جمشید خٹک
موسم کے اعتبار سے خیبر پختونخواہ گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سخت
سرد ہوتا ہے ۔کہیں پر سخت سردی برف سے ڈھکے اُونچے پہاڑاور جنگلات ، کہیں
پر سخت گرمی اور ریتلے چٹان ، کہیں پر دریا اور کہیں پر پانی کے چشمے ،
کہیں پر پانی کے بوند بوند کو ترسنا ، کہیں پر سیلاب ، کہیں پر سر سبز
لہلہاتے کھیت کہیں پر چٹیل خشک اور بے آب و گیاہ بنجرپہاڑ۔
اس مختلف النوع ماحولیاتی پس منظر میں موسموں کی سختی اور گردوپیش کے اثرات
اس خطے کے مکینوں کے رویوں کے اظہارمیں نمایاں نظر آتے ہیں ۔رسم ورواج ،
تعلقات ، طرز زندگی ، بول چال میں انتہا پسندی کی جھلک واضح طور پر محسوس
کی جا سکتی ہے ۔ میدانی علاقوں میں دریا کاپانی خاموشی سے گزرجاتا ہے ۔جبکہ
پہاـڑوں سے نکلا ہوا پانی چٹانوں سے ٹھکرا کر ایک خوفناک شور کے ساتھ فاصلے
طے کر تا رہتا ہے ۔یہاں کے باسیوں کے کان پیدائش سے لے کر پانی کے شور وغل
اور جھرنوں سے مانوس ہو جاتے ہیں ۔پہاڑوں پر بسنے والے افراد ،پہاڑی دروں
سے گونج کر واپس آنیوالے آواز کو شدت سے محسوس کرتے ہیں ۔یہی ماحولیاتی
اثرات اُن کے مزاج کا ایک حصہ بن کر رہ جاتا ہے ۔سوچ پر زور آوری کا
عنصرغالب آتا ہے ۔انفرادیت پسندی اس خطے کا خاصا ہے ۔پورے ملک میں 69 جبکہ
خیبر پختونخواہ میں 26 زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر
ہوتاہے ۔کہ ہر قبیلے نے مخصوص حالات کے تحت اپنی زبان یا بولی کو تر جیح دی
ہے ۔یہ مختلف النوع زبان اور بولیاں باہمی یکجہتی کو مضبوط کرنے کی بجائے
حائل خلیجوں کو وسیع کرتی ہے ۔یک زبان ہوکرفیصلے نہیں کئے جاتے ۔بلکہ بھانت
بھانت کی بولیاں سننے کو ملتی ہیں۔جس کا اظہار ہر دور میں سامنے آیا ہے ۔پہاڑی
علاقوں سے نکلی ہوئی صدائیں میدانی علاقوں سے مختلف ہوتی ہیں۔جنوبی اضلاع
کی سیاست ہزارہ ڈویژن سے مختلف ہے۔پختو نخواہ کے مرکزی اضلاع کی سوچ ملا
کنڈ ڈویژن سے نہیں ملتی۔یہ منتشر سوچ کا نتیجہ تھا۔کہ ہر علاقے سے اُس
مخصوص سوچ کے حامل افراد منتخب ہوگئے ۔اور سیاست کی میز پر ہر قسم کے جھنڈے
لہرانے لگے ۔سبز ، سرخ ، سفید ، کالا ، رنگ برنگ جھنڈوں سے سجے بازاروں ،
گلیوں اور عمارتوں پر جھنڈوں کے میلہ کا منظر دیکھکر احساس ہوتا ہے ۔کہ ہم
ایک سمت میں نہیں جارہے ہیں۔ایک صفحے کی بجائے ہر سوچ نے نیا صفحہ کھول دیا
ہے ۔ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا دی ہے ۔یہی سیاسی نا پختگی کی علامت ہے۔یہی
جوڑ توڑ کا نقطہ آغاز ہے ۔یہی سیاسی کسمپرسی کی علامت ہے ۔یہی سیاسی طور پر
انحطاط پذیر معاشرے کی نشانی ہے ۔یہی تصادم کی راہ پر پہلا قدم ہے ۔خیبر
پختونخواہ کے سیاسی حالات کا پس منظر دیکھئے ۔جتنی تحریکوں نے جنم لیا ۔ تو
سب نے خیبر پختونخواہ کا انتخاب کیا ۔چاہے سید احمد شہید کی تحریک ہو۔ جو
لکھنو دہلی سے ہو تی ہوئی 1826 میں اکوڑ ہ خٹک کے مقام پر سکھوں کو شکست
