بجواب: حضرت معاویہؓ اور قدیم
مؤرخین و محدثین، ڈاکٹرسیدرضوان علی ندوی
شائع کردہ روزنامہ امت، کراچی مؤرخہ 8,7 جولائی،2013ء
روزنامہ امت، کراچی کے 7اور8جولائی،2013ء کے ادارتی صفحہ پر کسی ڈاکٹر سید
رضوان علی ندوی نے اپنے مضمون ’’حضرت معاویہؓ اور قدیم مؤرخین و محدثین‘‘
میں انتہائی غیر مستند و من گھڑت روایات کی کھوکھلی بیساکھیوں کا سہارا
لیتے اور اپنی ذہنی و قلبی اور نظریاتی و فکری کثافتوں کو طشت از بام کرتے
ہوئے سادہ لوح مسلمان عوام کو حقائق سے مزید بے خبر رکھنے کی مذموم کوشش
میں امیرالمؤمنین سیدنامعاویہ رضی اﷲ عنہ پر ایسے ہی اعتراضات کیے ہیں جیسا
کہ کوئی ’’سبائی/مجلسی ذاکر‘‘ اپنے بغض صحابہ سے لبریز ذہن و نظریہ کا
اظہار کرتا ہے۔ یہ مضمون ، صاحب مضمون نے اسی اخبار میں 2-3 جون،2013ء کو
شائع ہونے والے ’’سیدنا امیر معاویہؓ ‘‘ نامی مضمون کے جواب میں بحالت طیش
لکھا ہے اسی لیے اپنے مضمون کی شروعات ہی ڈاکٹر موصوف نے
’’سیدناامیرمعاویہؓ ‘‘ نامی مضمون کے مصنف کی ذات پر اعتراضات کے ساتھ کی
ہیں ۔ جب کہ ادارہ امت نے بھی ڈاکٹر موصوف کے اس مضمون کے ساتھ اپنا نوٹ
بھی شائع کر دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر موصوف کے روزنامہ امت میں
کچھ فیصد حصص ہیں۔ ادارہ امت نے ڈاکٹر موصوف کی تعریف و توصیف اور تائید و
حمایت کے پل باندھتے ہوئے انہیں عربی زبان اور دیگر علوم میں اتھارٹی کا
درجہ دیا، تاریخ کا استاد ظاہر کیا اور اپنے بے بنیاد فلسفہ کا اظہار بھی
کیا کہ پاکستان میں شاید ہی ڈاکٹر موصوف سے زیادہ مستند کوئی عالم ہو۔ ساتھ
ہی ادارہ امت نے یہ پیشکش بھی کر دی ہے کہ زیربحث موضوع پر اگر کوئی اور
صاحب بھی تحریر کرنا چاہیں تو امت کے صفحات حاضر ہیں مگر انتہائی کوشش کے
باوجود اور ادارہ امت تک اپنا اس ضمن میں تحریر کردہ مضمون پہنچانے کے بعد
بھی ادارہ امت نے ہمارا مضمون نہیں شائع کیا جو کہ واضح طور پر ظاہر کرتا
ہے کہ اداراہ امت میں چند ایسے افراد موجود ہیں جن کے سینوں میں بغض صحابہ
سے لبریز پتھر نما دل دھڑکتے، ان کے منہ میں دشمنان صحابہ کی زبان اور دماغ
میں اسلام دشمنی پر مبنی سوچ اور فکر موجود ہے۔ یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ
ادارہ امت نے رضوان ندوی کے مضمون کے ساتھ دیے گئے اپنے نوٹ میں یہ بھی
لکھا کہ یہ کوئی عقائد یہ فقہ کا مسئلہ نہیں ۔ تیرہویں چودہویں صدی کے ایک
نام نہاد عالم کے افکار و نظریا ت پر بحث کرنا عقائد و فقہ کا مسئلہ ہر گز
نہیں مگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیارے صحابہؓ اور معیار ایمان حضرات
صحابہ کرام رضوان اﷲ علہیم اجمعین میں سے کسی ایک کی ذات پر بھی اپنی ذہنی
و قلبی اور نظریاتی و فکری پراگندگی کا اظہار کرنا عقائد کا مسئلہ ہے۔
شرعی احکام و اصول اور قواعد و ضوابط کے بنیادی طور پر دو بڑے ماخذ قرآن و
سنت ہیں۔ جب کہ تاریخ کی کوئی بھی روایت نہ تو قرآن و سنت کی تصریحات و
تشریحات کا مقابلہ کر سکتی ہے اور نہ ہی قرآن و سنت کے مسلمات کے خلاف بطور
دلیل پیش کی جا سکتی ہے۔ تاریخی روایت بلکہ حدیث کی روایت بھی اگر قرآن و
سنت کے خلاف ہو تو وہ بھی قابل قبول نہیں، چاہے کسی نے بھی روایت کی ہو۔
ڈاکٹر موصوف کے مبلغ علم کا اندازہ ان کے مضمون کے عنوان’’حضرت معاویہؓ اور
قدیم مؤرخین و محدثین‘‘ سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں وہ حدیث پر تاریخ
کو ترجیح دیتے ہوئے پہلے’’مؤرخین‘‘ اور پھر ’’محدثین‘‘کا لفظ تحریر کرتے
ہیں۔ خیر ہم ڈاکٹر موصوف کی طرح ذاتیات پر جرح نہیں کریں گے بلکہ
امیرالمؤمنین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی ذات والا صفات پر تاریخ کی تاریک
و سیاہ اور غلاظت و کثافت سے لبریز ٹوکریوں سے گند اٹھا اٹھا کر جو
اعتراضات انہوں نے کیے ہیں صرف انہی پر بحث کریں گے تاکہ اظہار حقیقت اور
