پاکستانی سیاست کے رنگ،کس سے منصفی چاہیں؟

توہین عدالت نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے عمران خان کا داخل کردہ جواب ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے انہیں 28 اگست تک دوبارہ جواب جمع کروانے کی مہلت دی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ شرمناک کے الفاظ عدلیہ کو گالی دینے کے برابر ہیں، یہ معاملہ ججز کی ذات کا نہیں ادارے کا ہے۔ عمران خان اپنے وکیل حامد کے ہمراہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، ان کے پہلے جمع کردہ جواب پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ جواب جمع کروانے کا حکم دیا، لیکن جمع کرایا گیا دوسرا جواب بھی عدالت نے ناقابل اطمینان قرار د یتے ہوئے عدالتی حکم میں کہا کہ شرمناک کے الفاظ عدلیہ کو گالی دینے کے مترادف ہیں، یہ معاملہ ججز کی ذات کا نہیں ، ادارے کا ہے۔عمران خان کی طرف سے جمع کرائے گئے دوسرے جواب میں موقف اپنایا گیا تھا کہ ان کی شکایات ریٹرننگ افسران کے متعلق تھیں، عمران خان کا 26 جولائی کا بیان عدلیہ کے خلاف نہیں تھا، عمران خان عدلیہ کا انتہائی احترام کرتے ہیں، براہ مہربانی نوٹس کو واپس لیا جائے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں کہ خیبرپختون خوا میں عدلیہ اپ رائٹ ہے اور سندھ میں نہیں، کیا آئندہ الیکشن میں ڈی سی اور ڈی پی او کو لگا دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ساری عدلیہ پر الزام لگایا گیا ہے، عمران خان کا وضاحتی بیان قابل قبول نہیں، آپ مزید وقت لے لیں اور پھر جواب داخل کریں،یہ افتخار یا عظمت کی ذاتی انا کی بات نہیں، پورے ادارے کی عظمت اور وقار کا معاملہ ہے، سپریم کورٹ کیسے مان لے کہ ماتحت عدلیہ کو شرمناک کہنا درست ہے، اس طرح دباؤ میں آنے لگے تو لوگ کہیں گے ہمارا مقدمہ سنیں ورنہ گالی دیں گے۔

نیوز ویب سائٹ’’ دی نیوز ٹرائب ‘‘کے مطابق’’ چیف جسٹس نے قرار دیا کہ تفصیلی جواب داخل کرائیں پھر دیکھتے ہیں کہ شرمندہ آپ ہوتے ہیں یا عدلیہ شرمندہ ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان نے 4حلقوں میں بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے ووٹرز کی تصدیق کا کہا۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے الیکشن ٹریبونل میں 31درخواستیں جمع کرائیں جس میں صرف 5درخواستیں لاہور سے تھیں،حامد خان آئین کے بارے میں جانتے تھے ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان کو بھی آئین کے بارے میں بتائیں،الیکشن ٹریبونل میں کوئی درخواست جمع کرائی جاتی ہے تو سپریم کورٹ اس کا نوٹس نہیں لے سکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل175میں صاف لکھا ہے کہ عدلیہ سے مراد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہوتا ہے۔عمران خان نے کہا کہ میں نے عدلیہ کی آزادی کے لئے بھی تحریک میں حصہ لیا اور 8دن جیل میں گزارے ،کسی اور سیاستدان نے جیل نہیں کاٹی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایسی باتیں نہ کریں جس سے شرمندگی ہوتی ہے،عدلیہ کی تحریک میں ہر طبقے نے حصہ لیا۔