پاکستان میں ماضی سے لیکر اب تک
ہمارے دوست احباب سے بہت سی ایسی کئی حرکتیں سرزرد ہو چکی ہیں جو ہماری
تاریخ کا حصہ بن جانے کے ساتھ ساتھ ان کی ذات کے ساتھ ذلت آمیزی کی صورت
میں وابستہ ہو کر رہ گئیں ہیں۔ قیام پاکستان کے مخالفین نے جب یہ دیکھا کہ
ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا جا رہا ہے تو اس کے خلاف اسلام کا نام لیکر ایک
سازش کی اور ملک کو مذہبی فسادات کی آگ میں جھونکنے کی سعی کر ڈالی جس کو
سرد کرنے کے لئے حکومت کو فوج بلانی پڑی جو بالآخر ملک کو فوجی حکمرانی کی
طرف لے گئی۔ میری مراد 1953ء کے مذہبی فسادات سے ہے جس کے بعد بہت سے مذہبی
رہنماؤں کا جہاں باطن عوام کے سامنے آیا وہاں اس چیز کا بھی لوگوں کو خوب
ادراک ہوا کہ کن لوگوں کو وطن کی آزادی ہضم نہیں ہو سکی اور کون ملک کی
سالمیت کو پارا پارا کرنا چاہ رہے ہیں، منیر انکوائری رپورٹ میں ایسی تمام
قوتوں کا کچا چٹھا عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا گیا ہے۔
1953ء کے مذہبی فسادات کا اصل مرکز اس وقت پنجاب کا شہر خاص طور پر لاہور
تھا جہاں حکومت کو سخت فوجی کاروائی کرنا پڑی اور محدود مارشل لاء بھی
لگانا پڑا، اس فوجی کاروائی کے بعد دن رات اسلام کیلئے جان دینے کے نعرے
لگانے والے بہت سے نامی گرامی لوگ جن میں بڑے بڑے مولوی اور سیاسی پہلوان
بھی شامل تھے اپنی جانیں بچانے کیلئے منظر سے غائب ہوگئے اور ان کے غائب
ہوتے ہوئے لوگوں میں ایک نام مولانا عبد الستار نیازی کا بھی تھا جو بعد
میں مجاہد ملت کے خود ساختہ نام سے جانے جانے لگے ۔ اس تحریک کے دوران مسجد
وزیر خان فسادی لوگوں کا گڑھ تھی، نیازی صاحب ان دنوں جوان تھے، جب فوج شہر
میں آئی تو ایسے مجاہدین کو چھپتے ہی بنے، نیازی صاحب نے بھی چھپ کر مسجد
وزیر خان سے نکلنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی اور اس کے لئے انہوں نے ایک
خالی دیگ کا سہار ا لیا جس میں چھپ( بیٹھ) کر مسجد سے باہر گئے اور وہاں سے
پھر بابا بلہے شاہ کے شہر قصور میں جا کر چھپ گئے جہاں انہوں نے اپنے چہرے
پر سجی داڑھی کی اس طرح تراش خراش کرائی کہ پہجانے نہ جا سکیں مگر فوج جو
ان کے پیچھے تھی نے بالآخر وہیں سے ان کو گرفتار کر لیا ۔ یہ ساری روئیدار
اس وقت کے سول ملٹری گزٹ میں(جو اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے) ان کی داڑھی
اور بغیر داڑھی کی تصاویر کے ساتھ شائع کی، نیازی صاحب ساری عمر خود کو
مجاہد کہلاتے رہے مگر نیازی صاحب کے اس طرح کے فرار کی بازگشت ان کی زندگی
میں پوری طرح ان کے ساتھ چمٹی رہی اور ان کا پیچھا کرتی رہی، آپ کی اس
مجاہدانہ حرکت کا تذکرہ اولاً سابق وزیرِ اعظم جونیجو کے دور میں اور پھر
نواز شریف کے دور میں ایوانِ بالا میں بھی ہوتا رہا۔
کچھ ہی عرصہ قبل (2007ﺀ) سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں جب لال مسجد
آپریشن ہو رہا تھا تو ہماری ایک سیاسی جماعت جو اسلامی کہلاتی ہے کے ‘امیر
صاحب‘ اس وقت تک غیر ملک کے دورے پر رہے اور نہ تو کوئی بیان دیا اور نہ ہی
کوئی مصالحت کی کوشش کی جب تک کہ آپریشن مکمل نہیں ہوگیا۔ اس ہی طرح ہمارے
ایک ممدوح ایسا ہی ایک کارنامہ سرانجام دے گئے جو تاریخ کا حصہ بن چکا ہے،
میری مراد مولانا عبد العزیز سے ہے جو مسجد سے فرار ہونے سے پہلے تک بہت
بڑے مجاہد تھے، جن کے اردگرد دن رات بیسیوں شاگرد ان کا دم بھرتے تھے لیکن