احقاق حق کے ساتھ ساتھ ابطال باطل بھی ہو سکے۔
لہٰذا پہلے عظمت صحابہ پر مختصراً عرض ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں
متعدد مرتبہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا ذکر خیر فرمایا ہے۔ اور
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے درمیان فرق مراتب کو بھی بیان کیا مگر ساتھ ہی
فرما دیا وکلاوعداﷲ الحسنیٰ (سورۂ حدید10)یعنی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں
درجہ کے لحاظ سے عظمت و شان کے مراتب میں فرق تو ہے مگر اس فرق مراتب کے
باوجود اﷲ نے سب سے حسنیٰ (جنت) کا وعدہ کیا ہے۔ پھر سورۂ انبیاء کی آیت101
میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ان الذین سبقت لہم منا الحسنی اولئک عنہا مبعدون
یعنی بے شک وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے حسنیٰ (جنت)آ چکی ہے وہ اس
(جہنم)سے دور رکھے جائیں گے۔غور فرمائیے کہ اﷲ تعالیٰ سب صحابہ کرام رضوان
اﷲ علیہم اجمعین کے لیے جنت کا وعدہ فرماچکے ہیں اور اعلان بھی فرما دیا کہ
یہ جہنم کے قریب بھی نہ لے جائے جائیں گے۔ اسی طر ح صحابہ کرام رضوان اﷲ
علیہم اجمعین کے لیے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رضی اﷲ عنہم و رضوا عنہ (سورۂ
بیّنہ)کا ابدی و امتیازی اور لازوال سرٹیفیکیٹ بھی جاری فرما دیا گیا کہ
انبیاء علیہم السلام کے بعد صحابہ رضی اﷲ عنہم کے لیے دنیا میں ہی اﷲ
تعالیٰ اپنی رضا کا اعلان فرما رہے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی اعلان
فرمایا کہ صحابہ بھی اپنے رب سے راضی ہیں۔ مزید یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے سورۂ
بقرہ کی آیت 137 میں فان امنوا بمثل ماامنتم بہ فقد اہتدوا و ان تولوا
فانما ہم فی شقاق (اگر وہ ایمان اس طرح لائیں جس طرح تم (صحابہؓ) لائے ہو
تو بے شک وہ ہدایت یافتہ ہوئے اور اگر وہ منہ موڑیں تو وہ اختلاف میں پڑے
ہوئے ہیں) فرما کر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو معیار ایمان بھی قرار دے دیا۔
امت مسلمہ کا متفقہ و اجماعی مسئلہ ہے کہ تمام صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم
اجمعین عادل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین و ماہرین فن رجال کے ہاں یہ مسلّمہ
ضابطہ و قاعدہ ہے کہ کسی بھی روایت حدیث راویوں کے حالات زندگی و عادات و
اطوار پر تو بحث و تمحیص اور جرح و تنقید تو کی جائے گی مگر جب راوی شرف
صحابیت سے سرفراز ہوا تو پھر یہ ضابطہ قابل اتباع نہ رہے گا۔ یعنی معیت و
تربیت اور نسبت و قربت محمد مصطفی ﷺ کا احترام کرنا ہر مسلمان کے لیے ازحد
ضروری بلکہ ایمان و اسلام کی سلامتی کے لیے لازم ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کے مبارک زمانہ میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ سمیت دیگر صحابہ
کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی تھے اور اسی زمانہ میں ابو جہل،
عتبہ، عتیبہ، شیبہ وغیرہ دشمنان اسلام بھی تھے، مگر آج ہر مسلمان اسماء
صحابہ پر ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ کے قرآنی الفاظ ضرور بولتا ہے جب کہ ابو جہل وغیرہ
کے لیے ایسے کوئی الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے۔ وجہ یہی ہے کہ اول الذکر
طبقہ یعنی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اپنا سب کچھ دعوت پیغمبرﷺ پر نچھاور
فرما دیا اور آقا ﷺ کی ہر پکار پر لبیک کہا جبکہ مؤخرالذکر طبقہ نے رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہمیشہ مخاصمت و مخالفت کا معاندانہ انداز اختیار
فرمایا۔ یعنی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی عزت و عظمت اور احترام و تکریم محض
شان رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بدولت ہے اور اسی طرح ابو جہل وغیرہ سے
