رجحان ساز ادبی مجلہ :اجرا(کتابی سلسلہ 13جنوری تا مارچ 2013 )

کراچی سے شائع ہونے والے علمی و ادبی مجلے ’’اجرا ‘‘کا ہر شمارہ جس آب و تاب سے افق ادب پر طلوع ہوتا ہے اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔پاکستان کے مایہ ناز ادیب ،مفکر ،دانش ور ،نقاد ،محقق اور صحافی احسن سلیم کی ادارت میں شائع ہونے والے اس ادبی مجلے نے پوری دنیا میں اپنی کا مرانیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں ۔ان کے ساتھ مل کر کام کرنے والے پاکستان کے نامور ادیب ہیں جن کے ذوق سلیم نے اس رجحان ساز ادبی مجلے کو مواد اور معیار کے اعتبار سے رفعتوں سے آشنا کیا ہے ۔مجلس ادارت کے دیگر اہم اراکین میں پروفیسر سلیم بیگ ،پروفیسر رئیس فاطمہ اور پروفیسر فہیم شناس کاظمی شامل ہیں۔جس محنت ،لگن ،فرض شناسی اور علم و ادب سے قلبی لگاؤ اور ووالہانہ وابستگی کا مظاہرہ یہ یگانہء روزگار فاضل کر رہے ہیں اس کے اعجاز سے نہ صرف جمود کا خاتمہ ہوا ہے بل کہ زندگی کی حقیقی معنویت اور حرکت و حرارت کے متعلق حقیقی منظر نامہ قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے ۔تخلیق فن کا جو ارفع معیار اس مجلے میں دکھائی دیتا ہے وہ اسے منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے ۔اجرا کے اب تک تیرہ شمارے شائع ہو چکے ہیں ۔اس مجلے نے فروغ علم و ادب اور قارئین کو مثبت شعور و آگہی سے متمتع کرنے میں جو فقید المثال تاریخی کردار ادا کیا ہے اس میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں ۔اس مجلے میں ادبی تخلیقات اپنے دھنک رنگ منظر سے قارئین کے دلوں کو مسخر کر کے قلب وروح کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہیں ۔احسن سلیم نے بلا شبہ اس مجلے کی اشاعت سے ستاروں کو چھو لیا ہے اور تخلیق ادب کے اس ارفع ترین مقام تک رسائی حاصل کر لی ہے جہاں ادب و صحافت کے شعبوں کے مبتدیوں کی سانس اکھڑ جاتی ہے ۔اس زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار نے تخلیق فن کے مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیا ہے ۔اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر جذبے صادق ہوں تو ایک سچا تخلیق کار خون بن کے رگ سنگ میں اتر جانے کی صلاحیت کو بروئے کار لا سکتا ہے ۔تخلیق ادب کے وسیلے سے معاشرتی زندگی میں مثبت تبدیلی کا خواب دیکھنے والے اس پر اعتماد مدیر نے قارئین ادب کے دلوں کو ایک ولولہء تازہ عطا کیا ہے ۔ادب میں مقصدیت اور اس کے ذریعے تبدیلی کے جو ابتدائی رجحانات 1857کے بعد علی گڑھ تحریک کے زیر اثر سامنے آئے اور جنھیں ’’تہذیب الاخلاق ‘‘میں سر سید احمد خان نے پیش نظر رکھا ’’اجرا ‘‘تک پہنچتے پہنچتے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر چکے ہیں ۔ادبی مجلہ اجرا اپنے دامن میں درخشاں اقدار اور ابد آشنا روایات کے یہی گنج گراں مایہ لیے ہوئے ہے۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ’’اجرا ‘‘نے حریت فکر کا علم تھام کر جس قوت اور حوصلے کے ساتھ سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے،اوہام اور تقلید کے تار عنکبوت صاف کرنے اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا عزم کیا ہے وہ ایک بہت بڑی قومی خدمت ہے ۔جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینے کی راہ دکھانے والے اس ادبی مجلے کی علمی ادبی اور قومی خدمات تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھی جائیں گی۔

