہ کی امتیازی خصوصیت کاپتہ چلتاہے۔(تفسیرمظہری بحوالہ معارف:۸؍۷۹۱)

مذکورہ سورۃ سے واضح طورپرتین باتیں معلوم ہوتی ہیں:۱۔لیلۃ القدرمیں قرآن کریم کانزول،۲۔لیلۃ القدرکی اہمیت وفضیلت،۳۔لیلۃ القدرمیں فرشتوں اورحضرت جبرئیل علیہ السلام کازمین پرآنااورطلوع فجرتک رحمتوں کابرسنا۔

۱۔لیلۃ القدرمیں نزول قرآن: اﷲ تعالیٰ اس رات کی اہمیت وفضیلت کوبیان کرتے ہوئے ارشادفرمارہاہے کہ یہی وہ بابرکت رات ہے جس میں ہم نے قرآن کونازل کیا، یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پرجوسب سے پہلی وحی نازل ہوئی وہ ’’اقرأباسم ربک‘‘تھی،اورپہلی وحی کانزول غارحراء میں ہوااوراس بات پربھی سب کا اتفاق ہے کہ نزول قرآن کاسلسلہ رمضان المبارک میں شروع ہوا،اورمذکورہ سورۃ میں اﷲ نے اس مسئلہ کوبالکل واضح کردیاکہ قرآن کے نزول کی ابتداء اسی بابرکت رات میں ہوئی۔مفسرین نے مذکورہ آیت کی تفسیرکرتے ہوئے لکھاہے کہ اس کے دومطلب ہوسکتے ہیں ایک تویہ کہ پوراقرآن کریم عرش بریں پرلوح محفوظ سے آسمان دنیاپراسی رات میں اتاراگیااورپھراﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پرتدریجااسے نازل کیاگیادوسرایہ کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پروحی کی ابتدااسی رات سے کی گئی،کیوں کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پرجوسب سے پہلی وحی نازل ہوئی تھی وہ رمضان کے آخری عشرہ کے کسی طاق رات میں ہوئی تھی،اورحدیث صحیح کے مطابق یہ شب قدرہرسال آخرعشرۂ رمضان کی کسی طاق تاریخ میں آیاکرتی ہے۔(تفسیرماجدی)

احادیث سے یہ توثابت ہے لیلۃ القدررمضان کے آخری عشرہ کی کسی طاق رات میں آتی ہے،لیکن وہ رات کون سی ہوگی یہ نہیں بتلایاگیاہے ،حضرت عبادہ بن الصامت رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم باہرتشریف لائے تاکہ ہمیں لیلۃ القدرکے بارے میں خبردیں مگردومسلمان آپس میں جھگڑرہے تھے توآپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں اس لیے آیاتھاتاکہ تمہیں شب قدرکی خبردوں،مگرفلاں فلاں شخصوں میں جھگڑاہورہاتھا،جس کی وجہ سے اس کی تعیےن اٹھالی گئی،کیابعیدہے کہ یہ اٹھالینااﷲ تعالیٰ کے علم میں بہتر ہو، اب اس رات کونویں،ساتویں اورپانچویں راتوں میں تلاش کرو۔‘‘(بخاری) اس حدیث سے بہت ہی اہم بات یہ سمجھ میں آتی ہے اختلاف اورنزاع بہت ہی بری چیزہے،انسان کواس سے گریزکرناچاہیے،یہ آپس میں اختلاف اورجھگڑنے کی ہی نحوست تھی کہ شب قدرکی تعیےن اٹھالی گئی،اس کے برعکس شب قدرکی تعیےن کااٹھالیناخودامت مسلمہ کے لیے بہت بڑی رحمت ہے،اگرشب قدرکی تعیین ہوجاتی تولوگ صرف ایک رات عبادت کرکے آرام سے بیٹھ جاتے دیگرراتوں میں عبادت کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے ،اسی طرح اگرکوئی شخص کسی وجہ سے اس رات محروم رہ جاتاتوپھراسے زندگی بھراس کاملال رہتا،توجیساکہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے حدیث کے آخرمیں ارشاد فرمایا کہ ’’کیا بعید ہے کہ یہ اٹھالینااﷲ تعالیٰ کے علم میں بہترہو‘‘اورحقیقت یہی ہے کہ یہ بہترہی نہیں بلکہ بہت بہترہے،اس صورت میں ہروہ شخص جواﷲ کی رحمت اورقربت کاطلبگارہوتاہے وہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں۲۱،۲۳،۲۵،۲۷،۲۹ میں پوری رات اﷲ کی بارگاہ میں سجدہ ریزرہتاہے،اوررحمت وقربت کاطلبگار رہتا ہے، اوریقیناجوشخص ان پانچوں راتوں میں اﷲ کی رحمت کوتلاش کرتاہے اسے دوطرح کاثواب حاصل ہوتاہے ایک تولیلۃ القدرکی تلاش کادوسرے جورات لیلۃ القدرہوگی اس رات میں ہزارمہینوں کے برابر عبادت کرنے کا ثواب اسے ملے گا۔

صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہاسے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تحروالیلۃ القدرفی العشرالاواخرمن رمضان‘‘یعنی شب قدرکورمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔اورصحیح مسلم میں حضرت ابن عمررضی اﷲ عنہ کی روایت سے آیاہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’فاطلبوھافی الوترمنھا‘‘یعنی شب قدرکورمضان کے عشرۂ اخیرہ کی طاق راتوں میں طلب کرو۔(مظہری بحوالہ معارف:۸؍۷۹۲)

اتنی بات توقرآن کی تصریحات سے ثابت ہے کہ شب قدررمضان میں آتی ہے،لیکن تاریخ کے تعین میں علماء کے مختلف اقوال ہیں جوچالیس تک پہونچتے ہیں،مگرمظہری کے مطابق ان سب میں صحیح قول یہ ہے کہ یہ رات اخیرعشرہ میں آتی ہے،جوکہ متعین نہیں ہے اور ہررمضان میں بدلتی بھی رہتی ہے،اکثرائمہ فقہاء نے اس کومنتقل ہونے والی رات مانا ہے جن میں امام مالک،امام احمدبن حنبل،سفیان ثوری،اسحاق بن راہویہ،ابوثور،مزنی،ابن خزیمہ اورایک قول کے مطابق امام شافعیؒ بھی اسی کے قائل ہیں۔ (معارف:۸؍۷۹۲)
لیلۃ القدرکی اہمیت وفضیلت:لیلۃ القدرکی فضیلت بیان کرنے سے پہلے لفظ’’ قدر‘‘کی حقیقت بیان کرنامناسب معلوم ہوتاہے،’’قدر‘‘کے ایک معنی عظمت و شرف کے ہیں،اوردوسرے معنی تقدیروحکم کے بھی آتے ہیں،اس معنی کے اعتبارسے لیلۃ القدرکہنے کی وجہ یہ ہوگی کہ اس رات میں تمام مخلوقات کے لیے جوکچھ لکھاجاچکاہے اوراس رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنے والے ہیں وہ ان کے متعلقہ فرشتوں کے حوالہ کردیاجاتاہے،بقول ابن عباسؓ وہ فرشتے اس طرح ہیں:اسرافیل،میکائیل،عزرائیل اور جبرئیل علیہم السلام۔(قرطبی بحوالہ معارف:۸؍۷۹۲)سورۂ دخان کی آیت میں جولیلۃ مبارکہ کاذکرہے اس بارے میں جمہورمفسرین کی یہ رائے ہے کہ لیلہ مبارکہ سے مرادبھی لیلۃ القدرہی ہے،اوربعض حضرات نے لیلہ مبارکہ سے جونصف شعبان کی شب برأت مرادلی ہے اس کی تطبیق یوں کی ہے کہ ابتدائی فیصلے امورتقدیرکے اجمالی طورپرشب برأت میں ہوجاتے ہیں،پھران کی تفصیلات لیلۃ القدرمیں لکھی جاتی ہیں اس کی تائیدحضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کے ایک قول سے ہوتی ہے جس کوبغوی نے بروایت ابوالضحی نقل کیاہے : اس میں فرمایاہے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ سال بھرکے تقدیری امورکافیصلہ توشب برأت یعنی نصف شعبان کی رات میں کرلیتے ہیں پھرشب قدرمیں یہ فیصلے متعلقہ فرشتوں کے سپردکردیے جاتے ہیں۔(مظہری بحوالہ معارف:۸؍۷۹۲)

