پاک ، امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ یا احکامات ؟؟

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی کو عراق میں اب تک سب سے بدترین مہینہ قرار دیا گیا ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق اس مہینے میں عراق میں ہونے والے پر تشدد واقعات میں 1057افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔جس میں928شہری تھے جبکہ پر تشدد واقعات میں 2326افراد زخمی ہوئے جس میں اکثریت شہریوں ہی کی تھی ۔ رپورٹ کے مطابق سال2013کے آغاز سے اب تک عراق میں4137شہری ہلاک اور 9865سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری کی پاکستان آمد پر حکمرانوں نے خوشی کا اظہار کیا اور ایسے اپنے لئے "باعث فخر" سمجھا ۔ دراصل تین سال بعد امریکہسٹریٹیجکٹ ڈائیلاگ کرنے نہیں بلکہ پاکستان کواحکامات دینے آیا تھا کہ ڈرون حملے بند نہیں ہونگے ، ایران سے گیس لائن پر بھی کوئی سمجھوتہ اور نظر ثانی بھی نہیں ہوگی ۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انکل سام نے یہ بھی فرما دیا کہ افغانستان سے امریکہ و نیٹو افواج 2014کے بعد بھی موجود رہیں گی۔ویسے بھی امریکہ کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے جس ملک پر بھی جارحیت کی اور پھر وہاں سے اپنے فوجیوں کی واپسی کا اعلان کیا تو اس کا مطلب کبھی یہ نہیں رہا کہ وہ اپنی نو آبادی کو اتنا کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بعد دوبارہ خالی چھوڑ جائے گا۔زر ، زمیں ،عورت پر فساد کی اصطلاح اور محبت و جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے ، کافی مشہور ضرب المثل ہے۔پاکستان میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی آمد پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے ، سرخ کارپیٹ پر اپنی پلکوں کو بچھا کر استقبال کیا گیا ۔ جیسے امریکہ لارڈ ان کی گود بھر دے گا ۔ اجڑی مانگ میں سندور ڈال کر انھیں پھر سے بھاگوان بنا دیگا۔لیکن جناب محترم نے پاکستان کو صاف جواب دے دیا ۔ امریکہ تین سال بعد نیٹو سپلائی پاکستان کی جانب سے روکنے جانے کے بعدسٹریٹیجکٹ ڈائیلاگ کی بحالی کیلئے نہیں بلکہ امریکی صدر اوبامہ کی جانب سے واضح احکامات دینے آیا تھا کہ پاکستانیوں تمھیں امریکی احکامات کا پالن کرنا ہوگا۔امریکہ نے پاکستان کی اس خوشی پر بھی پانی انڈیل دیا کہ تم لوگ خواب غفلت میں ہو کہ سالوں سال لڑائی جانے والی جنگ میں اربوں ، کھربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد وہ افغانستان سے خواہ مخواہ خالی ہاتھ اپنے ستر ارب ڈالرز کے ساز و سامان کو تباہ کرنے کے بعد واپس چلا جائے گا۔ ایساسوچنا یقینا ہماری خام خیالی ہے۔عراق پر کیمیاوی ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر ابھی تک امریکی جارحیت جاری ہے تو دوسری جانب افغانستان میں اسامہ بن لادن کی تلاش کے نام پر لاکھوں بے گناہ پختونوں کے خون سے پاکستان اور افغانستان کی سرزمین سرخ کرنے والے امریکہ سے کس بات کی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ کسی جمہوری روایات یا انسانی اقدار کا خیال رکھے گا ؟۔ ایسا سوچنے والے یقینی طور پر اب جان گئے ہونگے کہ مصر میں عوامی حکومت کو فوجی انقلاب کے ذریعے الٹنے کے پس پشت امریکہ کا ہاتھ تھا ۔ کیونکہ امریکہ نے اپنے حالیہ بیان میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ "مصر میں جمہوریت کو بحال کرنے کیلئے فوج کو حکومت کا تختہ الٹنا پڑا"۔لہذا پاکستان میں آنے والی اور گزرے جانے والی تمام حکومتوں میں امریکی اثر و رسوخ کا ایک اہم نظارہ گذشتہ دنوں ، تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی جانب سے چوری چھپے امریکی سفیر سے ملاقات تھا ، اگر نجی چینل اس کو نمایاں نہ کرتا تو یقینی طور پر چوری سے کی جانے والی ملاقات کبھی بھی عوام کے سامنے ظاہر نہیں ہوتی۔امریکہ اپنی جنگ پاکستان پر مسلط کرنے کے بعد ڈو مور کے مطالبات سے کبھی پیچھے ہٹا ہی نہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کو امریکی مطالبات کے آگے ہمیشہ سر جھکانے کے عادت جو پڑ گئی ہے۔