آنگ سان سوچی اپنی چونسٹھویں سالگرہ 19
جون کو نظر بندی میں منائیں گی
برما کی جمہوریت نواز اور سالہا سال سے نظربند سیاسی رہنما اور حزب ِ مخالف
کی لیڈر، نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی ہیں۔ جو دنیا میں دی لیڈی‘ کہلائی
جاتی ہیں۔ اس سال بھی وہ اپنی چونسٹھویں سالگرہ، 19 جون کو نظر بندی میں
منائیں گی۔ ان کے ہمدرد امید کر تے ہیں کہ پابندیوں میں گزرنے والی یہ ان
کی آخری سالگرہ ہو۔ جمہوریت نواز رہنما آنگ سان سوچی کو مئی دو ہزار تین
میں نظر بند کیا گیا تھا۔ انہوں نے پچھلے 19 سالوں میں تیرہ برس اپنے گھر
میں نظربندی کی حالت میں گزارے ہیں۔ اتوار کو وہ اپنی سالگر تنہائی میں
منائیں گی۔ ان کو ملنے والوں میں دو خدمت گار خواتین اور ایک ڈاکٹر ہیں جو
ہفتے میں ایک بار ان کو دیکھنے آتے ہیں۔ آنگ سان سوچی گزشتہ تین سالوں سے
نظر بند ہیں۔انہیں بجا طور پر دنیا کا سب سے جانا مانا سیاسی قیدی مانا
جاتا ہے۔ آنگ سان سوچی نے اپنی زندگی کے گزشتہ سولہ میں سے نو سال قید
تنہائی میں گزارے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر سنہرا دور قید و بند
میں گزارا ہے۔ لیکن اب بھی ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی ہے۔
برما کی فوجی حکومت میں شامل جرنیل سوچی کی رہائی کے لیے ان تازہ ترین
درخواستوں پر دھیان دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ یہ جرنیل جنوب مشرقی
ایشیا کے اس ملک میں جمہوری تبدیلی کے لیے بیرونی دباؤ کو بھی نظر انداز
کرتے رہے ہیں۔ برما کی جمہوریت نواز اور سالہا سال سے نظربند رہنما آنگ سان
سوچی کی رہائی کے شروع ہونے والی نئی مہم میں برطانوی وزیر ِ اعظم نے بھی
اپنا نام شامل کروا دیا ہے۔ مسٹر گورڈن براؤن نے کہا اس ناقابلِ برداشت نا
انصافی پر دنیا خاموش ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ آنگ سان سوچی کی رہائی کے
لئے اپیلوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ برما کی حزب ِ مخالف، نوبل انعام یافتہ
لیڈر پر ایک مقدمے کی کارروائی جاری ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے
نظربندی کے ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کے حامیوں نے ان کی حق میں
انٹرنیٹ پر مہم شروع کی ہے۔ دنیا بھر سے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور معروف
ہستیاں وڈیو پیغامات ویب سائٹ پر ڈال رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں کمبوڈیا کے دارالحکومت نوم پِنہ میں سینکڑوں احتجاجیوں نے جنوبی
ایشیا اور یورپ کی سربراہ کانفرنس کے باہر مظاہرہ بھی کیا تھا۔ اس ہفتے کے
اوائل میں حقوق ِ انسانی کے کارکنوں نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے برما کی
حکومت سے آنگ سان سوچی اور دوسرے سیاسی مخالفین کو آزاد کرانے کے مطالبے پر
چھ لاکھ دستخط حاصل کر لئے ہیں۔ امریکی صدر اوباما نے بھی برما کی حکومت سے
ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ مقدمہ
محض ڈرامہ ہے اور الزامات بے بنیاد ہیں۔ تین برس پہلے جب ان کی نظر بندی کی
مدت اختتام کو پہنچ رہی تھی تو امید کی جا رہی تھی کہ آنگ سان سوچی کو رہا
کر دیا جائے گا ۔ لیکن برما میں حکام نے اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی کی گھر