اﷲ تعالیٰ نے لیلۃ القدرکی ایک فضیلت تو اسی سورۃ میں بیان فرمایاہے کہ’’ یہ رات ہزارمہینوں سے بہترہے‘‘،یعنی تراسی سال کی عبادت کے ثواب کے برابرثواب ملتاہے ۔دیگر فضیلتیں اﷲ کے رسول صلی اﷲ کی زبان مبارک سے احادیث صحیحہ کی شکل میں ہم تک پہونچے ہیں۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’من قام رمضان ایماناواحتساباغفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘(متفق علیہ)کہ جوشخص رمضان (تراویح،قیام اللیل اورشب قدر) میں عبادت کے لیے کھڑارہااس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ شب قدر میں وہ تمام فرشتے جن کامقام سدرۃ المنتہی پر ہے جبرئیل امین کے ساتھ دنیامیں اترتے ہیں اورکوئی مومن مردوعورت ایسی نہیں جس جس کووہ سلام نہ کرتے ہوں،بجزاس آدمی کے جو شراب پیتا یا خنزیرکاگوشت کھاتاہو۔(معارف:۸؍۷۹۳)اورایک حدیث میں اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جوشخص شب قدرکی خیروبرکت سے محروم رہاوہ بالکل ہی محروم وبدنصیب ہے۔حضرت صدیقہ عائشہ رضی اﷲ عنہانے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ اگرمیں شب قدرکوپاؤں توکیادعاء کروں،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یہ دعاء کرو:’’اﷲم انک عفو تحب العفوفاعف عنی ‘‘یااﷲ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اورمعافی کوپسندکرتے ہیں،میری خطائیں معاف فرمائیے۔ (قرطبی بحوالہ معارف:۸؍۷۹۳)

ملائکہ اورحضرت جبرئیل علیہ السلام کانزول:شب قدرکی فضلیتوں میں یہ بھی ہے کہ اس رات حضرت جبرئیل علیہ السلام دیگرفرشتوں کے ساتھ دنیا میں نزول فرماتے ہیں،حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب شب قدرہوتی ہے توجبرئیل امین فرشتوں کی بڑی جماعت کے ساتھ زمین پراترتے ہیں،اورجتنے اﷲ کے بندے مردوعورت نمازیاذکراﷲ میں مشغول ہوتے ہیں سب کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں۔(مظہری)آیت میں روح سے مراد حضرت جبرئیل امین ہیں۔اس رات کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ پوری رات خیرہی خیراورسلامتی ہی سلامتی ہے،شرکاکوئی گذرنہیں ہے،اورشب قدرکی یہ برکات رات کے کسی حصہ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ شروع رات سے طلوع فجرتک ایک ہی حکم ہے۔صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت فرمایاکہ جس شخص نے عشاء کی نمازجماعت کے ساتھ اداکرلی توآدھی رات کے قیام کاثواب پالیا،اورجس نے صبح کی نمازبھی جماعت کے ساتھ اداکرلی توپوری رات جاگنے اورعبادت کرنے کاثواب حاصل کرلیا۔(معارف القرآن:۸؍۷۹۴)

شب قدراورہماراطرزعمل:ایک طرف شب قدرکی یہ ڈھیرساری فضیلتیں ہیں جوقرآن وحدیث سے ثابت ہیں دوسری جانب ہماراطرزعمل،اولاًتوہماراحال یہ ہے کہ ہم صرف رمضانوں میں مساجدکی رونقیں بڑھاتے ہیں پورے سال غائب رہتے ہیں،اوراس میں بھی نصف رمضان گذرتے گذرتے ہم بھی گذرجاتے ہیں،اس کے علاوہ بڑی مشکل سے نمازباجماعت اورتراویح کااہتمام ہوپاتاہے اورشب قدرکے نام پرصرف ستائیسویں شب کوجاگنے کواپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں،حالاں کہ شب قدرکاکوئی تعیین نہیں ہے اورتعیین نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلمان کم ازکم رمضان کے اخیرعشرہ کی تمام راتوں میں خوب زیادہ سے زیادہ عبادت کریں اوررمضان کی برکات حاصل کریں،ساتھ ہی ان راتوں میں اگرکوئی رات شب قدرکی ہے توہزارمہینوں کی عبادت کاثواب الگ مل جائے گا،ہمیں اس سلسلہ میں اپنے طرزعمل کوبدلنے کی ضرورت ہے اور سب سے پہلے توہمیں یہ کوشش کرنی ہوگی کہ ایک مسلمان کے لیے پوراسال ہی رمضان ہواورہررات اس کی شب قدرہوتبھی ہم اﷲ کے خاص بندے اوررسول کی محبت کادم بھرنے کے لائق ہوں گے۔اﷲ ہم سب کواپنی مرضیات پرچلنے والابنائے۔آمین
Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50690 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More