دینے میں کامیاب ہوگئے ۔یہاں کے مقامی لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ جنگ
اکوڑہ اور شیدو کے درمیان کھلے میدانوں میں لڑی گئی ۔اسی وجہ سے یہ علاقہ
شہداء کی قبروں سے بھرا پڑ ا ہے۔جنگ شیدو کے دوران ایک بوڑھی عورت کا بیٹا
یہاں آکر شہیدہوا۔غم میں نڈھال ماں کی زبان سے نکلی ہوئی فریاد آج بھی عوام
الناس کو یاد ہے ۔
’’ چہ پہ درگاہ کی روزی خلاصہ شی
’’ شپہ ئے شیدو تہ راشی ‘‘
ریشمی رومال تحریک ہو ۔ ہندوستان کو دارلحرب قرار دیکر ہجرت افغانستان
ہو۔تمام تحریکوں کے ساتھ اس خطے کے باشندوں نے بھر پور ساتھ دیا ۔موجودہ
دور میں طالبان کی تحریک ہو۔ سب سے زیادہ پذیرائی اس خطے سے ملی ۔
اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے باشندوں نے مزاحمتیں بھی کی ہیں۔ مغل جب اس خطے
میں داخل ہوئے ۔ تو یہاں کے باشندے مغلوں کے ساتھ برسر پیکار رہے ۔پہلی
یوسف زئی لڑتے رہے ۔بعد میں خوشحال خان خٹک مغلوں کے مخالف ہوگئے۔خوشحال
خان کے بیٹے بہرام خان مغلوں کے ساتھ شامل ہو کر اپنے باپ کے خلاف لڑتے رہے
۔مغل سارے ہندوستان پر حکمران رہے ۔لیکن مخالفت میں اس خطے کے مکین مغلوں
کی حمایت اور مخالفت میں پیش پیش تھے ۔قبائل آپس میں لڑتے رہے ۔
قیام پاکستان سے قبل کانگریس کے حمایت یافتہ تھے ۔لیکن بعد میں تحریک
پاکستان سے ایسے وابستہ ہوئے ۔کہ سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔خیبر پختونخواہ
کے بڑے بڑے علماء اور لیڈرا ن نے پاکستان کی حمایت میں ہر اول دستے کا
کردارادا کیا۔ایوب خان کی ڈیکٹیٹر شپ کے خلاف مادر ملت فاطمہ جناح کی قیادت
میں اپوزیشن میں رہ کر نمایاں کردار ادا کیا ۔
خیبر پختونخواہ میں پچھلے تین دہائیوں کی سیاست کا اگر تجزیہ کیا جائے تو
پتہ چلتا ہے ۔کہ خیبر پختونخواہ کی سیاست دوسرے صوبوں سے مختلف ہے ۔خیبر
پختونخوامیں ایم ۔ ایم ۔اے کی حکومت آئی۔ لیکن پاکستان کی سیاست کا رخ ایم۔
ایم ۔اے کی طرف نہیں تھا۔اس کے بعد خیبر پختونخواہ میں عوامی نے نیشنل
پارٹی نے اکثریت حاصل کر کے حکومت بنائی۔لیکن پورے ملک میں سیاست کا جھکاؤ
بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف نہیں تھی۔حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف نے
اکثریت حاصل کرلی ۔جبکہ باقی صوبوں کا حال مختلف رہا۔ہر دور میں خیبر
پختونخواہ نے انفرادی اور ایک الگ نتیجہ دکھایاہے ۔اگر اس بات کا جائزہ لیا
جائے ۔کہ خیبر پختونخواہ میں ٹہراؤ کی سیاست کی کمی ہے ۔تو یقینا جیسے عام
زندگی میں خیبر پختونخواہ کے عوام مزاجا تیز اور معمولی بات پر ناراضگی کا
اظہار کرنیوالے خصلت کی عکاسی ان انتخابات میں پوری طرح نمایاں ہے۔یہاں کی
سیاست میں تربور ولی اہم کردار ادا کرتا ہے۔پشتو ضرب المثل کے مطابق تربور
کا دوسرا نام دُشمن ہے۔جب سوچ یہ ہو کہ چچا زاد بھائی دُشمن کے مترادف
ہے۔تو ایک تربور دوسرے تربور کی بالا دستی کیسے مانے گا۔اور ایک جھنڈے کے