جب ان کی حکومت مخالف سرگرمیوں نے جب زور پکڑا تو ان کے خلاف بھی حکومت اور
فوج کو ایکشن لینا پڑا جس کے دوران جہاں بہت سارے افراد مارے گئے وہاں ان
کے بھائی بھی ہلاک ہوئے جبکہ یہ مولانا خود برقعے میں فرار ہوتے پکڑے گئے
جسے ساری دنیا نے ٹی وی پر براہ راست نشر ہوتے ہوئے پروگرام کے دوران دیکھا
۔ گرفتاری کے بعد حکومت ان کو باقاعدہ ٹی وی پر لے آئی جہاں انہوں (مولانا
عبد العزیز) نے برقعہ پہنے ہی پورا انٹریو دیا اور اقرار کیا کہ انہوں نے
ساتھیوں کی مدد سے جان بچانے کے لئے برقعہ پہن کر مسجد سے نکلنے کی کوشش کی،
اس سارے انٹرویو کے دوران مولانا صاحب کے چہرے پر شرمندگی کے کوئی آثار نہ
تھے۔
موجودہ حکومت بھی جب سے بر سراقتدار آئی ہے تب سے طالبان نامی لوگوں کی
سرگرمیاں بھی پورے عروج پر ہیں جن کو کبھی کوئی نام دیا جاتا رہا تو کبھی
کوئی، کبھی ان کو لال مسجد آپریشن کا رد عمل کہا گیا تو کبھی نظام عدل اور
شریعت کے نفاذ کے ساتھ جوڑا گیا مگر سب نے دیکھا کہ یہ ساری کاروائیاں ایک
طرح سے ملک کو توڑنے اور اس کے حصے بکھرے کرنے کی سازش تھی اور جب اس سازش
کو بھانپ کر حکومت اور فوج نے کاروائی شروع کی تو جہاں ہوش ربا خبریں سامنے
آئیں وہاں بہت سے شرپسند مارے بھی گئے ۔ یہ شرپسند جن کے اندر ظاہری طور پر
اسلام کا نام نہاد درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ان علاقوں سے بھاگنے لگے
اور پھر انہی حجاموں سے مدد لینے پر مجبور ہو گئے جن کی دوکانوں کو انہوں
نے بموں سے تباہ و برباد کیا تھا۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس
کے بقول یہ لوگ سوات اور اس کے ملحقہ علاقوں سے داڑھیاں منڈوا کر اور حلیے
بدل کر فرار ہو رہے ہیں، جنرل اطہر کی اس رپورٹ کی تصدیق کراچی سے طاہر
مشہدی نے بھی اپنے ایک ٹی وی بیان میں کی کہ طالبان دراصل جرائم پیشہ لوگ
ہیں وہ اب داڑھیاں کٹوا کر اور جینز پہن کر کراچی آ گئے ہیں اور یہاں کے
حالات خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
انہی دنوں اخبارات میں روپوش جن طالبانی لیڈروں کی تصاویر چھپی ہیں ان میں
سے کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو خوش شکل ہو یا جس کے دیکھنے پر کوئی
ایسا احساس ہو کہ یہ کسی انسان کی تصویر ہے۔ یہ لوگ قطع وضع سے ہی دہشت گرد
نظر آتے ہیں، جس طرح سکھ اپنے اپنے سروں کے بال اور داڑھیاں نہیں ترشواتے
(کٹواٹے) اسی طرح ان میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کے بال نہ کٹوانے
پر شتر بے مہار کے طرح بڑھے ہوئے ہیں اور دیکھنے پر جنگلی یا دہشت گرد ہی
دکھائی دیتے ہیں۔ آپریشن کے دوران آنے والی خبروں کے مطابق ایسے افراد بھی
مارے گئے یا گرفتار ہوئے ہیں جو ان علاقوں میں سالوں سے مساجد میں امامت کے
فرائض سرانجام دے رہے تھے جو مسلمان تھے ہی نہیں یعنی انہی لوگوں کی آڑ
لیکر جو اپنے بال نہیں کٹواتے تھے کی صفوں میں گھسے ہوئے تھے، ایسی صورتحال
کی موجودگی میں کیا پتہ کہ جن افراد کی تصاویر شائع ہوئی ہیں ان میں سے
کوئی واقعی مسلمان ہے بھی کہ نہیں ؟ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ اسلام کے
حقیقی نام لیوا اور اس کی خاطر جان دینے والے حضرت امام حسین رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی طرح جان دے ہی دیا کرتے ہیں، یہ یا تو شہید ہوتے ہیں یا پھر
غازی، برقعے اوڑھ کر ، داڑھیاں منڈواکر اور جینز کی پینٹیں پہن کر بھاگا
نہیں کرتے۔ |