عمران خان نے ایک موقع پر کہا کہ مجھے آپ سے گلہ ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ گلہ کچھ نہیں ہوتا بلکہ ہم آئین کے تحت چلتے ہیں،آج ہم یہاں بیٹھے ہیں کل کوئی اور ہو گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان ایک قد آور شخصیت ہیں ،ان کے منہ سے نکلی بات کو اہمیت دی جاتی ہے ،عدلیہ سے متعلق ان کے بیان پر ہمیں نوٹس لینا پڑا،عدلیہ کی عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں‘‘۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین نے کہا کہ مجھے آج پہلی مرتبہ پتا چلا کہ شرمناک بڑی گالی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی تاریخ میں کبھی اتنے لوگ ووٹ ڈالنے نہیں نکلے، ہم چاہتے کہ آئندہ شفاف انتخابات ہوں اور سب نتائج تسلیم کر لیں، ہم نے 4 حلقوں میں تحقیقات کا کہا تھاتاکہ پتہ چلے دھاندلی میں کون ملوث تھے۔ عمران خان نے کہاکہ 11 مئی کے انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی،سپریم کورٹ کے پاس انصاف کیلئے نہ جائیں تو کہاں جائیں۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کیلئے تحریک انصاف نے سب سے زیادہ جدوجہد کی، عدلیہ کی آزاد کیلئے جیل میں بھی رہا۔ انہوں نے کہا کہ ساری کرپشن ایک طرف ملک کی جمہوریت پرڈاکہ ایک طرف ہے، جوکہا ہے صحیح کہا ہے، کوئی غلط بات نہیں کی، جس کی سزا ملے۔ عمران خان نے کہا کہ بھارت میں کبھی سنا ہے کہ وہاں دھاندلی کا شور مچا ہو۔ انہوں نے کہا کہ ریٹرننگ افسران نے دھاندلی کی،اس کے ثبوت لائیں گے،انتخابات میں دھاندلی سے متعلق وائٹ پیپرز لارہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ توہین عدالت لگی ہی نہیں تو معافی کس بات کی مانگوں۔
سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف عدلیہ کی توہین کے نوٹس کیس کے ساتھ ہی مختلف سیاسی جماعتوں کے افراد کے درمیان بیان بازی،کمنٹس کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ آج ہی میں نے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کے ـ’’فیس بک وال‘‘ پہ سپریم کورٹ میں سماعت کے حوالے سے ’’اب ڈیٹس‘‘ دیکھیں تو خیال آیا کہ جناب چیف جسٹس عوامی تکلیف کے موضوعات کو عوام کی نظر میں مناسب طور مخاطب نہیں کر رہے ہیں۔مثال کے طور پر جناب چیف جسٹس کا ’از خود نوٹس‘(سو موٹو)لینا،لیکن یہ ’’ سوموٹو‘‘ اکثر و بیشتر سالہا سال سے انصاف ہونے کی ’’ پائپ لائین ‘‘ میں ہیں۔مثال کے طور پر راولپنڈی کے پبلک چنار پارک پر لینڈ مافیا کے قبضے کے خلا ف جناب چیف جسٹس کا ’ازخود نوٹس‘(سوموٹو)کا مقدمہ، جو سرکاری چنار پارک میں لینڈ مافیا کے مسلح افراد کی موجودگی اور علاقے کے شہریوں میں خوف و ہراس کی صورتحال کے باوجود وپریم کورٹ میں سالوں سے کبھی زیر سماعت اور کبھی زیر التوا چلا آ رہا ہے۔ یہ عوام کو درپیش المناک صورتحال کی عکاس ہے کہ چنار پارک راولپنڈی پنجاب حکومت کی پبلک پراپرٹی ہے لیکن اس کی حفاظت کے بجائے پنجاب حکومت کی طرف سے لینڈ مافیا کو پولیس اور انتظامیہ کی صورت سہولت کاری میسرہے۔یہ خواص نہیں بلکہ عوام کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ پنجاب پولیس،انتظامیہ اور سیاسی پشت پناہی سے لینڈ مافیا کو سرکاری چنار پارک پہ ناجائز قابض کرایا گیا ہے جبکہ چنار پارک لینٖڈ مافیا کا ’’ہیڈ‘‘ تحریک انصاف کا وہ لیڈر ہے جس کو جناب عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف شمالی پنجاب کا صدر نامزد کیا۔میرے خیال میں پاکستان میں انحطاط پزیری کاعمل مساوی انداز میں جاری ہے یعنی ہر شعبے کی خامیاں ،خرابیاں یوں برابر چل رہی ہیں کہ جیسے،’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز،نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز‘‘۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699380 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More