نفرت کی وجہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ابو جہل وغیرہ کا ایذا و ضرر
پہنچانا اور آپﷺ سے دشمنی روا رکھنا ہے۔ اسی لیے ترمذی جلد2، ص255 اور
مشکوٰۃ ص554 پر موجود حدیث مبارکہ میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی
اﷲ عنہم کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے نطق رسالت سے یہ الفاظ ارشاد
فرماتے ہیں فمن احبہم فبحبی احبہم و من ابغضہم فببغضی ابغضہم کہ جس نے
صحابہ سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان(صحابہ) سے محبت کی اور جس
نے صحابہ سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے صحابہ سے بغض رکھا۔ غور
فرمائیے کہ نبی علیہ السلام کے ان مبارک الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ
رضی اﷲ عنہم سے محبت کرنے کی اصل وجہ نبی علیہ السلام سے محبت کرنا اور
صحابہ رضی اﷲ عنہم سے بغض رکھنے کی اصل وجہ نبی علیہ السلام سے بغض رکھنا
ہے۔
امیرالمؤمنین معاویہ رضی اﷲ عنہ بھی قرآنی صفات سے متصف اور جنت کی بشارتوں
کی حامل جماعت ’’صحابہ کرام‘‘ کے ایک فرد ہیں۔ نطق رسالت سے صحابہ کرام
رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے لیے جو فضائل و مناقب و محامد بیان ہوئے، ان سب
کا مصداق دیگر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے ساتھ ساتھ امیرالمؤمنین
معاویہ رضی اﷲ عنہ بھی ہیں۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے 6 ہجری میں اسلام قبول
فرمایا۔ آپ رضی اﷲ عنہ کاتبان وحی کی مبارک جماعت میں بھی ممتاز مقام کے
حامل ہیں۔ کاتبان وحی کی عظمت و رفعت اور مدح و منقبت کے لیے قرآن کی سورۂ
عبس کی یہی آیات کافی ہیں فی صحف مکرمۃ مرفوعۃ مطہرۃ بایدی سفرۃ کرام بررۃ
یعنی ’’لکھا ہے عزت کے ورقوں میں، اونچے رکھے ہوئے(رفعت و عظمت والے)،
نہایت ستھرے، ہاتھوں میں لکھنے والوں کے جو بڑے درجہ کے نیک کار ہیں‘‘۔
امیرالمؤمنین معاویہ رضی اﷲ عنہ نبی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ سیدہ ام
حبیبہ رضی اﷲ عنہا کے بھائی یعنی نبی علیہ السلام کے برادر نسبتی ہیں۔
امیرالمؤمنین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سفر و حضر میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم
کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک دفعہ سیدنا ابو ہریرہ رضی
اﷲ عنہ بیمار ہو گئے تو نبی علیہ السلام کے وضو کے پانی کا برتن جسے
’’اداوۃ‘‘ کہتے ہیں، سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے پاس ہی تھا اور اسی سے وہ
نبی علیہ السلام کو وضو کروا رہے تھے کہ آپ ﷺ نے دوران وضو ایک دو دفعہ سر
مبارک اٹھا کر سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے چہرہ انور کی طرف دیکھا اور
فرمایااے معاویہ! اگر آپ کو امارت و خلافت ملے تو تقویٰ اختیار کرنا اور
انصاف کرنا۔امام النوویؒ تہذیب الاسماء و الغات میں رقم طراز ہیں کہ سیدنا
معاویہؓ سے رسول اﷲﷺ کی 163احادیث مروی ہیں۔ تحدیث نعمت کے طور پر عرض ہے
کہ راقم نے ’’مقام امیرمعاویہؓ و مرویات امیرمعاویہؓ ‘‘ کے عنوان سے تالیف
کردہ اپنی ایک کتاب میں سیدنا معاویہؓ کی رسول اﷲﷺ سے براہ راست روایت کردہ
تمام(163) احادیث یکجا کی ہیں۔جب کہ اس سے قبل کسی کتاب میں تمام مرویات
معاویہؓ یکجا نہیں ہیں۔
اب آئیے ان اعتراضات کے جوابات کی طرف جو کہ مضمون نگار نے امیرالمؤمنین
سیدنا معاویہؓ پر کیے۔
اعتراضات 1,2,3:
امیرالمؤمنین معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول
کیا،سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ طلقاء و مؤلفۃ القلوب میں سے تھے۔
مضمون نگار ڈاکٹر نے زیر بحث مضمون میں لکھا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ
نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا، آپؓ طلقاء و مؤلفۃ القلوب میں سے