آج سے کوئی د س برس قبل کی بات ہے کراچی سے ایک نہایت وقیع ادبی مجلہ ’’ سخن زار‘‘ شائع ہوتا تھا ۔’’سخن زار‘‘ کی اشاعت کو اردو زبان کے ادبی مجلات میں تازہ ہوا کے ایک جھونکے سے تعبیر کیا گیا ۔اردو زبا ن و ادب سے دلچسپی رکھنے والے اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ’’سخن زار ‘‘ احسن سلیم کی ادارت میں شائع ہوتا تھا ۔قارئین ادب کو توقع تھی سخن زار نے ادبی مجلات کی تقلید کے بجائے اپنے لیے جو ایک منفرد اور دلکش راہ منتخب کی ہے وہ اسے افق ادب پر مثل آفتاب و ماہتاب ضو فشاں رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہو گی لیکن یہ امید بر نہ آئی حالات کی سفاکی ،مسموم ماحول اور بعض دشواریوں نے مجلس ادارت کو دل برداشتہ کر دیا اور کچھ عرصے بعد سخن زار کی صورت میں طلوع ہونے والا چاند گہنا گیا اور یہ تاریخ کے طوماروں میں دب گیا۔سخن زار نے قارئین ادب کو افکار تازہ کی مشعل تھا م کر جہان تازہ تک رسائی کی جو راہ دکھائی تھی اس کے معجز نما اثر سے فکر و نظر میں ایک انقلاب آ گیا ۔سنجیدہ اور باذوق قارئین ادب نے ’’سخن زار ‘‘ کی کمی کو شدت سے محسوس کیا اور اس مجلے سے وابستہ ادیبوں کو اس جانب مائل کیا کہ وہ جس طرح بھی ممکن ہو صحت مند اقدار و روایات کی ترویج و اشاعت کو یقینی بنانے کی خاطر ایک رجحان ساز ادبی مجلے کی باقاعدہ اشاعت پر توجہ مرکوز کر دیں۔احسن سلیم نے قارئین ادب کے مطا لعہ کی تشنگی اور ان کی حالت زار کو شدت سے محسوس کیا اور ان کے ذوق سلیم کی تسکین کی خاطر ’’اجرا ‘‘ کی صورت میں ایک نئے ادبی مجلے کی اشاعت کو اپنا نصب العین بنایا ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ احسن سلیم کی مستعد ،فعال اور انقلابی شخصیت نے اب’’ اجر ا ‘‘کی صورت میں اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کر دیا ہے اور پرورش لوح و قلم کا سلسلہ جاری ہے ۔فکر و خیال کا دھنک رنگ منظر نامہ ، میرٹ اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ادبی تخلیقات کی اشاعت ،ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے بے لوث انداز میں پرورش لوح و قلم ،تخلیق ادب کے نئے انداز ،رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تما م استعارے ااور بلند پایہ تخلیقی فن پارں کی مسحور کن مہک جو کہ قریہء جاں کو معطر کر دیتی ہے تخلیق ادب کے متنوع اور نئے تجربات یہ سب کچھ احسن سلیم کی محنت کا ثمر ہے ۔وہ کہیں بھی ہوں ان کی فعالیت کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے ۔ان کی جو ہر شناس نگاہ قطرے میں دجلہ اور جز و میں کل کا منظر دکھا کر قارئین ادب کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔اجر اکی اشاعت سے طلوع صبح بہاراں کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔اس مجلے میں شامل تخلیقات قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر کر اپنی اثر آفرینی کا لوہا منوا لیتی ہیں ۔

