رات کے تین بجے میری گاڑی کراچی کے علاقے
ایف بی ایریا کے ایک چوک سے ٹرن ہوئی، وہاں ایک ایسا منظر دیکھا کہ نہ
چاہتے ہوئے بھی میں گاڑی روکنے پر مجبور ہوگئی۔ اس چوراہے پر اچھی خاصی
روشنی ہوتی ہے، جس میں یہ منظر اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ میرے سامنے
تھا۔ میں نے گاڑی ایک طرف کی اور انھیں دیکھنے لگی جو میری حیرت کی وجہ بنے
ہوئے تھے۔ وہاں کچھ بچے، جن کی عمریں چھے سے پندرہ سال کے درمیان تھیں،
عجیب مدہوش حالت میں گرتے پھر کھڑے ہوجاتے۔ کوئی بچہ لڑپڑتا، کوئی دوسرے پر
چیخنے لگتا، کوئی اپنے ساتھی کو مارنے کے لیے دوڑتا، لیکن ہاتھوں میں جان
ہی نہ ہوتی کہ وار نشانے پر لگتا۔ میں نے بہ غور ان کے چہروں کو دیکھنا
چاہا۔ ان میں سے کچھ بچے تو وہی جانے پہچانے چہرے تھے، جو روز میری گاڑی کے
سامنے شیشہ صاف کرنے کے لیے دوڑ کر سگنل پر آجاتے ہیں۔ اپنے بھائی سے
معاملہ دریافت کرنے پر حقیقت یہ سامنے آئی کہ یہ سب بچے نشئی ہیں۔ یہ ان کے
روز کا معمول ہے۔ گاڑیوں کے شیشے صاف کرنا اور بھیک مانگنے کے بعد جو رقم
ان کو ملتی ہے وہ اس سے ہیروئن خریدتے ہیں۔
یہ کیسی دل دہلادینے والی حقیقت ہے کہ یہ معصوم بچے نشے جیسی لت کا شکار
ہوکر سڑکوں پر بے یارومددگار بکھرے ہوئے ہیں۔ ایک بات جو مجھے حیرت میں
مبتلا کیے ہوئے تھی وہ یہ تھی کہ جہاں یہ بچے بیٹھے کھلے عام نشہ کر رہے
تھے، وہاں بالکل سامنے پولیس کی ایک چوکی قائم ہے اور یہاں رینجرز کی
گاڑیاں چوبیس گھنٹے موجود ہوتی ہیں، لیکن قانون کے رکھوالوں کی توجہ سے یہ
بچے محروم تھے۔
یہ منظر میرے ذہن پر نقش ہوکر رہ گیا، بہت سے سوالات اور خیالات کے ساتھ۔
نشہ انسانی زندگی میں سرور یا حقائق سے فرار بن کر داخل ہوتا ہے اور پھر
انسان کو اپنا محتاج بناکر کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ اپنی ہی دنیا میں مگن ان
لوگوں کو نہ حال کی فکر ہوتی ہے نہ مستقبل کی۔ ان کی خواہش، ضرورت اور
مجبوری سب کا ایک ہی نام ہے، نشہ۔ اور نشہ اگر ہیروئن کا ہو تو نشئی کہیں
کا نہیں رہتا۔ کسی کو ایک بار یہ لت لگ جائے تو اسے چھوڑنا مشکل ترین جنگ
سے کم نہیں۔ یہ لت جسم کے ساتھ ساتھ عزت نفس اور غیرت سمیت ہر مثبت انسانی
وصف کھا جاتی ہے۔ نشے کی طلب میں ٹوٹتا چٹختا جسم کسی بھی قیمت پر نشہ طلب
کرتا ہے، اور یہ طلب کبھی باپ کی جمع پونجی پر ہاتھ صاف کرکے پوری کی جاتی
ہے تو کبھی ماں کے کنگن چُرا کر، اور کبھی بہن کے جہیز کے لیے رکھا زیور
بھی دھویں کی نذر کردیا جاتا ہے۔
ہر حس کو مفلوج کرتا اور ہر قدر کی جان لیتا نشے کا رجحان پاکستان میں کس
قدر تیزی سے فروغ پذیر ہے اس کا اندازہ گلی کوچوں اور سڑکوں سے سے
قبرستانوں اور ویرانوں تک پھیلے ایسے مناظر سے بہ آسانہ لگایا جاسکتا ہے
جیسا میرے ذہن پر نقش ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس
وقت پاکستانیوں کا تقریباً 5.8 فی صد مختلف منشیات استعمال کر رہا ہے۔
ہمارے ملک میں لگ بھگ 6.4 ملین افراد اس لت کا شکار ہیں، گویا ہر 27
پاکستانیوں میں سے ایک منشیات کا عادی ہے۔ ان اعدادوشمار میں ایک خوف ناک
حقیقت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں سے پچیس فی صد کے قریب