تھے۔ اور ساتھ وضاحت کر دی کی طلقاء وہ آزاد کردہ اہل مکہ تھے جنہیں عرب
جنگی قوانین کے مطابق قیدی اور غلام بنایا جا سکتا تھا اور وہ سب اس پر
خوفزدہ تھے کہ نبی علیہ السلام نے انہیں اذہبوا فانتم الطلقاء کی نوید سنا
کر آزاد کردیا کہ جاؤ تم سب آزاد ہو۔ اور مؤلفۃ القلوب وہ نو مسلم تھے جن
کو اسلام پر قائم رکھنے کے لیے ان کی مالی مدد کی جاتی تھی۔ یعنی مضمون
نگار ڈاکٹر کا خیال ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا اسلام پختہ نہ تھا
اور ان کا قائم بہ اسلام رہنا مشکوک تھا اس لیے ان کی تالیف قلب کے لیے
مالی امداد کی جاتی تھی۔ ان تینوں اعتراضات کے جواب میں سب سے پہلے سیدنا
معاویہ رضی اﷲ عنہ کے قبول اسلام کے وقت کا تعین کرتے ہیں جس کے ساتھ ہی
معلوم ہو جائے گا کہ اگر سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام
نہیں لائے تو لا محالہ نہ وہ طلقاء میں سے ہیں اور نہ ہی مؤلفۃ القلوب میں
سے۔بخاری شریف کتاب الحج کے باب الحلق و التقصیر عند الاحلال میں سیدنا
معاویہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے جس میں آپ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ
میں نے مشقص سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بال مبارک تراشے تھے۔اگر اس کے
ساتھ مسند احمد کی وہ روایت بھی ملا لیں جس میں سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ
فرماتے ہیں کہ میں نے مروہ کے پاس نبی کریم ﷺ کے سر مبارک کے بال چھوٹے
کیے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی عمرہ کا واقعہ ہے کیوں کہ یہ متفقہ بات ہے
کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے صرف ایک حج اور وہ بھی فتح مکہ کے بعد ادا کیا
تھا اور اس میں بال چھوٹے (قصر)نہیں کروائے بلکہ حلق کروایا یعنی سر
منڈوایا۔ اس لیے کہ حج میں منیٰ کے مقام پر حلق کروایا جاتا ہے نہ کہ مروہ
کے مقام پر اور یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ نبی علیہ ا لسلام نے حج کے موقع پر
حلق کروایا تھا اور یہ جو بال کٹوائے تھے یہ کسی عمرہ کا واقعہ ہے۔ اور
ہجرت مدینہ کے بعد نبی علیہ السلام 6ہجر ی کو عمرہ کے ارادہ سے مکہ کے لیے
عازم عمرہ ہوئے مگر عمرہ ادا نہ کرنے دیا گیا اور پھر7 ہجری میں عمرۃالقضاء
کے موقع پر صلح حدیبیہ کی شرائط کے مطابق عمرہ ادا کیا۔ اس کے بعد رسول اﷲ
ﷺ نے دوسر ا عمرہ غزوۂ حنین سے واپسی پر راتوں رات چند صحابہ کرامؓ کی معیت
میں ادا فرمایا تھا اور اس عمرہ میں سیدنا معاویہ ؓ کی عدم شرکت یقینی ہے۔
اب صرف 7ہجری کا ہی عمرہ رہ جاتا ہے جس میں سیدنا معاویہ ؓ نے نبی صلی اﷲ
علیہ وسلم کے بال تراشے۔ یعنی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہؓ فتح مکہ سے قبل
دولت اسلام سے بہرہ ور ہو چکے تھے اسی لیے فتح مکہ سے پہلے نبی کریم علیہ
السلام کے بال مبارک کاٹے۔ ازالۃ الخفاء ج1، ص472 پر ہے کہ معاویہ بن ابی
سفیان رضی اﷲ عنہما قرشی اموی صلح حدیبیہ کے سال اسلام لائے۔ یعنی پتہ چلا
کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ 7ہجری عمرۃالقضاء سے قبل حدیبیہ کے سال
یعنی6ہجری میں ہی مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے
فتح مکہ پر اپنے قبول اسلام کا اظہار فرمایا تھا۔ اسی سے ان خیالات فاسدہ
کی تردید ہو گئی کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ طلقاء و مؤلفۃالقلوب میں سے
تھے۔ موصوف ڈاکٹر مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ’’سیرت نبوی کی تمام مفصل کتابوں
میں مذکور ہے کہ معاویہ رضی اﷲ عنہ، ان کے بھائی یزید بن ابی سفیان رضی اﷲ
عنہما اور والدؓ طلقاء اور مؤلفۃ القلوب میں سے تھے، غزوۂ حنین کے مال
غنیمت میں سے رسول اﷲﷺ نے ان میں سے ہر ایک کو سو سو اونٹ اور چالیس چالیس
چھٹانک چاندی(درہم) دی تھی،دیگر مؤلفۃالقلوب سرداروں کی طرح تاکہ وہ اسلام