اجر ا کی سبد گل چیں پر ایک نگاہ ڈالتے ہی قاری تخلیقات کے گل ہائے رنگ رنگ کی عطر بیزیوں اور نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی ضو فشانیوں کے سحر میں کھو جاتا ہے ۔آئیے اس دھنک پر ایک نظر ڈالیں جو اس رجحان ساز تاریخی مجلے کے ماتھے کا جھو مر ہے ۔تہذیب کے عنوان سے مجلس ادارت نے اٹھارہ مختلف عنوانات کے تحت ادب کا جو گلدستہ سجایا ہے اس میں ہر پھول اپنی لطافت ،مہک اور رنگینی کی داد چاہتا ہے۔آئیے تہذیب کے اس دلکش گلدستے کی مہک کو محسوس کریں ۔یہ عنوانات پڑھ کر فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ان عنوانات کا انتخاب ایک زیرک ،فطین اور معاملہ فہم مدیر کے ذوق سلیم کا مظہر ہے ۔یہ عنوانات ہیں خیابان خیال ،نشاط باریابی ،موضوع سخن ،انٹر ویو،فلک آثار ،نثری نظمیں ،مشرق و مغرب ،سفر نامے ،سخن سخن ۔۱،نافہء نایاب ،داستان سرا ،سخن سخن ۲،خرد افروزیاں ،سخن سخن ۳،دل آویزیاں ،سنجو گتا / ابر پارے ،وسعت بیاں اور زبان خلق ۔

خیابان خیال میں مدیر نے اپنے ادارتی کلمات میں نہایت اہم امور کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے ۔ادب برائے تبدیلی کے موضوع پر ان کے خیالات کو قارئین ادب کی جانب سے جو پذیرائی ملی اس پر انھوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔تبدیلی اپنی اصلیت کے اعتبار سے آئین نو ہے جو یاس و ہراس کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکتی ہے اور ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی نوید سنا کر دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے کی داعی ہے ۔تبدیلی ہی نجات دیدہ و دل کی ساعت کی نقیب ہے ۔تخلیق ادب کے محرکات ،مطالعہء ادب کی افادیت او ادب کے معاشرتی زندگی پر منتج ہونے والے اثرات پر مدیر نے نہایت موثر انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔مدیر نے ’’تعزیت ‘‘کے عنوان سے بزم ادب سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جانے والوں کو یاد کیاہے ۔اپنی محفل کے ان رفتگاں کو یاد کرکے قارئین ادب اپنے دلوں کو ان کی یاد اور دائمی مفارقت کے درد سے آباد رکھنے کی سعی کرتے ہیں ۔کیسے کیسے عظیم لوگ راہ جہاں سے چپکے سے گزر گئے ْ۔زندگی کی سونی اور اداس راہوں پر ہم سکوت کے صحرا میں ان کے غم سے نڈھال ہیں اور ہر راہ گزر پر ان کے نقش قدم دیکھ کر زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔سیل زماں کے تھپیڑے سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں ۔وہ صورتیں اب کہاں بستی ہیں جن کو دیکھنے کو ہماری آنکھیں ترستی ہیں۔ادب اور فنون لطیفہ کے جوآسمان پیوند خاک ہوئے ان میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی،سید امین اشرف ،ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ،طارق محمود طارق،محترمہ شبنم شکیل ،امیر الاسلام ہاشمی ،پروفیسر سید سبط جعفر ،اسرار حسین (شاکی )یاد صدیقی ،خالد احمد ،صالحہ فریدی اور مقبول مغنیہ مہناز بیگم شامل ہیں ۔مدیر نے ان کے بارے میں اپنے جذبات حزین کا اظہار کرتے ہوئے ان کی رحلت کو ایک بہت بڑے نقصان سے تعبیرکیا ہے ۔بلا شبہ یہ سب لوگ ہمارا بیش بہا اثاثہ تھے ان کا ہماری محفل سے اٹھ جانابہت بڑا سانحہ ہے ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

