صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم عشق ووفا کی امتحان گاہ میں(حصہ پنجم)

فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ: حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے زمانہ میں ایک یہودی او ر ایک منافق میں کسی بات پر جھگڑا پیدا ہوگیا۔ یہودی چاہتا تھا کہ جس طرح بھی ہو میں اسے حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں لے چلوں۔ چنانچہ وہ کوشش کرکے اسے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی بارگاہ عدالت میں لے آیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے واقعات سنکر فیصلہ یہودی کے حق میں دیا۔ وہ منافق یہودی سے کہنے لگا میں تو عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس چلوں گا اور ان کا ہی فیصلہ منظور کروں گا یہودی بولا عجیب الٹے آدمی ہو۔ کوئی بڑی عدالت سے ہوکر چھوٹی عدالت میں بھی جاتا ہے جب تمھارے پیغمبر(محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ) فیصلہ دے چکے تو اب عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے؟

مگر وہ منافق نہ مانا او ر اس یہودی کو لیکر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فیصلہ طلب کرنے لگا، یہودی بولاجناب پہلے یہ بات سن لیجئے کہ ہم اس سے قبل محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے فیصلہ لے آئے ہیں اور انھوں نے فیصلہ میرے حق میں فرمادیا ہے مگر یہ شخص اس فیصلہ سے مطمئن نہیں اور اب یہاں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس آپہنچا ہے ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے یہ بات سنی تو منافق سے پوچھا کیا یہودی جو کچھ بیا ن کر رہا ہے درست ہے؟منافق نے کہا ہاں سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اس کے حق میں فیصلہ کرچکے ہیں۔ فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اچھا ٹھہرو میں ابھی آیا اور تمھارا فیصلہ کرتا ہوں یہ کہہ کر آ پ اندر تشریف لے گئے اور پھر ایک تلوار لیکر نکلے اور اس منافق کی گردن پر یہ کہتے ہوئے ماری کہ جوحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا فیصلہ نہ مانے اس کا فیصلہ یہ ہے۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا واقعی عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تلوار کسی مومن پر نہیں اٹھتی۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمادی ۔
فَلَاوَرَبِّکَ لَا یُؤْ مِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ
(پ۵،النساء:۶۵)

ترجمہ کنزالایمان:تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں۔
(الدرالمنثور،النساء:۶۵،ج۲،ص۵۸۵)

شمشیر عمر رضی ا ﷲ تعالیٰ عنہ او ر ماموں کا سر: جنگ بدر میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا حقیقی ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ غصے میں بھرا ہوا جنگ کے لیے میدان میں نکلاحضرت فاروق اعظمرضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بڑھ کر مقابلہ کیا۔ اور بھانجے نے ماموں کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ سر کو کاٹتی ہوئے جبڑے تک اتر گئی اور فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قیامت تک کے لئے یہ نظیر قائم کردی کہ قبیلہ اور رشتہ داری سب کچھ محبت رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم پر قربان ہے۔

بیٹے کی تلوار باپ کا سر: ۵ ؁ھ میں بنو المصطلق کی مشہور جنگ ہوئی اس میں ایک مہاجر اور ایک انصاری کی باہم لڑائی ہوگئی معمولی بات تھی مگر بڑھ گئی ہر ایک نے اپنی اپنی قوم سے دوسرے کے خلاف مدد چاہی اور دو فریق ہوگئے۔ قریب تھا کہ آپس میں لڑائی ہوجائے مگر بعض لوگوں نے درمیان میں پڑ کر صلح کرادی۔ عبداﷲ بن ابی منافقوں کا سردار اور مسلمانوں کا سخت مخالف تھا مگر چونکہ اسلام ظاہر کرتا تھا اس لئے اس کے ساتھ خلاف کا برتاؤ نہ کیا جاتا تھا۔ اور یہی اس وقت کے منافقوں کے ساتھ عام برتاؤ کیا جاتا تھا۔ اس کو جب اس قصے کی خبر ہوئی تو اس نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی شان میں گستا خانہ لفظ کہے اور اپنے دوستوں سے خطاب کرکے کہا کہ یہ سب کچھ تمھارا اپنا ہی کیا ہوا ہے۔ تم نے ان لوگوں کو اپنے شہروں میں ٹھکانا دیا اپنے مالوں کو ان کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا اگر تم ان لوگوں کی مدد کرنا چھوڑ دو تو ابھی سب چلے جائیں اور یہ بھی کہا کہ خدا عزوجل کی قسم اگر ہم مدینہ پہنچ گئے تو ہم عزت والے مل کر ان ذلیلوں کو وہاں سے نکال دیں گے۔

حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نو عمر بچے تھے۔ وہاں موجود تھے یہ سنکر تاب نہ لاسکے کہنے لگے خداعزوجل کی قسم! تو ذلیل ہے، تو اپنی قوم میں بھی ترچھی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ تیرا کوئی حمایتی نہیں اور محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم عزت والے ہیں۔ رحمن عزوجل کی طرف سے بھی عزت دیئے گئے ہیں اور اپنی قوم میں بھی عزت والے ہیں عبداﷲ بن ابی نے کہا اچھا چپکا رہ میں تو ویسے ہی مذاق میں کہہ رہا تھا مگر حضرت زیدرضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جاکر حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے نقل کردیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے درخواست بھی کی کہ اس کافر کی گردن اڑادی جائے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے اجازت مرحمت نہ فرمائی ۔ عبداﷲ بن ابی کو جب اس کی خبر ہوئی کہ حضور تک یہ قصہ پہنچ گیا ہے تو حاضر خدمت ہوکر جھوٹی قسمیں کھانے لگاکہ میں نے کوئی ایسا لفظ نہیں کہا ہے۔ زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جھوٹ نقل کردیا ہے۔ انصار کے بھی کچھ لوگ حاضر خدمت تھے۔ انہوں نے بھی سفارش کی کہ یارسول اﷲ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم عبداﷲ قوم کا سردار ہے بڑا آدمی شمار ہوتا ہے کہ ایک بچہ کی بات اس کے مقابلے میں قابل قبول نہیں ممکن ہے کہ سننے میں کچھ غلطی ہوئی ہویا سمجھنے میں۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے اس کا عذر قبول فرمالیا۔

حضرت زیدرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جب اس کی خبر ہوئی کہ اس نے جھوٹی قسموں سے اپنے کو سچا ثابت کردیا اور زید کو جھٹلادیا تو شرم کی وجہ سے باہر نکلنا چھوڑدیا۔ بالآخر سورۂ منافقون نازل ہوئی جس سے حضرت زیدرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سچائی اور عبداﷲ بن ابی کی جھوٹی قسموں کا راز کھل گیا۔ حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وقعت موافق و مخالف سب کی نظروں میں بڑھ گئی اور عبداﷲ بن ابی کا قصہ بھی سب پر ظاہر ہوگیا عبداﷲ بن ابی کے بیٹے کا نام بھی عبداﷲ تھا اور بڑے پکے مسلمان اور سچے عاشق رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم تھے جنگ سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ سے باہر تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور باپ سے کہنے لگے :اس وقت تک مدینہ میں داخل ہونے نہیں دوں گا جب تک تو اس کا اقرار نہ کرے کہ تو ذلیل ہے اور محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم عزیز ہیں۔ اس کو بڑا تعجب ہوا کیونکہ یہ ہمیشہ سے باپ کے ساتھ نیکی کابرتاؤ کرنے والے تھے مگر حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے مقابلے میں باپ کی کوئی عزت و محبت دل میں نہ رہی۔ آخر اس نے مجبور ہوکر اقرار کیا کہ واﷲ میں ذلیل ہوں اور محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم عزیز ہیں اس کے بعد مدینہ میں داخل ہوسکا۔
(السیرۃ النبویۃ،جھجاہ وسنان وما کان من ابن أبی،ج۳،ص۲۴۸۔۲۴۹)

اسی طرح جنگ بدر میں کفار کا سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ جب میدان میں نکلا تو اسکے فرزند حضرت ابو حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تلوار کھینچ کر اس کے مقابلے کو نکلے، مگر رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے اس کو گوارا نہیں فرمایا کہ بیٹے کی تلوار باپ کے خون سے رنگین ہو،اس لئے ابو حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مقابلہ سے ہٹادیئے گئے اور عتبہ بن ربیعہ حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کی تلوار سے قتل ہوا۔

باپ ناپاک بستر پاک : ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا کے والد ابوسفیان صلح حدیبیہ کے زمانے میں مدینہ آئے اپنی بیٹی سے ملنے گئے اور بستر پر بیٹھنے لگے تو بی بی ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے بستر الٹ دیا اور فرمایا کہ یہ اﷲ عزوجل کے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا پاک بستر ہے اور تم مشرک ہونیکی وجہ سے ناپاک ہو اسلئے تم اس بستر نبوت پر نہیں بیٹھ سکتے۔ ابوسفیان کو اس سے بڑا رنج ہوا مگر حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے دل میں جو عظمت و محبت رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمتھی اسکے لحاظ سے وہ کب برداشت کرسکتی تھیں کہ بستر نبوت پر ایک مشرک بیٹھے۔ اﷲ اکبر! حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اپنے باپ کی عظمت و محبت کو محبت رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم پر قربان کردیا کیونکہ یہی ایمان کی شا ن ہے کہ باپ چھوٹتا ہو تو چھوٹ جائے مگر عظمتِ مصطفیصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اور محبت رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکا دامن نہ چھوٹنے پائے۔
(الطبقات الکبری،ام حبیبۃ بنت سفیان رضی اللّٰہ عنہا،ج۸،ص۷۸)
(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 349271 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.