عیدالفطر تہذیب و شایستگی کا جشن
، زندگی کی اعلا اقدار اور عظیم روایت کی علامت و نشانی ہے۔ یہ دن تقویمِ
عیسوی کے مطابق ۲۷؍ مارچ ۶۲۴ء / یکم شوال المکرم ۲ھ سے منایا جارہا ہے جسے
سب سے پہلے محسنِ انسانیت ، مفخرِ موجودات ، مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثار صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے
ساتھ مدینۂ منورہ سے باہر منایا تھااس وقت آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی عمر
مبارک ۵۲؍ سال ۶؍ماہ ۲۰؍ یوم تھی۔
ابن حبان کے مطابق ہجرت کے دوسرے سال جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ
بدر کی شان دار فتح کے بعد مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس کے آٹھ دن بعد
عیدالفطر منائی گئی۔
عیدالفطر کا دن بڑا ہی مبارک و مسعود اور پُر عظمت دن ہے جس میں خالقِ
کونین جل شانہٗ نے بہشتِ بریں کو پیدا فرمایا، طوبیٰ کا درخت اس میں نصب
فرمایا، جبریلِ امین کو پیغامِ خداوندی لے جانے کے لیے عید کاروز منتخب
فرمایا، فرعون کے جادوگروں نے اسی دن پیغامِ ہدایت پاکر نورِ ہدایت سے قلوب
کو منور کیا، اور اللہ نے انھیں بخش دیا ۔ یہ دن روزہ داروں کے لیے مسلسل
مجاہدہ اور نفس کشی کے بعد انعام و اعزاز کے طور پر اپنے دامن میں ہزاروں
مسرتوں ، شادمانیوں اور خوشیوں کا پیغام لے کر جلوہ گر ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا
نام آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ انعام کی رات سے لیاجاتا ہے اور جب صبح عید
طلوع ہوتی ہے تو حق تعالیٰ جل شانہٗ فرشتوں کو تمام بستیوں میں بھیجتا ہے
اوروہ روے زمین پر اتر کر تمام کوچوں اور شاہ راہوں کے سِروں پر ایستادہ
ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جسے جنات اور انسانوں کے سوا ہر مخلوق سماعت
کرلیتی ہے پکارتے ہیں کہ :’’ اے امتِ محمدیہ اس کریم رب کی بارگاہِ کرم میں
چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے ، جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو
رب العزت جل شانہٗ فرشتوں سے فرماتا ہے کہ کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا
کام پورا کرچکا ہو؟ وہ عرض گزار ہوتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس
کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری اور اجرت پوری پوری عطا کردی جائے تو مالکِ
کون و مکاں جل شانہٗ ارشاد فرماتا ہے کہ :’’ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ
بناتا ہوں کہ میں نے انہیں رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا
اور مغفرت عطا فرمادی اور بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ:’’ اے
میرے بندو! مجھ سے مانگومیری عزت و جلا ل اور بلندی کی قسم! آج کے دن اپنے
اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گا، دنیا کے
بارے میں جو سوال کروگے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا، میرے عزوجلال
کی قسم! میں تمہیں مجرموں اور کافروں کے روبہ رو رسو ا نہ کروں گا میں تم
سے راضی ہوگیا۔‘‘ فرشتے اس اجر وثواب کو دیکھ کر جوعیدالفطر کے روز امتِ
محمدیہ کے لیے ارزاں کردیا جاتا ہے مسرور و شادماں ہوتے ہیںاور فرحت و
انبساط کے ساتھ خوشیاں مناتے اور کھل جاتے ہیں(الترغیب والترہیب)
خوشی و مسرت ، فرحت و شادمانی اور بابرکت و پُرمسعو دموقع پر خداوندِ قدوس
جل جلالہٗ کے نزدیک اس کی خوشی ، خوشی نہیں جو ضرورت مندوں ، بے کسوں ،
ناداروں ، محتاجوں ، بیواوں ، یتیموں، تنگ دستوں اور فاقہ مستوں کو فراموش
کرکے بزمِ نشاط و انبساط سجاتا ہو آج سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ضرورت مند
،تنگ دست ، پریشان اور مفلوک الحال لوگوں کو تلاش کرکے ان کی حاجت روائی کی