کیا اس کے بعد بھی کسی بات کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے کہ امریکہ اسلام پسندی کا انتہائی مخالف اور نائن الیون میں صدر امریکہ کیجانب سیصلیبی جنگ شروع کرنے کے اعلان پر بڑی شد ومد سے عمل پیرا ہوا جارہا ہے۔امریکہ صرف اپنی من مانی چاہتا ہے ۔ اس کا بھی ایک مظاہرہ امریکا نے روس کی جانب سے ایڈورڈ سنوڈن کو عارضی سیاسی پناہ دینے کے فیصلے پر اپنے سخت ردعمل پر کیا امریکی ری پبلکن کے سینٹرز تو روس کے اس فیصلے پر انتہائی بر ہم نظر آتے ہیں اور انھوں نے ایسے امریکیوں کی تذلیل قرار دیا ہے۔ جبکہ خود دنیا بھر میں دوسرے ممالک کے خفیہ راز حاصل کرنے کیلئے ایسے جائز اور جاری رکھنے کو ضروری سمجھتا ہے پھرامریکہ بھلا پاکستان میں اسامہ بن لادن کو پناہ دینے والے عناصر کی کھوج سے کیونکر باز رہ سکے گا جبکہ وہ جانتا ہے کہ اسامہ کو نہایت با اثر حلقوں نے اپنی چھتری میں پناہ دے رکھیتھی۔بلاشبہ امریکہ ، صرف مسلمانوں کی تباہی چاہتا ہے ۔کیونکہ اس کے نزدیک انسانی جان کی قیمت کم اور ہیروشیما و ناگاساکی پر گرائے جانے والے بموں کی قیمت زیادہ ہے۔ اقوا م متحدہ کی حالیہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں شہری ہلاکتوں کی تعداد میں گذشتہ سالوں کی با نسبت تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔رواں برس جنوری سے جون تک ایک ہزار تین سو انیس افراد ہلاک اور ڈھائی ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں ۔ 2012کی پہلی ششماہی میں ایک ہزار ایک سو اٹھاون افراد ہلاک اور ایک ہزار نو سو چھتر زخمی ہوئے تھے ۔نو فیصد ہلاکتیں افغان سیکورٹی فورسز اور نیٹو افواج کے ہاتھوں ہوئیں جبکہ بارہ فیصد شہری سیکورٹی فورسز اور عسکریت پسندووں کے دوران زمینی جھڑپوں کے دوران ہلاک ہوئے۔امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان میری ہارف کا کہنا ہے کہ افغانستان میں شہری ہلاکتوں میں اضافہ اس لئے ہورہا ہے کیونکہ سیکورٹی فورسز ، طالبان کے خلاف زیادہ کاروائیاں کر رہی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اس صورت حال میں شہری ہلاکتوں میں اضافے سے بچنا ممکن نہیں ہے۔یہ امریکہ کی جانب سے پہلا ایسا بیان نہیں ہے کہ معصوم شہری ان کے ہاتھوں اس لئے ہلاک ہوتے رہیں کیونکہ ان کے نزدیک سب ہی ان کے دشمن ہیں ، ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ بے گناہ معصوم افراد کی ہے جس میں بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔بعض حلقوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی پاکستان میں اس کی من پسند حکومت میں دیگر تبدیلیاں بھی امریکہ کی مرضی کے مطابق کی جائیں۔ سربراہ پاک فوج کو اپنے عہدے میں تجدید ملے گی یا نہیں ، کچھ عرصے میں یہ بھی سامنے آجائے گا۔ویسے بھی موجودہ پاک فوج کے سربراہ نے پاکستان میں ہونے والی نوزائیدہ جمہوریت کے راہ میں با مشرف روڑے اٹکانے سے گریز ہی کیا ہے ۔ لیکن ایسا ہم اب یہ سوچیں کہ فوج کا اقتدار میں دوبارہ آنا ناممکن ہے تو یہ بھی بڑی خوش فہمی ہے، امریکہ کی جانب سے مصر کے حوالے سے واضح پالیسی بیان آچکا ہے کہ اگر فوج جمہوریت کو بچانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے تو امریکہ ایسے بُرا نہیں سمجھتا۔لہذا ہمارا آئین یا عدالتی نظام یا بیورو کریٹس صرف نظریہ ضرورت کو سمجھتے ہوئے سب کچھ دھڑلے سے الٹ سکتی ہے اور یہ کوئی بعد از قیاس بھی نہیں ہے کہ امریکہ جو چاہتا وہی ہوتا ہے۔ لہذا پاکستانیوں کو امریکہ کی غلامی سے آزادی کے لئے ذہنی طور پر تحریک پاکستان جیسی عملی جدو جہد کی تیاری کے لئے تیار ہو جانا چاہیے ، کیونکہ پاکستان امریکہ کی نو آبادی بن چکا ہے اور تحریک پاکستان میں انگریزوں کی غلامی سے آزادی کیلئے جس طرح تن ، من دھن کی بازیاں لگائی گئیں تھیں اب اس وقت قریب آچکا ہے ۔ 2014ء جنگ آزادی کا سال ہے ۔سینکڑوں سال امریکہ کی غلامی میں رہنا قبول ہے تو گھر بیٹھ کر امن کی آشا کے گیت گاتے رہوکیونکہ سیکھا یہی اور سیکھایا بھی یہی جا رہا ہے۔مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں ہے بلکہ افغانستان ہو ، ایران ہو یا بھارت ، ان سب کا تعلق صرف پاکستان سے ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659240 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.