ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کے
خیالات کو انتشار کا شکار کرنا اور سوچ کو بدلنا آسان ہو گیا ہے۔ جیسے جیسے
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال آسان ہوتا جا رہا ہے ویسے ہی منفی پراپیگنڈہ
کرنے والے عناصر ان سے بھر پور فائدہ اُٹھا رہے ہیں ۔ دہشت گرد اپنے نقطہ
نظر کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے انٹر نیٹ ، سی ڈی اور ویڈیو ز کا استعمال
کررہے ہیں ۔ وہ اپنے انتہا پسند خیالات کو خوف و ہراس پھیلانے کے ساتھ ساتھ
سزاؤں سے بھی ڈراتے ہیں۔ اُن کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہے کہ اخبارات ، مختلف
ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پیغام کو زیادہ سے زیاد ہ لوگوں
تک پہنچائیں ۔ زیادہ تر اُن کا پیغام نوجوانوں کو راغب کرنا ہوتا ہے ۔ جہاد
کے نام پر نوجوانوں کو بہکانا ، خود کش حملہ آوروں کے آخری پیغامات ، پر
اثر نغمے اور گیت اور ایسی تقاریر جس سے مسلمانوں میں نفرت پھیلے ۔ ان تمام
منفی ہتھکنڈوں کا مقصد یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل کو حکومت کے خلاف بہکایا
جائے تاکہ وہ بھی کشمکش کا شکار ہوکر آخر کاریہی سمجھنے پر مجبور ہوجائیں
کہ باقی سب غلط ہیں اور منفی پراپیگنڈہ کرنے والے دُرست ہیں ۔
اب یہ ذمہ د اری والدین ، اساتذہ اور میڈیا کی ہے کہ وہ ایسے مذموم مقاصد
کو سمجھیں اور اپنے نوجوانوں کو اس نفسیاتی یلغار سے بچانے کی کوشش کریں ۔
نوجوانوں کے ذہن نا پختہ ہوتے ہیں اور وہ ایک ایسے دور سے گزر رہے ہوتے ہیں
جہاں نئی باتیں یا سوچ اُن کو اپنی طرف کھینچتی ہیں خاص طور پر جن میں مُہم
جوئی ہو۔ چاہے اُنہیں یہ باتیں کتنی ہی بُری کیوں نہ لگیں تجسس کی وجہ سے
اُنہیں دیکھتے اور سُنتے ضرور ہیں ۔ اگر یہ مواد آسانی سے دستیاب ہوتو
نوجوان گھر والوں سے چھپ کر اور دوستوں کے ساتھ اُن لوگوں کے ساتھ اُٹھنا
بیٹھنا شروع کر دیتے ہیں اور اُن کی بات سُننا اور ماننا شروع کر دیتے ہیں
جو اس قسم کے واعظ اور اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں ماہر ہوتے ہیں ۔
نوجوانوں کے اسی جذباتی پن جس میں وہ خود کو تبدیلی لانے کا ایک اہم حصہ
سمجھتے ہیں کو اہمیت دے کر اُنہیں ورغلایا جاتا ہے کہ وہ خاص بندے ہیں اور
اُنہیں خاص کام کے لیے چنا گیا ہے۔ اس عمر میں اہمیت حاصل کرنا اور ذمہ
داری لینا بہت اہم سمجھا جاتا ہے اس لیے کسی بھی نظریے کو پرکھنے کا شعور
نہیں ہوتا ۔ بس یہی بات اہم ہوتی ہے کہ اُن کو کچھ کرنا ہے جو سب کے لیے
بھلائی ہے۔ اسی بھلائی کی آڑ میں وہ دہشت گردوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں ۔
جتنے بھی کم سن اور نوجوان دہشت گرد پکڑے گئے ہیں اُنہیں اپنے عمل کے نتیجے
میں ہونے والی تباہی اور بربادی کا احساس ہی نہیں تھا ۔ اُن کے ذہنوں میں
تو بس" دُشمن" کو مارنا اور اسلام کے خلاف قوتوں کو ختم کرنا مقصد بتایا
جاتا ہے ۔ جب اُنہیں احساس ہوا کہ وہ کیا کرنے جارہے تھے تو وہ خود پریشان
ہوگئے۔ مسجد اور مزاروں کے سامنے دھماکا کرنے والے ان معصوم ذہنوں نے جب
یہاں اﷲ کانام سُنا اذان سنی تو وہ رُک گئے اور حیرانی سے پوچھا کہ کیا یہ
مسجد ہے اور یہ سب لوگ مسلمان ہیں ۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ
ہمارے نوجوانوں اور کم عمر بچوں کی معصومیت کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے ۔
ان تمام حالات کے پس منظر میں ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ والدین اور اساتذہ
تعلیم و تربیت کے لئے خصوصی شعوری کوشش کریں اور ایسا دوستانہ ماحول
اپنائیں جن سے بچے اور نوجوان اُن کے قریب ہوں اور اُن کو ہر بات بتا سکیں
۔ رویوں میں تبدیلی کا بغور مشاہدہ کریں تاکہ ابتداء ہی سے ایسے مسائل کی
نشاندہی کرکے اُنہیں سلجھایا جا سکے ۔ دہشت گردی کو اُسی وقت ختم کیا جا
سکتا ہے جب ساری قوم کی اس کے خلاف سوچ اور جدوجہد ایک ہی سمت میں ہو ۔ |