جائے محبوبِ سبحانی حضرت سیدنا غوثِ اعظم عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ
عید کی اصل روح اور حقیقت بیان کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں :’’ عید ان کی
نہیں جنھوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا بل کہ عید تو ان کی ہے
جو خدا کی وعید اور پکڑ سے بچ گئے اور اس کے عذاب و عتاب سے ڈر گئے ، عید
ان کی نہیں جنھوں نے بہت زیادہ خوشیاں منائیں بل کہ عید تو ان کی ہے جنھوں
نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے ، عید ان کی نہیں جنھوں نے
بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور دسترخوان آراستہ کیے بل کہ عید تو ان کی ہے
جنھوںنے مقدار بھر نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی عید ان کی نہیں
جودنیاوی زیب و زینت اور آرایش و زیبایش کے ساتھ گھر سے نکلے بل کہ عید تو
ان کی ہے جنھوں نے تقوا ، پرہیزگاری اورخوفِ خدا اختیار کیا۔ عید ان کی
نہیں جنھوں نے اپنے مکان پر چراغاں کیا بل کہ عید تو ان کی ہے جو دوزخ کے
پُل سے گزر گئے۔‘‘
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو زمانۂ خلافت میںلوگ عید کی مبارک باد
دینے لگے تو دیکھا کہ امیر المومنین خشک ٹکڑے تناول فرمارہے ہیں، کسی نے
کہا حضور ! آج تو عید کا دن ہے؟ یہ سن کر حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے
سرد آہ بھری اور فرمایا:’’ جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں جن کو
یہ ٹکڑے بھی میسر نہیں تو ہمیں عید منانے کا کیوں کر حق حاصل ہے؟‘‘ پھر
فرمایا:’’ عید تو ان کی ہے جو
عذابِ آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے نجات پاچکے ہیں۔‘‘
دینِ اسلام اخوت و اجتماعیت اور اتحاد و وِداد کا درس دیتا ہے اخوت و
اجتماعیت کا رنگ و آہنگ اسلامی شعائر و عبادات کا خاصہ ہے کہ تمام عبادات
کی روح اخوت و مساوات سے ہم رشتہ ہے۔ اخوت و مساواتِ انسانی کی اسی اہمیت و
عظمت کا اظہار محسنِ انسانیت سیدِ عرب و عجم مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ
وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع ۹؍ ذی الحجہ ۱۰ھ / ۲۶؍ مارچ ۶۳۲ء بروز جمعہ
کومیدانِ عرفات میں فرمایا تھا۔جہاں عرب کے گوشہ گوشہ سے جاں نثارانِ نبوت
و فداکارانِ سرورِ کائنات شَرَفِ ہم رکابی اور جمالِ جہاں آراے محبوبِ بے
مثال صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے جذبۂ لافانی کے تحت امڈ پڑے تھے۔
تاحدِ نظر انسانوں کا ایک موجیں مارتا سمندر نظر آتاتھا، انسانی تاریخ کے
ان بے مثل پروانوں اور بے نظیر فداکاروں سے جن کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ
چوبیس ہزار نفوسِ قدسیہ پر مشتمل تھی مفخرِ موجودات ، خاتم الانبیاء صلی
اللہ علیہ وسلم نے فصاحت و بلاغت کے ساتھ وہ عظیم الشان اور تاریخ ساز خطبہ
ارشاد فرمایا جو ’’خطبۂ حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور جسے اس کی
تاریخی اہمیت ، قدر ومنزلت اور جلالتِ شان کے باعث ’’حجۃ الاسلام، حجۃ
البلاغ ، حجۃ التمام، اور حجۃ الکمال ‘‘ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے اس
تاریخ ساز اجتماع او ر عظیم الشان خطبہ میں آپ نے ارشاد فرمایا:
’’لوگو! تمہارا رب ایک ہے تمہارا باپ ایک ہے سب ایک آدم سے ہیں اور آدم
مٹی سے تھے نہ کسی عربی کو عجمی پر برتری ہے بنہ کوئی عجمی کسی عربی پر
فضیلت رکھتا ہے نہ سیاہ فام سرخ فام پر فوقیت رکھتا ہے نہ سرخ فام سیاہ فام
پر، فضیلت و برتری کا معیار صرف تقوا پر ہے۔‘‘
اسلامی اخوت و اجتماعیت کا حقیقی رنگ اور عملی تصویر عہدِ نبوی صلی اللہ
علیہ وسلم میں مساواتِ انسانی کے سب سے بڑے علم بردار تاج دارِ کائنات صلی
