اسلامی دنیا کےحالات پر نگاہ
ڈالیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔مصر،شام ،بحرین،عراق، افغانستان اور وطن
عزیز خون خون ہیں لیکن مسلمان ہیں کہ خود کو فرقوں کے زندان میں قید کئے
ہوئے ہیں ۔ آج کی آزاد دنیا میں مسلمانوں کی مثال اس قیدی کی سی جو باہر
کےحالات سےبےخبرزندان کے در و دیوارتک محدود ہوتاہے اور اسے باہر کےحالات
کی کوئی خبر نہیں ہوتی اسے علم نہیں ہوتا کہ اس کا کنبہ کس حال میں ہے وہ
اپنے کنبے کے حالات کی ستم ظریفی پر کڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا
اسےصرف اپنی قید کے دن پورے کرنے کی فکرہوتی ہے وہ چاہتا ہے کہ اس کی قید
کےدنوں کا چکر اگلے ہی لمحے پورا ہو جائے اور وہ آزاد ہوکر اپنے کنبےکے
بگڑے حالات کی بہتری کے لیے کچھ کر سکے۔
لیکن مسلمانوں نے خود کو فرقوں کی قید میں ایسا اسیرکیا ہےکہ انہیں
مسلمانوں سےکوئی غرض نہیں انہیں غرض ہے تو اپنے فرقے سے اپنےفرقےکے لیے یہ
لوگ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون بہانےسےدریغ نہیں کرتے اوردنیابھرکے
مسلمانوں کے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا تو دور کی بات ہے فرقوں کےیہ
قیدی بلا واسطہ یا بالواسطہ اسلام دشمنوں کی مدد کرتے ہیں۔
فرقوں کے قیدی کئی ایک اسلامی ممالک میں اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہاتھ
رنگ رہےہیں اور اس قبیح عمل کو جہاد جیسے مقدس فرض سےتشبہیہ دے رہے ہیں اور
وہ دشمن جس کےخلاف مسلمانوں کو ہر میدان میں جہاد کرنا چاہیے تھا بڑی عیاری
کےساتھ پس پردہ اپنے مقاصد کے پوراہونے کی خوشی میں جھوم رہا ہے اسلام
دشمنوں کا اینجڈا ہی یہی ہےکہ ہراسلامی ملک میں فرقہ پرستی کو ہوا دے کر
براہ راست جنگ میں حصہ نہ لیا جائےبلکہ دور رہ کر تماشہ دیکھاجا ئے۔
شام ہی کو لےلیں اگر امریکہ یا اسرائیل شام کےخلاف براہ راست کوئی کاروائی
کرتے تو پوری اسلامی دنیا میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف شور اٹھتا جو
مسلمانوں کے باہمی اتحاد کا باعث بنتا اسی لیے انہوں نے تفریق کےکار آمد
فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ایسی منصوبہ بندی کی کہ شام کے حوالےسے دو مسلمان
دھڑے وجود میں آ گئے اور پھر اس ڈھڑا بندی سے فائدہ اٹھاتےہوئے فرقہ پرستی
کو خوب ہوا دی جسکی بدولت آج شام میں مسلمان ہی مسلمان کو کاٹ رہا ہے اور
اب تک شام میں ایک لاکھ کےقریب مسلمان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
شام میں متحارب دونوں گروہ اگر حق پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کو
دیکھتے اور اسکے مطابق فیصلہ کرتےتو شاید عالم اسلام کو شام میں ایک لاکھ
قیمتی جانوں کے ضیاع کا صدمہ نہ سہنا پڑتا لیکن یہ تب ہوتا جب یہ فرقوں کے
زندان سے خود کو آزاد کر کے اپنے اصلی دشمن کو پہچانتے جو جلتی پر تیل
ڈالنےکےلیے ایک متحارب گروہ کو اسلحہ بھی دے رہا ہےتاکہ شام میں مسلمانوں
کو ان کےہاتھوں ختم کر کے ایسا ہی کھیل دوسرے مسلمان ممالک میں شروع کر سکے
دشمن کا مسلمانوں کو انہی کے ہاتھوں ختم کرنے کا یہ منصوبہ اس وقت متعدد
اسلامی ممالک میں جاری ہے اور بدبختی سےدشمن کواس کھیل میں غیر معمولی
کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔
اللہ نہ کرے اگر صورحال یہی رہی تو ہر اسلامی ملک میں یہی کھیل کیھلا جائے
گا اور خدا نخواستہ فرقوں کے زندانوں کےقیدی اپنےہی قید خانوں میں سے خود
کو نکالنا بھی چاہیں گے تو نکل نہیں سکیں گے اور عمر قید کاٹنےپرمجبور ہو
جائیں گے تب تک ہم بہت کچھ کھو چکےہوں گے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے فرقوں
کے اختلافات کو جنگ نہ بنایا جائے فرقوں کےاختلافات کو علمی بنیادوں پر حل
کیاجائے اور اگر پھر بھی اختلاف باقی رہے تو سنت پیعمبرص پر عمل کرتے ہوئے
ایک دوسرےکے عقاید کا احترام کیا جائے ہمارے پیارے نبی ص کی سنت تو یہ ہےکہ
آپ ص نے مدینہ میں یہودیوں سمیت مشرکین تک کو ان کےعقائد پر عمل کرنےکی
پوری پوری آزادی عطا فرمائی اسی بانئ اسلام کے پیروکاروں کو فرقہ کی بنیاد
پر قتل کرنا آنحضرت ص کےحکم کی سیرت سےروگردانی ہی نہیں آپ ص حضرت سے جنگ
کے مترادف ہے۔
عالم اسلام کےدرد دل رکھنے والےدانشور اتحاد اتحاد کی صدا بلند کر رہےہیں
ہمیں اس صدا پر لبیک کہنا ہے کہ اتحاد امت وقت کا تقاضہ ہے۔ |