کسی نہ کسی نشے کے عادی ہیں۔
منشیات کی لعنت اپنے استعمال کرنے والوں ہی کو متاثر نہیں کر رہی بل کہ اس
کے اثرات اور طرح بھی معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ نشہ کرنے والوں میں
استعمال شدہ سرنجز کے ذریعے نشہ کرنے اور دیگر وجوہات کی بنا پر ایڈز جیسا
لاعلاج مرض بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نشے سے جنم لینے والی دیوانگی بھی
مختلف افسوس ناک واقعات کی صورت میں اپنے جلوے دکھاتی رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل
کراچی کے ایک پوش علاقے میں ہونے والی قتل کی واردات کی بابت سامنے آنے
والے حقائق بتاتے ہیں کہ اس گھر میں رہائش پذیر لوگ اورمہمان آنے والاایک
جوڑاہیروئن سے بنیں ٹیبلٹس کھائے ہوئے تھے اور نشے کی حالت ہی اس قتل کا
سبب بنی۔ اس واقعے سے مزید تلخ حقیقیتیں بھی سامنے آئیں، جیسے ہیروئن سے
بنی یہ ٹیبلٹس، جنھیں آرڈر ملنے پر تیار کنندہ کمپنی کے اہل کار آرڈر دینے
والے کے گھر پر ڈیلیور کرنے جاتے ہیں اور جس کی مالیت پندرہ سو رورپے فی
ٹیبلٹ ہے۔ یعنی یہ اتنا ہی آسان ہے جیسے پیزا کا آرڈر دینا۔ کیا یہ کیپسول
کوئی رجسٹرڈ فارماسیوٹیکل کمپنی بنا رہی ہے؟ اگر نہیں تو یہ کہاں تیار ہور
رہے ہیں؟ یہ اور اس جیسے کتنے ہی سوالات اس معاملے سے جُڑے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ ہمارے میڈیا پر ملک میں پھیلتی منشیات کے بڑے چرچے تھے۔
خبروں سے لے کر آرٹیکلز، فیچرز اور کالموں تک یہ مسئلہ تواتر سے جگہ پاتا
اور زیربحث رہتا تھا، مگر دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بجلی کے بحران، گیس کی
قلت اور سیاسی اتارچڑھاؤ نے ہمارے رگ وریشے میں زہر اتارتے اس مسئلے کو
ہماری آنکھوں سے اوجھل کردیا ہے۔
اس معاملے میں پولیس کی کارکردگی نشہ کرنے والے بے یارومددگار افراد کو پکڑ
کر تھانے میں بند کرنے سے آگے شاید ہی بڑھ پاتی ہے۔ ہیروئن سمیت تمام
منشیات اپنے راستوں سے ہوتی ہوئی منزلِ مراد پاتی ہیں اور ہمارے قانون نافذ
کرنے والوں کی رکاوٹیں اور چوکیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ ہزاروں افراد
خاص کر نوجوانوں کی زندگیاں نگل جانے والی ہیروئن اور دیگر منشیات گذشتہ
عشرے کے دوران ہمارے تعلیمی اداروں کا بھی رخ کر چکی ہیں، جہاں طلبہ ہی
نہیں طالبات بھی اس لت کا شکار ہورہی ہیں، مگر کوئی اس خوف ناک مسئلے کی
طرف توجہ دینے کو تیار نہیں۔
نشہ کرنے والے کی زندگی تو جہنم بن ہی جاتی ہے اس کے ساتھ اس کے اہل خانہ
کی زندگیاں بھی جلتی سلگتی رہتی ہیں۔ اپنے پیارے کو اس عذاب سے نکالنے کے
لیے انھیں بحالی کے مراکز کا سہارا ہو تا ہے، مگر پورے ملک میں ان مراکز کی
تعداد 100سے بھی کم ہے۔ حکومت اگر خود منشیات استعمال کرنے والوں کو اس لت
سے نجات دلانے کے مراکز قائم کرنے سے قاصر ہے تو اسے ایسے اداروں کی مالی
مدد کرنی چاہیے۔
منشیات کا پھیلاؤ روکنے اور اس لت میں مبتلا افراد کی بحالی کے لیے حکومت
کو جامع حکمت عملی وضع کرنی ہوگی اور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ ورنہ روشن
چورنگی پر پولیس چوکی کے سامنے نشے میں ڈوبے کم سن بچے ہماری آنکھوں کا
منظر بنے رہے ہیں گے۔ |