میں نظر بندی کی مدت بڑھا دی تھی ۔ اس وقت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل
کوفی عنان نے برما کی فوجی حکومت کے سربراہ سے اپیل کی تھی کہ آنگ سان سوچی
کی نظر بندی ختم کردی جائے۔کوفی عنان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ جنرل
تھان شوی درست قدم اٹھائیں گے۔ لیکن چند ہی گھنٹوں کے بعد برما کی حکومت کا
یہ فیصلہ سامنے آگیا کہ آنگ سان سوچی مزید نظر بند رہیں گی۔ اس اعلان سے
قبل رنگون میں واقع ان کے گھر کے اطراف سکیورٹی بڑھا دی گئی تھی ۔ حکام کا
کہنا ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ وہ کب تک نظر بند رہیں گی۔ آنگ سان سوچی کی
سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی انتخابات میں فتح کی سولہویں سالگرہ
منانے کی تیاریاں کر رہی ہے تاہم جماعت کی اس کامیابی کو فوج نے کبھی تسلیم
نہیں کیا۔ انیس سو باسٹھ میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور برما
میں فوجی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ درمیان میں انہیں بہت تھوڑی مدت کے لئے رہا
کیا گیا تھا۔ اپنی رہائی کے بعد ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا کہ
وہ غیر مشروط طور پر رہا ہوئی ہیں اور انہیں ملک میں سفر کرنے کی مکمل
آزادی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ برما میں جمہوری تبدیلیاں لانے کے لئے پوری
طرح ثابت قدم ہیں۔ سوچی انیس ماہ سے رنگون میں اپنے گھر پر نظر بند تھیں
اور انہیں کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔
پچھلے ڈیڑھ سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کی فوجی حکومت نے انہیں گھر سے
باہر آنے کی اجازت دی - وہاں بھی سوچی نے اپنی مختصر تقریر میں اس بات پر
زور دیا تھا کہ انہیں غیر مشروط طور پر رہا کیا گیا ہے اور یہ کہ اب وہ
سیاسی رہنما کی حیثیت میں کام کرنے کے لئے آزاد ہیں- سوچی کی جماعت نے انیس
سو نوے کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن فوج نے انہیں اقتدار
میں نہیں آنے دیا- انہیں ستمبر سن دو ہزار میں گرفتار کر کے ان کے گھر پر
نظر بند کر دیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کی فوری وجہ ان کی نقل حرکت پر عائد
پابندیوں کے خلاف ان کی مزاحمت تھی۔ آنگ سان سوچی نے آخری بار گرفتار ہونے
سے پہلے ملک کا دورہ کیا تھا جس کے دوران ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔
سوچی کے والد آنگ سان کو برطانوی سامراج کے دوران برما کو متحد کرنے کے لیے
یاد کیا جاتا ہے۔ سوچی کی انیس سو اٹھاسی میں برما واپسی پر امید ظاہر کی
جا رہی تھی کہ وہ اپنے والد کا کارنامہ دہرائیں گی۔ سوچی کے پاس کبھی کوئی
سیاسی عہدہ نہیں رہا لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اپنی شہرت کے بل پر وہ
نسلی بنیادوں پر تقسیم ملک کو متحد کر سکیں گی۔ رنگون کے موجودہ حکمرانوں
کی نسلی گروہوں سے بات چیت میں عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے
کہ سوچی کی ان گروہوں کو قریب لانے کی صلاحیت انہیں خطرناک بنا دیتی ہے۔ اس
کا ایک ممکنہ نتیجہ یہ ہے کہ سوچی کی سالگرہ کے موقع پر ان کی رہائی کے لیے
درخواستوں پر کان نہیں دھرا جائے گا اور امکان یہی کہ وہ زندگی کا یہ سال
بھی زیادہ تر اپنے گھر کی چار دیواری میں قید تنہائی میں ہی گزاریں گی۔
|