نشاط باریابی کے عنوان سے اس مجلے میں حمد ،نعت،سلام اور منقبت شامل ہیں۔اجرا کے شمارہ 13میں پانچ شعرا کا کلام اس حصے میں شامل ہے ۔یہ گل ہائے عقیدت پڑھ کر قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔موضوع سخن میں نظریاتی مباحث پر مبنی فکر پرور اور خیال افروز مضامیں شامل ہیں ۔ان میں ادب برائے تبدیلی پر مباحث ،مسائل و تصورات کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔اس شمارے میں پانچ اہم مضامیں شامل ہیں ۔موضوع سخن میں ان مضمون نگاروں نے اپنے خیالات کابر ملااظہار کیا ہے ۔یہ تحریریں اپنے موثر ابلاغ کی بہ دولت مجلے کے حسن کو چا چاند لگ رہی ہیں ۔اس بار مرزا اطہر بیگ کا انٹرویو شامل اشاعت ہے جسے اقبال خورشید نے جام جہاں نما بنا دیا ہے ۔مرزا اطہر بیگ کی ہفت اختر شخصیت کی تفہیم میں یہ انٹرویو بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔اقبال خورشید نے نہایت مہارت سے اپنے سوالات کی مدد سے ایک عہد آفریں تخلیق کار کی زندگی اور فن کے بارے میں اہم معلومات قارئین کے استفادے کے لیے پیش کی ہیں ۔یہ ملاقات اس قدر جامع ہے کہ کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا اور تمام ضروری باتیں اور معلومات محفوظ کر لی گئی ہیں ۔مرزا اطہر بیگ کی شخصیت اور اسلوب پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ایک مستند اولین تحقیقی ماخذ میسر آ گیا اور یہ اجرا کی بہت بڑی ادبی خدمت ہے ۔فلک آثار کے عنوان سے اس شمارے میں پچیس شعرا کی نظمیں شامل اشاعت ہیں۔اس کے علاوہ تین نثری نظمیں بھی مجلے کی زینت بنی ہیں ۔تراجم پر مبنی حصہ ’’مشرق و مغرب ‘‘بہت دلچسپ ہے ۔اس میں دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی سعی کی گئی ہے ۔ تراجم کے وسیلے سے اجرا نے اردو زبان کی ثروت میں بے پنا ہ اضافہ کیا ہے ۔مجلس ادارت کی دلی تمنا ہے کہ عالمی کلاسیک کے تراجم کے ذریعے اردو کا دامن نئے انداز فکر ،اظہار و ابلاغ کے نئے امکانات اور حسن بیان اور لطافت اظہار کے منفرد روپ سامنے لا کر اردو زبان کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کی صف میں ممتا ز مقام دلایا جاسکے ۔ مغرب کے دس ممتاز ادیبوں کے مشہور ادب پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھال کر اس مجلے میں شامل کیا گیا ہے ۔اس مرتبہ ول ڈیوراں ،ہنری تھوریو،انتھونی بر کلے ،کلمان زاتھ ماریو ورگاس یو سا ،ایڈ گر ایلن پو اور او ہنری کی تخلیقات کے تراجم شامل ہیں ۔پاکستان کی علاقائی زبانوں کی تخلیقات کے تراجم کو بھی اجرا میں شامل کیا گیا ہے ۔اس شمارے میں پنجابی افسانے ،ہندکو افسانے اور سندھی افسانے کے تراجم شامل اشاعت ہیں ۔ترجمہ نگاروں نے اپنے کمال فن سے ان تخلیقات کے تراجم میں تخلیق کی چاشنی پیدا کر دی ہے ۔ ان تراجم کے ذریعے قاری اس تخلیق کے اصل مصنف کی روح سے ہم کلام ہو سکتا ہے جو اپنا ما فی الضمیر بر ملا بیان کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتی ۔مشرق اور مغرب میں افسانوی ادب کے ارتقا کو سمجھنے کے لیے ان تراجم کا مطالعہ بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔دنیا کی ہر شے مسافر ہے اور ہر چیز راہی سمجھی جاتی ہے ۔ سفر کی روداد بیان کر کے تخلیق کار اپنے قارئین کو اپنے نئے تجربات اور مزاج کے تغیرات سے آگاہ کرتا ہے ۔ان سفر ناموں میں جذب و قبول کی جو دلکش فضا ہے وہ قاری کے لیے انوکھے تجربے کی حیثیت رکھتی ہے ۔سفر نامہ نگاروں نے اپنے منفرد اسلوب کے ذریعے قارئین کو اپنی ذات کے بارے میں تمام معلومات فراہم کر دی ہیں ۔خواجہ حیدر علی آتش نے کہا تھا:
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

اجرا کے حالیہ شمارے میں دو سفر ناموں کی اقساط شامل ہیں ۔ہندوستان کی سیر اور مشرق کا سفر یہ دونوں سفر نامے بہت دلچسپ ہیں ۔سفر نامہ لکھنے والوں نے اپنے وسیع مشاہدے اور جزئیات نگاری سے مسحور کر دیا ۔قاری چشم تصور سے وہ تمام مقامات دیکھ لیتا ہے جن کا احوال ان دونوں سفرناموں میں بیان کیا گیا ہے ۔سخن سخن ۔۱۔میں اٹھارہ شعرا کی غزلیں شامل ہیں ۔سخن سخن ۔۲۔میں گیارہ شعراکی غزلیں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں ۔سخن سخن ۔۳۔میں بائیس شعرا کی غزلیات اجرا کی زینت بنی ہیں ۔تین حصوں پر مشتمل غزلیات کا یہ حصہ اس قدر بھرپور ہے کہ اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔اس کی رنگینی ،دل کشی اور دل آویزی سے قاری کواپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔سخن سخن کو اجرا کا ایک مقبول اور مفید حصہ سمجھا جاتا ہے ۔اس میں اردو غزل کے نئے رجحانات اور غزل کے جملہ تخلیقی عمل اور اس کے پس پردہ کار فرما لاشعوری محرکات کی تفہیم میں مدد ملتی ہے ۔سخن سخن کے ان تین حصون کے مجموعی مطالعہ کے بعد یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اردو ادب میں صنف غزل کی تخلیق پر اب بھی بھر پور توجہ دی جا رہی ہے اور اس صنف کا مستقبل بڑا روشن ہے ۔یہ تما م غزلیات قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہیں ۔

نافہء نا یاب کے عنوان سے اجرا میں یادیں،خاکے اور مضامین شامل کیے گئے ہیں ۔اجرا نے ان نابغہء روزگار ہستیوں کو نایاب قرار دیا ہے ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہماری محفل کے یہ آفتاب اور ماہتاب ہمیشہ روشنی کے سفر میں رہیں گے اور ان کے علمی ادبی اور فنی کمالات اندھیروں کی دسترس سے ہمیشہ دور رہیں گے ۔زمانہ لاکھ ترقی کرے ان کی مثال کبھی پیش نہیں کر سکتا ۔وہ لوگ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے جب مستقل طور پر آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو ان کی یاد میں ہر لمحہ آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں۔

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نا یاب ہیں ہم تعبیر ہے جس کی حسرت وغم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

اجرا کے شمارہ 13میں نافہء نایاب کے تحت مرزا اسداﷲ خان غالب ،شان الحق حقی سعادت حسن منٹو ،ڈاکٹر محمد علی صدیقی اور شبنم شکیل پر نہایت وقیع مضامین شامل اشاعت ہیں ۔قرۃالعین حیدر اور پروین شاکر کے بیچ رنجش کے موضوع پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے ۔اس مضمون کے مطالعہ کے دوران کئی بار آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں ۔تقدیر کا ستم یہ ہے کہ وہ قدم قدم پر انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا دیتی ہے ۔فلک کی گردش کسی کو چین ہی نہیں لینے دیتی ۔دونوں روٹھنے والے اب وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں ان کی غلط فہمی دور کرنے والا کوئی نہیں۔ہماری زندگی موج نسیم کے ما نند ہے مختصر عرصے کے لیے آئی اور پھر پتا ہی نہیں چلتا کہ حقائق خیال و خواب کیسے ہو گئے ۔تاریخ اوراس کے مسلسل عمل کے بارے میں اس حصے میں ایک اہم مضمون ’’صحابہ کرام ؓوادی پشاور یا بلو چستان میں ‘‘ نافہ ء نایاب میں شامل ہے ۔آفتاب اسلام کی ضیاپاشیوں سے پورا بر صغیر منور ہو گیا ۔یہ مضمون تاریخی حقائق کا مظہر ہے ۔