اللہ علیہ وسلم کے دربارِ گہر بار میں بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ جہاں عداس
نینوائی، صہیب رومی، ذوالکاع حمیری، ابوسفیان اموی، کرز فہری ، بلال حبشی،
سلمان فارسی، عدی طائی، ابوذر غفاری، ابو حارث مصطفی ، طفیل دوسی ، شمامہ
نجدی، ابو عامع اشعری ، سراقہ مدلجی وغیرہم پہلو بہ پہلو بیٹھے اسلامی اخوت
و اجتماعیت کی عملی تصویر نظر آتے تھے اور ہر فرد اپنے ملک و قوم اور
قبیلہ کی نمایندگی کررہاتھا اور یہ و ہ عملی حقیقت ہے جس کا اعتراف غیر
مسلم دانش وروں کو بھی ہے چناں چہ Muhammed The prophetکے مصنف لکھتے ہیں
’’ عالمی اخوت اور انسانی مساوات کا اصول جس کی تبلیغ آپ نے کی وہ انسانیت
کی سماجی ترقی میں مرکزی مقام رکھتے ہیں پیغمبرِاسلام نے اس نظریہ کو حقیقی
عملی روپ میں پیش کیا اس کی اہمیت شاید کچھ دنوں بعد پوری طرح سمجھ میں
آجائے گی جب بین الاقوامی طاقت ور نظریہ وجود میں آئے گا۔‘‘
دیگر مذاہب کے مقابلے میں صرف اسلام ہی وہ عظیم مذہبِ مہذب ہے جو عملی
زندگی میںاخوت و مساوات کو حقیقی او ر عملی بنیادوں پر قائم رکھتا ہے
پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ ونسل ، حسب و نسب اور قومیت کے
تمام امتیازات کو سختی سے مٹادیا ہے ۔اسلام کی بنیاد ہی اخوت اور مساوات پر
قائم کی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامی اخوت اور مساوات کا کوئی دوسرا مذہب
مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ درس دیتا ہے کہ عقیدے
کی سلامتی اور درستگی کے ساتھ مل جل کر رہنے ہی میں دونوں جہاں کی عافیت
اور سرخ روئی ہے۔
عیدالفطر کا تہوار وسیع پیمانے پر اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتاہے۔ اور
عید کے اجتماعات امتِ مسلمہ کی اخوت و اجتماعیت اور عالم گیر مسلم برادری
کا دل کش اور عملی منظر پیش کرتے ہیں ۔ چناں چہ ان اجتماعات میںحاکم و
محکوم ، دولت مند وحاجت مند، غنی و گدا، تاج دار و چوب دار، فرماں روا و بے
نوا، نیاز مند و دردمند ، عالم و عامی مسلمان خواہ اس کا تعلق کسی قوم
یاقبیلہ سے ہو ایک ساتھ شریک ِ عبادت ہے سجدہ ریزی میں مصروف ہے اس موقع پر
حاکم و محکوم کا کوئی امتیاز ہی نہیں ہوتا دوسری طرف نماز کی ادایگی سے قبل
صدقۂ فطر کی تقسیم کا حکم ہے تاکہ تنگ دست اور مفلوک الحال بھی ضروریات ِ
زندگی کی تکمیل کے ساتھ عید کی خوشیوں اور مسرتوں میں شریک ہوسکیں کیوں کہ
حقیقی خوشی کا حاصل غم زدوں کی زندگیوں میں خوشیوں کو عام کرنا ہے اور
انھیں مسرتوں سے مالا مال کرنا ہے گویا یہ بھی اخوت و اجتماعیت کا اظہار ہے
کہ امیر و غریب کے سارے امتیازات کا خاتمہ ہوجائے۔
آج دنیا ایک ایسی عالم گیر برادری کی متلاشی ہے جس میں آدمی کے درمیان
امتیاز نہ رہے نسل و رنگ کا فرق نہ رہے جس میں امیر و غریب ، حاکم و محکوم
، شاہ و گدا سب کو یک ساں حقوق و مراعات حاصل ہوں جس میں تمام انسانوں میں
اخوت و بھائی چارگی کا قیام عمل میں آئے تمام انسانوں میں اتحاد و اتفاق
قائم رہے امن و دوستی ، رواداری اور صلح و آشتی کا بول بالا ہو اور کوئی
بھی فرد کسی کے حقوق کی پامالی نہ کرے ، دہشت گردی سے دنیا کو نجات ملے تو
اس سلسلے میں جب تک اقوامِ عالم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے
لائے ہوئے مقدس دین اسلام کی تعلیمات سے رہِ نمائی حاصل نہیں کرے گی وہ
ایسی تبدیلی نہیں پیدا کرسکتی سچ تو یہ ہے کہ رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ
وسلم کے دامنِ رحمت سے وابستگی اور آپ کی عظمت و رفعت کو تسلیم کیے بغیر
اخوت و اجتماعیت کا تصور ناممکن ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ سلم کی تعلیمات
اور سیرتِ طیبہ سرتاسر انسانیت کے لیے رہنماے کامل ہے۔ |