پر قائم رہیں‘‘ دراصل ڈاکٹر صاحب تاریخ کے رسیا ہیں اور انہوں نے تاریخ پر
ریسرچ میں ایک عمر گزار دی ہے مگر انہیں تاحال اتنا بھی ادراک نہ ہو سکا ہے
کہ تاریخی روایت کی بنیاد پر قرآن و حدیث کی تردید نہیں کی جاسکتی اور نہ
ہی تاریخ کی کوئی شرعی و فقہی حیثیت ہے اور نہ ہی کسی عقیدہ و نظریہ کی
بنیاد تاریخ پر رکھی جا سکتی ہے مگر جانے کیوں ڈاکٹر صاحب بنوامیہ بالخصوص
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ اور ان کے والد و بھائی کے پیچھے ہاتھ دھو کر
تاریخ اٹھاکر پڑ گئے ہیں ۔ سیرت نبوی کی تمام مفصل کتب بھی تاریخ کی ہی
کتابیں ہیں۔ اس لیے ہم تاریخ کے مقابلہ پر حدیث کو ترجیح دیتے ہوئے جب مسلم
شریف میں غزوۂ حنین کے غنائم کی تقسیم کا تذکرہ پڑھتے ہیں تو صاف طور پر
معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابوسفیان رضی اﷲ عنہ کو تو سو اونٹ دیے گئے مگر
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے متعلق ایسا کوئی اشارہ کنایہ بھی نہیں پایا
جاتا کہ جس کی بنیاد پر ڈاکٹر صاحب کی تاریخی بات کی تصدیق ہوتی ہو۔اور نہ
صرف مسلم شریف میں بلکہ کسی اور حدیث میں غنائم حنین میں سے سیدنا معاویہ
رضی اﷲ عنہ کو حصہ دینے کی کوئی روایت نہیں پائی جاتی۔ڈاکٹر صاحب کی بیان
کی گئی اس تاریخی تراشیدہ کہانی کی تکذیب مسلم شریف سمیت کئی اور کتب حدیث
میں مذکور اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں فاطمہ بنت قیس رضی اﷲ عنہما
نبی علیہ السلام سے عرض کرتی ہیں کہ مجھے معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما
اور ابو جہم رضی اﷲ عنہ نے پیغام نکاح بھیجا ہے۔ جواباً نبی علیہ السلا م
نے فرمایا کہ ابو جہمؓ تو اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں ہٹاتے یعنی سخت ہیں اور
معاویہ ؓ مفلس ہیں، تم اسامہ بن زیدرضی اﷲ عنہما سے نکاح کر لو(صحیح مسلم
کتاب الطلاق باب المطلقہ ثلاثا لا نفقۃ لہا)۔غور فرمائیے کہ اگر غنائم حنین
میں سے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کو مال دیاگیا تھا تو فاطمہؓ کے نکاح کے
مشورہ میں جواباً نبی علیہ السلام نے سیدنا معاویہؓ کی مفلسی کا تذکرہ کیوں
فرمایا؟ وہ حنین کا مال کہاں گیا تھا؟ جب سیدنا معاویہؓ نے اگر فتح مکہ کے
موقع پر اسلام قبول کیا ہوتا تو وہ چونکہ ایک رئیس کے صاحبزادے تھے تو وہ
اپنا مال و متاع لے کر مدینہ آباد ہو سکتے تھے۔ ایسی صورت میں سیدنا معاویہ
رضی اﷲ عنہ کو واقعی امیر ہونا چاہیے تھا۔ مگر یہاں صورت حال برعکس ہے جو
یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ رضی اﷲ عنہ فتح مکہ سے قبل مشرف بہ اسلام ہو کر اپنا
سب کچھ مکہ میں ہی چھوڑ کر مدینہ تشریف لے آئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت
معاویہ رضی اﷲ عنہ مفلس تھے کیوں کہ غنائم حنین میں سے مہاجرین و انصار کو
کوئی مال نہیں دیا گیا تھا۔ یعنی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ ایک
تو فتح مکہ سے قبل کے مسلمان تھے دوسرے یہ کہ مؤلفۃالقلوب میں بھی آپؓ شامل
نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قاضی ابوبکر ابن العربی ؒ نے احکام القرآن کی پہلی
جلد میں مؤلفۃ القلوب کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ امامعاویۃ فبعید ان یکون
منہم فکیف یکون منہم؟یعنی کہ یہ بات بعید ہے کہ سیدنا معاویہؓ مؤلفۃ القلوب
میں سے ہوں۔ایک شخص 6ہجری میں مشرف بہ اسلام ہوا اس نے نبی علیہ السلام کے
بال مبارک بھی تراشے اور پھر فتح مکہ8ہجری کے بعد اس مخلص و معتمد صحابیؓ
کو اسلام پر قائم رکھنے کے لیے تالیف قلب کی کیا ضرورت آن پڑی؟؟
اعتراض4:
حضرت معاویہؓ کاتب وحی نہیں تھے۔
ماننے والے کے لیے ایک حوالہ ہی کافی ہے جبکہ معاندانہ اور ہٹ دھرمی پر
مبنی متعصبانہ و متشددانہ مؤقف کے حاملین کے لیے پورے کے پورے دفتر بھی نا
