ڈالر کی موت

جمشید خٹک

امریکہ کی معاشی ذبوں حالی اور ڈالر کی گرتی ہوئی ساکھ پر 280 صفحات پر مشتمل ایڈیسن وگن اور مائیکل جے پانزر نے ’’ ڈالر کی موت ‘‘ کے عنوا ن سے ایک کتاب لکھی ہے۔جس کا اُردو ترجمہ حافظ زاہد محمود نے کیا ہے ۔’’ دارالشعور ‘‘ لاہورنے اس کتاب کو شائع کیا ہے ۔اس کتا ب میں امریکہ کے معاشی غرور ڈالر کے روبہ زوال ہونے کے چونکا دینے والے حقائق بیان کیے گئے ہیں ۔امریکی حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق امریکہ کا بیرونی قرضہ 14.71 کھرب ڈالر تک پہنچ گیا ہے ۔اس وقت امریکہ کی کل برآمدات 1.6 کھر ب ڈالر جبکہ درآمدات 2.3 کھر ب ڈالر ہے۔یعنی تجارتی خسارہ 0.7 کھرب ڈالر ہے ۔یہ اس بات کی دلیل ہے ۔کہ ڈالر کی مضبوطی مزید برقرار رکھنا مشکل ہے ۔موجودہ قرضہ 14.71 کھرب ڈالر اتنی بڑی رقم ہے کہ اس قرضے کو اُتارنا رائی کے پہاڑ سے کم نہیں ۔مصنف لکھتا ہے کہ سو سو ڈالر وں کی اگر اُوپر تلے گڈیاں رکھی جائیں تو ایک ملین یعنی دس لاکھ ڈالر ہونے تک ان کی بلندی پانچ فٹ ہو جائے گی ۔جس کا مطلب ہے کہ ایک ارب ڈالروں کی نوٹوں کی بلندی ایک میل کے برابر ہوگی۔اور ایک ٹریلین ڈالروں کا مینار ایک ہزار میل تک چلا جائے گا۔اگر اس کو چودہ سے ضرب دیا جائے یعنی چودہ ٹریلین ڈالروں کی گڈیاں اگر اُوپر تلے رکھی دی جائیں تو وہ چودہ ہزار میل کے برابر ہو جائیں گی ۔اس وقت امریکی معیشت کے بارے میں قارئین کی آگاہی کیلئے کتاب سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔

مصنف نے افغانستان میں موجودہ صورت حال کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں۔ ’’ افغانستان کی تباہی کے بعد امریکہ نے یہ کھیل عراق کے ساتھ کھیلا۔آج دونوں ممالک کے لاکھوں انسان بے پناہ مصائب و مشکلات سے دوچار ہیں ۔وہاں امن وسکون ختم ہو چکا ہے ۔غذائی اجناس کی شدید قلت ہے ۔روز گار کا نام ونشان نہیں۔آئے دن بم دھماکے ہورہے ہیں۔نام نہاد حکومتوں کی عمل داری کہیں نظر نہیں آتی ۔طاقت ور گروپ آزاد ہیں۔لوگ شدید خوف وہراس کی زندگی گزاررہے ہیں ۔یہ سب امریکہ کا کیا دھر ا ہے ۔امریکہ ان ممالک پر حملہ آور نہ ہو تا۔تو یہاں کے عوام سکون کی زندگی بسر کررہے ہوتے ‘‘

’’ افغانستان کی موجودہ صورتحال اتحادی افواج کیلئے ایک مسلسل درد سر بنی ہوئی ہے ۔ادھر امریکہ کے صدر باراک اوبامہ کا کہنا ہے کہ ’’ ہمیں افغانستان میں مکمل فتح کیلئے جنگ جاری رکھنی چاہیے ۔ہمیں اپنے اہداف کے حصول کیلئے اپنے اتحادی اور ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک (پاکستان ) کی بھی پرواہ نہیں کرنی چاہیے ‘‘

’’ کسی بھی ایمپائر کے انحطاط پذیر ہونے کی واضح نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی اس کا اپنے حدود سے تجاوز کرنا ہے ۔یعنی اپنے جغرافیائی ، سیاسی ، معاشی اور عسکری حدود سے ایسا تجاوز کہ اس ریاست کے حکام کا ان پر مکمل حکومتی کنٹرول اور تسلط باقی نہ رہے ۔ سیاسی و تذویراتی اہداف اور معاشی و مالیاتی حقائق کے مابین بھی ایک طرح سے اپنے حدود سے تجاوز ہی کرنا کہلا تاہے ۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی تباہی سے دوچار ہونے والا ہے کیونکہ اس نے بھی اپنے حدود سے تجاوز کا ارتکاب شروع کردیا ہے ‘‘

’’ ڈالر کو عملی طور پر بین الاقوامی کرنسی کی حیثیت حاصل ہے ۔کیونکہ دُنیا کے اکثر سنٹرل بینکوں میں نہ اسے صرف ریزروکرنسی کے طور پر رکھا جاتا ہے ۔بلکہ ڈالر بین الاقوامی سطح پر تبادلے کا ذریعہ بھی ہے ۔ڈالر کی جو عالمی حیثیت ہے ۔وہ کسی بیان کی محتاج نہیں ۔ڈالر کے بغیر امریکہ کی ملٹری کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔دولت اور عسکری قوت ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔اگر عسکری قوت پر صرف ہونے والے اخراجات حد سے تجاوز کر جائیں ۔تو معیشت کمزور پڑ جاتی ہے ۔اور جب معیشت کمزور ہوتی ہے تو لامحالہ اس کے بلاواسطہ عسکری قوت پر بھی مرتب ہوتے ہیں ‘‘