’’داستان سرا ‘‘ کے عنوان کے تحت اجرا میں اس بار سترہ افسانے شامل کیے گئے ہیں ۔پاکستان ،بھار ت اور دنیا بھر سے ممتاز اردو افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانے اس حصے کو معیار اور وقار کی رفعت سے ہم کنار کر رہے ہیں۔اردو افسانے میں حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کی روایت کو پروان چڑھانے میں اجرا کا کردار تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔خرد افروزیاں کے عنوان سے اجرا نے تنقید ،تحقیق اور تجزیاتی مطالعے پر مبنی تحریریں شامل اشاعت ہیں ۔خرد افروزیاں میں سات مضامین کو جگہ ملی ہے ۔یہ سب کے سب مضامین تنقید اور تحقیق کا اعلا معیار پیش کرتے ہیں ۔قارئین ادب کے لیے صحت مند تنقید اور تحقیق کا اہتمام کر کے اجرا نے ایک مستحسن کام کیا ہے۔مزاح زندگی کی نا ہمواریوں کے ہمدردانہ شعور کے وسیلے سے منصہ ء شہود پر لاتا ہے ۔مزاح نگار اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا کر پیش کرتا ہے ۔اجرا نے’’ دل آویزیاں‘‘ کے عنوان سے طنزو مزاح پر مبنی چار شگفتہ تحریریں نذر قارئین کی ہیں ۔اس حصے میں نظم اور نثر پر مبنی شگفتہ تحریروں کے مطالعہ سے قاری کے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے ۔اس حصے میں جن مزاح نگاروں کی تخلیقات شامل ہیں ان کی گل افشانیء گفتار سے محفل کشت زعفران بن گئی ہے۔تخلیق کاروں نے معاشرتی زندگی کے بے ہنگم ارتعاشات ،تضادات اور نا ہمواریاں مزاح کے مواد کے طور پر استعمال کی ہیں ۔انسانی فطرت میں متعدد خامیاں اور کم زوریاں پائی جاتی ہیں ان مزاح نگاروں نے ان کے بارے میں ہمدردانہ شعور کو فن کارانہ انداز میں اجاگر کیا ہے ۔زبان و بیان کا حسن اور شگفتگی قاری کے حواس اور احساس پر فرحت اور شادمانی کی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔سنجو گتا /ابر پارے میں گیت ،قطعات اور رباعیات شامل کی گئی ہیں ۔اس شمارے میں تین شعرا کا کلام شامل اشاعت ہے۔ان شعری تخلیقات میں فکر و نظر اور بصیرت و شعور کو صحت مند اقدار سے متعارف کرایا گیا ہے ۔عظمت اﷲ خان سے لے کر رام ریاض تک اردو میں گیت نگاری کو ہر دور میں مقبولیت حاصل رہی ہے ۔فکر انسانی کی صحت اور نمو کے لیے شعر وا دب کا کردار ہر دور میں مسلمہ رہا ہے ۔اجرا نے زندگی کی بو قلمونی ،تنوع تاب و تواں اور ارتقا پر ہمیشہ بھرپور توجہ دی ہے ۔اجرا کاایک اور اہم حصہ ’’وسعت بیاں‘‘کی صورت میں قاری کو متوجہ کرتا ہے ۔اس حصے میں کتابوں پر تبصرے اور مطالعہ احوال پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔وسعت بیاں میں شامل آٹھ مضامین اپنے اپنے موضوعات کے بارے میں ٹھوس تجزیاتی انداز کے آئینہ دار ہیں ۔آخر میں ’’ زبان خلق‘‘کوجگہ دی گئی ۔اس حصے میں قارئین کے خطوط کو من و عن شائع کرکے اجرا نے آزادیء اظہار کی درخشاں روایت کو پروان چڑھایا ہے ۔ ’’ زبان خلق ‘‘ میں گیارہ قارئین کے خطوط شائع ہوئے ہیں ۔یہ خطوط اپنی جگہ پر ایک مستقل نوعیت رکھتے ہیں ۔