کافی ہیں۔ اس لیے ہم یہاں صرف وہ چند حوالہ جات نقل کریں گے جن سے سیدنا
معاویہ رضی اﷲ عنہ کا کاتب وحی ہونا واضح اور اظہر من الشمس ہوتا ہے۔
1۔ازالۃ الخفاء ج1،ص573
2۔چند مکاتیب از عبدالقدوس ہاشمی، ص67
3۔علوم القرآن از جسٹس مفتی محمدتقی عثمانی، ص176
4۔علوم القرآن از جسٹس مفتی محمدتقی عثمانی، ص179
5۔تاریخ التشریع الاسلامی از علامہ محمد خضری، ص10
6۔البدایہ والنہایہ،ج8، ص117,119,120
7۔تطہیرالجنان از ابن حجر مکی،ص10
8۔الناہیہ عن طعن امیرالمؤمنین معاویہؓ از عبدالعزیزفرہاروی،ص16
9۔مدارج النبوۃ از شاہ عبدالحق دہلوی،ج2،ص930
10۔شان صحابہ از سیدمحمود احمد رضوی بحوالہ احمد رضاخان بریلوی، ص22
یہ دس حوالہ جات اہل سنت علماء و محققین حضرات کے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی
اﷲ عنہ کاتب وحی تھے۔ اسی بات کی تائید میں ایک حوالہ اہل تشیع کا بھی
ملاحظہ فرمائیں کہ شیعہ کے قدیم ثقہ مؤرخ یعقوبی اپنی کتاب تاریخ یعقوبی کی
دوسری جلد کے صفحہ 80 پر لکھتے ہیں کہ وکان کتابہ الذین یکتبون الوحی
والکتب والعہود علی بن ابی طالب و عثمان بن عفان و خالد بن سعید بن العاص
بن امیہ و معاویہ بن ابی سفیان و شرحبیل بن حسنہ، الخ یعنی نبی ﷺ کے لیے
وحی و مراسلت و عہود و مواثیق وغیرہ تحریر کرنے والے حضرت علی بن ابی طالب،
حضرت عثمان بن عفان، حضرت خالد بن سعید بن عاص بن امیہ، حضرت معاویہ بن ابی
سفیان اور شرحبیل بن حسنہ رضی اﷲ عنہم وغیرہ تھے۔ مضمون نگا ر یہ بھی لکھتے
ہیں کہ سیدنا معاویہ ؓ اعلان نبوت کے 20,21سال بعد ایمان لائے اس عرصہ میں
کافی سارا قرآن لکھا جا چکا تھا۔ کیا مضمون نگار کوئی ثبوت دے سکتے ہیں کہ
سیدنا معاویہؓ کے ایمان لانے کے بعد وحی منقطع رہی اور سیدنا معاویہؓ نے
کوئی وحی نہ لکھی؟؟
اعتراض5:
نبی علیہ السلام سے معاویہؓ کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے۔
مضمون نگا ر اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں اسحاق بن راہویہ کا قول نقل کیا
ہے۔جب حقیقت یہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے فضائل و مناقب میں نبی
علیہ السلام سے کئی احادیث مروی ہیں جو کہ منکر، موضوع، ضعیف وغیرہ نہیں
ہیں۔ سب سے بڑی اور ناقابل تردید حقیقت تو یہی ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ
عنہ صحابی رسول ہیں اسی پر ساری بات ختم ہو جاتی ہے۔ مگر مضمون نگار کے
دعویٰ سے کئی سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی
ذات کے متعلق منفی پروپیگنڈہ کا اثر جڑ پکڑ سکتا ہے اس لیے ہم چند احادیث
بیان کر کے ان کا درجہ بھی نقل کر دیتے ہیں ۔
سیدناعبدالرحمن بن ابی عمیرہ رضی اﷲ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں:
اﷲم علمہ الکتاب و الحساب وقہ العذاب (البدایہ والنہایہ،ج8،ص121) یعنی اے
اﷲ! معاویہ کو کتاب یعنی قرآن اور حساب (یعنی محتسب/حکمرانب بنا) کا علم
عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا۔ اس حدیث مبارکہ کی اسناد حسن ہیں۔ تاریخ
الاسلام ج2 ،ص 309پر امام ذہبیؒ نے اس روایت کے متعلق تحریر کیا ہے کہ اس
حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
سیدنا عرباض بن ساربہ رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ ﷺ سے روایت کرتے ہیں:
اﷲم علم معاویۃ الکتاب والحساب وقہ العذاب (مسند احمد، ج4،ص157) یعنی اس
حدیث کا اور مندرجہ بالا حدیث کا مفہوم ایک ہی ہے۔
سیدنا عبدالرحمن بن ابی عمیرۃ رضی اﷲ عنہ رسول اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ
آپ ﷺ نے سیدنا معاویہؓ کے لیے فرمایا
اﷲم اجعلہ ہادیا مہدیا واہدبہ(ترمذی ص574)یعنی اے اﷲ!معاویہؓ کو ہادی بنا،
ہدایت یافتہ بنا اور دوسرے لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنا۔