’’ بہت سے ممالک نے جب دیکھا کہ ڈالر کی حالت بہت ہی پتلی ہوتی جارہی ہے اور اس میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے ۔تو اُن ممالک نے ڈالر سے جان چھڑانے کا فیصلہ کردیا ۔سب سے پہلے یورپی ممالک نے یورپین یونین بنا کر یورو کے نام سے اپنی الگ کرنسی وضع کرلی ۔اُس کے بعد متعدد ممالک نے اپنے تجارتی لین دین ڈالر کی بجائے یورو میں شروع کردیے ۔پہلے اکثر ممالک اپنے سنٹرل بینکوں میں ریزرو کے طور پر ڈالروں کے رکھا کرتے تھے ۔مگر اب اُنہوں نے یورو کو بطور ریزرو رکھنا شروع کردیا ہے ۔ایران ، شمالی کوریا، کیوبا اور وینز ویلا جیسے ممالک نے ڈالر کو بالکل خیرباد کہہ دیا ہے ۔وینز ویلا کے آنجہانی صدر ہو گو شاویز نے تیل برآمد کرنے والے ممالک کو تجویز دیاتھا۔کہ وہ تیل کی فروخت ڈالر میں نہ کریں۔علاوہ ازیں قطر جو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی بھی ہے ۔امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ بھی قطر میں ہے ۔وہ بھی ڈالر کے ساتھ اپنا ناطہ توڑنے کے لیے پر تول رہا ہے ۔آئی ۔ ایم ۔ایف کی ایک سروے کے مطابق 1999 میں سنٹرل بینکوں میں 81 فی صد تک ڈالر کو بطور ریزرو کرنسی رکھا جاتا تھا ۔اب محض 51 فی صد کو ریزرو ڈالروں میں رکھا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکی معیشت شدید خطرے میں ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صرف چین اور انڈیا چند سالوں بعد معاشی طور پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ جائیں گے ۔امریکہ کے معاشی سپرپاور رہنے کے دن اب گنے جا چکے ہیں۔ورلڈ بینک ڈیٹا رپورٹ کے مطابق فی الوقت عالمی جی ڈی پی میں امریکی معیشت کا 21 فی صد ہے ۔جبکہ چین کا 12 فی صد اور انڈیا کا 5 فی صد ہے جو کہ مجموعی طورپر 15 فی صد بنتا ہے ۔یعنی ان دونوں ملکوں کا عالمی جی ڈی پی میں حصہ امریکہ سے محض 6 فی صد کم ہے ۔لیکن جس برق رفتاری سے ان ممالک کی معیشت نمو پا رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف 7 سالوں بعد وہ امریکہ پر سبقت لے جائیں گے اور یوں امریکا کی سپر پاور کو بائے بائے کہہ دیا جائے گا۔

’’ امریکی حکومت کی طرف سے جاری کردہ رپورٹوں میں اگر چہ افراط زر اور ڈالر کی قدر میں انحطاط کو انتہائی گھٹاکر بیان کیا جا تا ہے ۔ لیکن حقیقت میں ہمیں ایسے کوئی معاشی اشاریے نظر نہیں آرہے ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہوکہ واقعی ایسی کوئی مثبت پیش رفت ہورہی ہے ۔ہمارا تجارتی خسارہ (Trade Deficit) اس وقت تقریباً ایک ٹریلین کی حد کو چھور ہا ہے ۔اور اس میں کمی ہونے کی بجائے مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے ۔یہ تجارتی خسارہ ہمارے اثاثوں کا تقریباً ڈیڑ ھ فی صد بنتا ہے ۔شاید اسی لئے امریکی اس کی اہمیت کو خاطر میں نہیں لاتے۔لیکن واضح رہے کہ تجارتی خسارے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہم اپنی برآمدات سے درآمدات زیادہ کررہے ہیں ۔یا

ان درآمد ات کی ادائیگی کریڈٹ پر کررہے ہیں۔بلکہ سمندر پار امریکی معیشت کو درپیش تما م مسائل کی جڑ یہی تجارتی خسارہ ہے ۔ ‘‘

کتاب کے آخر میں مصنف امریکہ کے مستقبل کے بارے میں یوں رقمطرا ز ہیں ۔ ’’ جغرافیائی سیاست میں نہ صرف امریکہ کا کردار ختم ہونے والا ہے ۔بلکہ اس کا یوم حساب بھی اب بہت ہی قریب ہے ۔ماضی کے جھروکوں سے بے شمار ایسی شہادتیں ملتی ہیں ۔جو کہ امریکی ایمپائر کے زوال پذیر ہونے کی چغلی کھارہی ہیں۔ایڈورڈ گینز جنہوں نے رومن ایمپائر کا زوال و انحطاط جیسی مشہور زمانہ کتاب لکھی ہے ۔اور پال کینڈی جنہوں نے عظیم طاقتوں کی عروج وزوال کی کہانی لکھی ہے ۔ان تمام جیسے مورخین نے کسی بھی سلطنت یا ایمپائر کے روبہ زوال ہونے کی جو خصوصیات نشانیاں بیان کی ہیں ۔امریکی ریاست میں وہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجودہیں ۔

اُوپر بیان شدہ سطور سے راقم الحروف کا متفق ہونا ضروری نہیں لیکن کتاب سے عوام کی آگاہی کیلئے ان اقتباسات کو پیش کیا فیصلہ حقائق کو سامنے رکھ کر عوام نے کرنا ہے ۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 22681 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.