نیچے دونوں اکٹھے کیسے کھڑے ہونگے۔سیاسی نظریات سے قطع نظر ایک خان دوسرے
خان کو برداشت نہیں کر سکتا۔جھوٹی انا ، احساس برتری ، خود ساختہ معتبری ان
کے خون میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔KPK کے تمام سیاسی پارٹیوں کے اندرونی
مخالفت اور ایک الگ گروپس کی بنیاد بھی نظریاتی اختلاف سے بڑھ کر عزت ، بے
عزتی ، انا اور غیرت سے منسلک کی جاتی ہے۔یہ روش صدیوں سے چلی آرہی ہے ۔اگر
اس کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ حریت پسندانہ کردار ، آپس کی
قبیلوں کی جنگیں ، علم سے آگاہی نہ ہونا، بے صبری ، اخلاص اور سچائی وہ
بنیادی وجوہات ہیں۔کہ معمولی سی بات پر خوشی اور ذرا سی بے اعتنائی پر
ناراضگی مول لینی پڑتی ہے۔جب خوش ہوتے ہیں تو دل وجان کا نذرانہ پیش کرتے
ہیں۔لیکن ناراضگی کی صورت میں ہر انتہا تک جا سکتے ہیں۔ان کا مزاج باقی
صوبوں سے یکسر مختلف ہے ۔بابر اپنی کتاب تز ک بابری میں لکھتا ہے ۔کہ
ہندوستان پر حملہ کرنے کے بعد اُن کا دوسرا پڑاؤ جہلم کے قریب پڑا۔صبح
سویرے جب ورزش کے لئے نکلا ۔ تو ارد گرد کے کھیتوں میں لوگ کوئی پرواہ کیے
بغیر آرام سے کام میں مصروف تھے ۔بابر بڑا حیران ہوا۔کہ دُشمن کی فوج نے
ڈیر ے ڈال رکھے ہیں ۔ اور انکو کوئی فکر نہیں ہے۔بابر نے اپنے سپاہیوں کے
ذریعے دو چار لوگوں کو بلایا ۔ ان سے پوچھا۔ کہ آپ کو معلوم ہے ۔ کہ وہ
کابل سے آئے ہیں ۔ اور اُن کے ملک کو فتح کرنا ہے ۔اور وہ بادشاہ ہے۔بابر
یہ سوچ رہا تھا ۔ کہ وہ لوگ اپنی ناراضگی کا اظہار کرینگے ۔لیکن اس کے بر
عکس اُنہوں نے وہ تاریخی جملے اد اکیے۔کہ اگر آپ بادشاہ ہیں تو آپ کو بھی
سلام۔ اور پھر مذاحمت کیے بغیر اپنے اپنے کاموں کی طرف چل دئیے۔جبکہ خیبر
پختونخواہ کے خطے کی خاصیت یہ ہے کہ آسانی سے ہار نہیں مانتے ۔اس خطے میں
سکھ آئے ، انگریز آئے ، مغل آئے ، سب نے مذاحمت کے بعد اس خطے میں قدم رکھے
۔
پشتون قوم کے مزاج میں کچھ کچھ اثر تاریخی پس منظر کا بھی ہے ۔ ہزاروں سال
حملہ آور کی حیثیت سے شمال کی طرف سے فتوحات کرتے ہوئے وسیع و عریض میدانی
علاقوں تک رسائی حاصل کرتے رہے۔بادشاہوں کے ساتھ شامل ہو کر حملہ آوروں کے
قافلوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔جنگ و جدل میں شستگی اور شائستگی نہیں سکھائی
جاتی۔بلکہ بزور شمشیر سب کچھ چھیننا پڑ تا ہے۔جو ان کے ذہنوں میں اب تک رچ
بس کر رہ گئی ہے۔جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا زمانہ گزر گیا ہے ۔تلوار کی
جگہ قلم نے لے لی ہے ۔قلم کی جگہ جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر نے لے لی ہے ۔ماڈرن
ٹیکنالوجی نے جنگی حربوں کو تبدیل کر دیا ہے ۔اب عقل اور دلیل کی حکمرانی
ہے ۔ جسمانی مضبوطی کے مقا بلے میں عقل و دانش زیادہ حاوی ہے ۔جب تک پشتون
معاشرے میں علم کی روشنی نہیں پھیلتی یہ معاشرہ منتشر رہے گا۔ |