سیدنا عمیر بن سعد رضی اﷲ عنہ رسول اﷲﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی علیہ
السلام نے معاویہؓ کے بارے فرمایا
اﷲم اہدہ (البدایہ و النہایہ،ج8،ص122) یعنی اے اﷲ! معاویہؓ کو ہدایت عطا
فرما۔
ان چاروں احادیث کو نقل کرنے کے بعد ابن کثیرؒ البدایہ والنہایہ کی آٹھویں
جلد کے صفحہ132پر رقم طراز ہیں کہ ہم نے صحیح، حسن اور جید احادیث ہی کے
ذکر پر اکتفا کیا ہے اور موضوع اورمنکر روایات سے احتراز کیا ہے۔ ہم نے یہ
چند احادیث بطور نمونہ ذکر کی ہیں جب کہ در حقیقت ان کے علاوہ بھی کئی
صحیح، حسن ، جید درجہ کی احادیث سیدنا معاویہؓ کے حق میں موجود ہیں۔ جن میں
سب سے بڑی روایت وہ ہے جو بخاری سمیت دیگر کئی کتب احادیث میں موجود ہے جس
میں بنی علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت کا پہلا لشکر جو بحری جہاد کرے
گا اس پر جنت واجب ہے۔ اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تاریخ اسلام میں پہلا
بحری بیڑہ سیدنا معاویہ ؓ نے تیار فرمایا اور پہلا بحری جہاد انہی کے زیر
نگرانی و زیر امارت کیا گیا۔
اعتراض6:
نبی علیہ السلام نے حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بد دعا دی کہ اﷲ کبھی اس کو
شکم سیری نہ دے۔
ڈاکٹر موصوف نے اپنے مضمون میں ایک جگہ مسند احمد کے حوالہ دے کر سیدنا
عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی مشہور روایت کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ ایک
دفعہ نبی علیہ السلام نے حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بلایا مگر وہ کھانا
کھانے کی وجہ سے نہ آئے تو نبی علیہ السلام نے حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو
بد دعا دی لا اشبع اﷲ بطنہ کہ یعنی اﷲ کبھی اس کو شکم سیری نہ دے۔ ہم نے
مسند احمد میں سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کردہ ساڑھے تین
ہزار سے زائد احادیث دیکھ لیں مگر ہمیں کسی روایت میں ڈاکٹر موصوف کی نبی
علیہ السلام سے منسوب کردہ بد دعا نہیں ملی۔ڈاکٹر صاحب سیدنا معاویہ رضی اﷲ
عنہ کی مخالفت میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ نبی علیہ السلام پر بھی بد دعا کا
الزام عائد کر دیا۔ملا علی قاریؒ الموضواعات الکبیر میں حدیث نمبر1307کے
ذیل میں لکھتے ہیں کہ سیدنا معاو یہؓ، عمرو بن عاصؓ، بنو امیہ،یزید، مروان
بن حکم رضی اﷲ عنہما کی برائی میں بنائی گئی تمام احادیث موضوع یعنی جھوٹی
ہیں۔
اعتراض7:
حضرت معاویہؓ خلیفہ نہیں ہیں کیوں کہ خلافت 30سال ہے۔
مضمون نگار نے لکھا کہ حضرت سفینہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کا فرمان ہے کہ
میرے بعد خلافت 30سال رہے گی۔۔۔الخ اس پر اعتماد کرتے ہوئے صاحب مضمون نے
سیدنا معاویہؓ کے دور خلافت کو خلافت سے خارج کرنے پر اپنا زور قلم صرف
کیا۔ جب کہ محدثین کا عام فہم اصول ہے کہ اگر راوی کا اپنی بیان کردہ روایت
پر عمل نہ ہو تو وہ روایت قبول نہیں کی جائے گی۔ اور ویسے بھی حدیث سفینہ
خبر واحد ہے یعنی ہر زمانہ میں اس کے راوی صرف ایک/دو ہی رہے ہیں۔ اگر یہ
واقعی حقیقت ہوتی تو نبی ﷺ اتنی اہم بات جس پر عقیدہ کی بنیاد رکھ دی گئی
ہے، صرف ایک صحابی سیدنا سفینہ رضی اﷲ عنہ کے سامنے نہ کرتے بلکہ کئی اصحاب
ؓ کے سامنے اس کا ذکر فرماتے اوراس حدیث کے راوی کثیر ہوتے مگر صورت حال اس
کے بر عکس ہے لہٰذا اس روایت پر یقین رکھتے ہوئے خلافت کو 30سال میں مقید
کرنا مناسب نہیں اورمضمون نگار کی معلومات میں اضافہ کے لیے عرض ہے کہ
سیدنا سفینہ رضی اﷲ عنہ کا اپنا عمل یہ تھا کہ انہوں نے نہ صرف سیدنا
معاویہؓ کی خلافت پر بیعت کی بلکہ یزید بن معاویہؓ کے ہاتھ پر بھی بیعت کی۔
اعتراض8:
بخاری شریف میں سیدنا معاویہؓ کے متعلق باب کا عنوان ’’ذکر معاویہؓ ‘‘ ہے
نہ کہ ’’مناقب معاویہؓ ‘‘
مضمون نگار نے سادہ لوح مسلمانوں کے قلوب و اذہان کو پراگندہ کرنے کی ایک