ان خطوط میں اجرا کے قارئین نے اپنی بے لاگ رائے دے کر ادبی تخلیقات کے مقام کا تعین کیا ہے ۔زبان خلق میں دنیا بھر سے ادب کے سنجیدہ قارئین نے اپنی رائے مجلس ادارت کو ارسال کی ۔ان خطوط کے مطالعہ کے بعد قاری کو ادب ،تخلیق ادب اور اس کے معاشرتی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہمارا معاشرتی نظام ایک بحرانی دور سے گزر رہاہے ۔اس بحرانی دور کے مسموم اثرات کے باعث ہماری تہذیبی ،ثقافتی اور علمی اودبی اقدار و روایات کو شدید ضعف پہنچا ہے ۔سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ ہماری تہذیبی اکائی مسلسل شکست و ریخت کی زد میں ہے ۔زندگی کی برق رفتاریوں نے حالات کی کایا پلٹ دی ہے ۔اظہار و ابلاغ کے قدیم اسالیب کو اب لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا ۔مکاتیب کی جگہ sms،اور ای ۔میل نے لے لی ہے ۔ باہمی مکالمے کی جگہ انٹر نیٹ پر ویب کیم کی گفتگو زیادہ مستعمل ہے ۔انٹر نیٹ کی وجہ سے اب مطالعہ کا رجحان بھی کم ہوتا چلا جا رہا ہے اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ انداز فکر اور طرز احساس میں جس سرعت کے ساتھ تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ان کو دیکھ کر عام انسان محو حیرت ہے کہ یہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ۔قدیم انداز فکر پر مبنی اسالیب میں اس قدر وسعت نہیں کہ وہ جدید طرز احساس ،نئے تجربات ،زندگی کے نئے امکانات اور فرد کے فکری میلانات کا احاطہ کر کے انھیں پیرایہء اظہار عطا کر سکے ۔اجرا نے اس امر کی بھر پور کوشش کی ہے کہ عالمی ادب کے نئے رجحانات سے اردو زبان کے قارئین کو باخبر رکھا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ اجرا کے صفحات پر تخلیق ادب کی نئی روایات اور بدلتی ہوئی اقدار کو نمایاں جگہ دی گئی ہے ۔ اجرا کی یہ روش اسے اپنے معاصر ادبی مجلات میں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتی ہے ۔

ادبی مجلہ اجرا گلشن ادب میں پیام نو بہار لایا ہے ۔ادب کے ذریعے تبدیلی کا تصور پیش کر کے اجرا نے قارئین ادب کے فکر و نظر کو مہمیز کیا ہے ۔قارئین ادب میں حوصلے اور اعتمادکے ساتھ آگے بڑھنے کا ولولہء تازہ پیدا کرکے اجرا نے لا ئق صد رشک و تحسین کارنامہ انجام دیا ہے ۔تخلیق فن کے ذریعے نئے حقائق اور نئے امکانات تک رسائی کا جو تصور اجرا نے پیش کیا ہے وہ اسے اپنے عہد میں منفرد اور ممتازمقام عطا کرتا ہے ۔مایوسی اور اضمحلال کی مسموم فضا میں آرزو اور امید کی شمع فروزاں رکھنا اجرا کا نمایا ں ترین وصف ہے ۔اجرا میں شامل تحریریں قارئین ادب کو محض ذہنی سکون فراہم نہیں کرتین بل کہ اجرا کی مجلس ادارت کے پیش نظر ایک ارفع مقصد یہ ہے کہ قارئین ادب کو اندگی کی حقیقی معنویت سے آگاہ رکھا جائے تا کہ ادب کے وسیلے سے قارئین کو انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا درس دیا جا سکے ۔اس مجلے کا مقصدقارئین کو بہتر انسان بنانا ہے ۔جس خلوس ،درد مندی اور قلبی وابستگی کو رو بہ عمل لا کر اجرا کی انتظامیہ سوئے منزل رواں دواں ہے اس کے اعجاز سے حریت فکر کا علم بلند رہے گا اور عظمت انساں کے ترانوں سے فضا گونج اٹھے گی ۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan : 277 Articles with 612751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.