اور ہلکی بات لکھ دی ہے کہ بخاری شریف میں کئی صحابہؓ کے فضائل کو
’’مناقب‘‘ کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے مگر حضرت معاویہؓ کے بارے ’’ذکر
معاویہؓ ‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس سے مضمون نگا ر نے یہ دلیل پکڑنے کی
لا حاصل کوشش کی ہے سیدنا معاویہؓ کے حق میں کوئی فضیلت والی حدیث نہیں
ہے۔جب کہ ’’ذکر ‘‘ سے یہاں مراد ذکر خیر ہی ہے جو کہ فضیلت ہے۔ اگر لفظ ذکر
سے کسی کے فضائل بیان کرنا عدم فضیلت کا جواز و ثبوت ہے تو بخاری شریف میں
سیدنا عباس بن عبدالمطلبؓ، سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ، سیدنا حذیفہؓ بن یمان،
عبداﷲ بن سلامؓ، جبیر بن مطعمؓ کے فضائل کے تذکرہ میں بھی بیعنہٖ سیدنا
معاویہؓ کے تذکر ہ جیسے الفاظ ’’ذکر‘‘استعمال ہوئے ہیں۔ کیا اس بناء پر یہ
کہ دیا جائے کہ ان صحابہ کرامؓ کی حق میں بھی کوئی حدیث فضیلت ثابت نہیں؟؟؟
اعتراض9:
حضرت معاویہؓ حضرت عمرؓکے معتمد خاص نہیں تھے
مضمون نگار نے ایک مقام پر لکھا کہ حضر ت معاویہ ؓ حضرت عمرؓ کے معتمد خاص
نہیں تھے۔ اور ساتھ ہی ابن کثیر کے حوالہ سے روایت پیش کر دی کہ سیدنا عمرؓ
نے ایک دفعہ حضرت معاویہؓ کو درہ سے مارا اور حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ
یہ یعنی معاویہؓ عرب کے کسریٰ ہیں۔ ان روایات کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے
کی سعیٔ لاحاصل کی گئی ہے کہ امیرالمؤمنین عمرؓ کو سیدنا معاویہؓ پر اعتماد
نہ تھا اور آپؓ الزاماً یا بطور طعن سیدنا معاویہؓ کو عرب کا کسریٰ کہا
کرتے تھے۔ یہ دونوں تاریخی روایات ہیں اگر ان سے سیدنا معاویہؓ عظمت داغ
دار ہوتی ہے تو شرعی مسلمہ ضابطہ کے تحت یہ دونوں روایت قابل تسلیم و لائق
توجہ نہیں۔ کیوں کہ قرآن و سنت سیدنا معاویہؓ کی عظمت پر دالّ ہیں۔مگر اگر
غور کیا جائے تو بشرط صحت روایت سیدنا معاویہؓ کو اگر سیدنا عمرؓ نے مارا
بھی ہے تو تادیباً مارا۔ اس کا یہ مطلب بیان کرنا کہ آپؓ کو سیدنا معاویہ ؓ
پر اعتماد نہیں تھا اپنے دل کی طفل تسلی ہے۔ سیدنا عمرؓ نے حضرت عیاض بن
غنمؓ کو ان کے عہدے سے معزول کر کہ بکریاں چروانے پر مامور کر دیا۔ سیدنا
عمرؓ نے سیف من سیوف اﷲ کے لقب کے حامل سیدنا خالد بن ولید ؓ کو بھی ان کے
عہدے سے معزول کر دیا تو کیا اس کا یہ مطلب سمجھا جائے کہ سیدنا عمرؓ کو ان
لوگوں پر اعتماد نہ تھا؟؟ سیدنا عمرؓ تادیباً ایسے امور سرانجام دیا کرتے
تھے جو بظاہر ٹھیک نہ محسوس ہوتے تھے مگر درحقیقت شرعاً ایسے تمام امور
درست ہوا کرتے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے کبھی بھی طویل عرصہ کے لیے کسی کو بھی
کسی علاقہ کا حاکم /گورنر/عامل نہیں بنایا ۔ آپؓ عادت مبارکہ تھی کہ کچھ
کچھ عرصہ بعد ہر علاقہ کے حاکم/عامل کو تبدیل فرما دیا کرتے تھے مگر سیدنا
معاویہؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپؓ کم و بیش5 سال مسلسل شام کے امیر رہے
اور سیدنا عمرؓ نے کبھی بھی سیدنا معاویہؓ کو تبدیل نہیں فرمایا۔ کیا عاقل
کے لیے یہی کافی نہیں کہ وہ اسی سے سمجھ لے کہ سیدنا معاویہؓ واقعی
امیرالمؤمنین عمرؓ کے معتمد خاص تھے۔ اور جہاں تک امیر المؤمنین عمرؓ کا
سیدنا معاویہؓ کو عرب کا کسریٰ کہنے کا تعلق ہے تو یہ ایک بچکانہ بات ہے کہ
اسے طعن سمجھا جائے۔ ابن کثیر، ابن اثیر اور حافظ ذہبی وغیرہ نے اپنی
تصانیف(البدایہ، الکامل،تاریخ اسلام) میں جہاں سیدنا معاویہؓ کے بارے یہ
روایات نقل کی ہیں اگر ان کو سیاق و سباق سے ملا کر اور تعصب سے بالا تر
ہوکر پڑھا جائے تو روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ سیدنا عمرؓ لوگوں سے
فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس پر تعجب ہے کہ معاویہؓ جو کہ انتہائی مدبر و
عقل مند ہیں وہ تم میں موجود ہیں اور پھر بھی تم قیصر و کسریٰ کی عقل مندی
کی باتیں کرتے ہو! |