کم تنخواہ اور مہنگائی نے عید کی خوشیاں بھی چھین لی ہیں

تحریر : محمد اسلم لودھی

اس میں شک نہیں کہ عیدکا مبارک دن ماہ رمضان کی بابرکت سعادتوں اور روزے کی حالت میں کئی گئی عبادتوں کے ثمر کے طور پر اﷲ تعالی کی جانب سے حاصل ہوتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ خوشیوں بھرا دن اس مزدور کی اجرت کی طرح ہے جو سارا مہینہ خون پسینہ ایک کرکے محنت مزدوری کرتا ہے اور اس کے صلے میں مہینے بعد تنخواہ وصول کرتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوشیاں صرف مسکرانے اور چھلانگیں مارنے کانام نہیں ہے بلکہ خوشیاں منانے کے لیے سب سے پہلے اپنے بچوں کی فرمائشیں پوری کرنی پڑتی ہیں ۔ ہر بچہ والدین سے عید پر نئے کپڑوں ٗ نئے جوتوں اور جیب خرچ کا تقاضا کرتا ہے پھر عید کے تین دنوں میں گھر میں روایت سے ہٹ کرکھانے پینے کا بھی کچھ اہتمام ہونا چاہیئے ۔ پیٹ پر پتھر رکھ کر عام دن تو گزر جاتے ہیں لیکن عید کے دنوں میں خاندان کا ہر فرد اپنی اپنی خواہشات رکھتا ہے۔ ایک جانب بچوں کی یہ معصوم فرمائشیں تو دوسری طرف والدین کی مالی مجبوریاں انہیں تفکرات کی دلدل میں اتارتی چلی جاتی ہیں پہلے تو ان کے لیے یہ بھی ایک مسئلہ تھا کہ وہ سحر ی اور افطاری کااہتمام بچوں کی پسند کے مطابق کیسے کریں یہ سوچ کر جب بازار کا رخ کرتے ہیں تو دکانوں پر پھلوں کے انبار دکھائی دیتے ہیں لیکن خریدنے کے لیے جس پھل پر بھی ہاتھ رکھتے ہیں اس کی قیمت سن کر ان پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے یہ موسم آم ٗ انگور ٗ کیلے ٗ گرما ٗ آلو بخارہ اور کھجور کا ہے۔ یہ تمام پھل اپنی اہمیت اور ذائقے کے اعتبار سے ہر دلعزیز ہیں گھر میں موجود ہر فرد کی خواہش ہوتی ہے کہ روزہ افطار کرنے کے وقت جب پیاس شدت اختیار کرجاتی ہے تو پیاس بجھانے کے لیے ٹھنڈے مشروبات بھی ہونے چاہیں پھر سموسے اور پکوڑے تو روزوں میں لازم ملزوم ہوچکے ہیں لیکن بطور خاص رمضان میں جہاں پھلوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دی جاتی ہیں وہاں سموسے اور پکوڑے بھی قوت خرید سے باہر ہوچکے ہیں ۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جس گھر میں آٹھ دس افراد روزہ رکھنے اور افطار کرنے والے ہیں وہاں اخراجات کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا گھر کا سربراہ چوری کرے گا یا ڈاکہ ڈالے گا کیونکہ پاکستان میں ایک عام آدمی کی تنخواہ پانچ ہزار سے شروع ہوکر بمشکل بارہ ہزار تک پہنچتی ہے اتنی کم تنخواہ میں بجلی گیس پانی اور فون کے بلوں کے ادائیگی کے بعد آدھی تنخواہ تو پہلے ہی خرچ ہوجاتی ہے پھر جو لوگ کرایے کے مکانوں میں رہتے ہیں انہیں ہر مہینے کرایہ بھی اداکرنا پڑتا ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ گھر کے اخراجات پورے کرنے ٗ سحری اور افطاری کے لیے اہتمام کرنے اور عید کے موقع پر گھر کے تمام افراد کے لیے نئے کپڑوں اور نئے جوتوں کااہتمام کرنا کیا ممکن رہ جاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امیرزادے جب نئے کپڑے اور نئے جوتے پہن کر نئی گاڑیوں میں فراٹے بھرتے ہوئے ٗ ہوٹلوں میں ہزاروں روپے بوفے نما کھانوں پر اڑتے دکھائی دیتے ہیں تو رزق ہلال کمانے والے اور ان کے بچے خون کے آنسو روتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ماہ رمضان اور عید کے موقع مالی پریشانیوں اور تنگدستی کاشکار والدین کے پاس خودکشیاں کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کتنے ہی لوگ اس مرتبہ بھی خودکشیاں کرچکے ہیں۔حکمرانوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کوئی مرے یا جیئے وہ اپنے عیاشیوں میں اس قدر کھوئے ہوئے ہیں پہلے سے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے غریب اور متوسط طبقے کے افراد کو مزید ٹیکس لگا کر ٗ بجلی ٗ گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے انہیں زندہ درگور کرنے سے بھی دریغ نہیں کررہے ۔ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کے پاس گورنر شام کا بھیجا ہوا قاصد آیا اور گھی میں بنا ہوا کھجور کا حلوہ تحفتا پیش کیا حضرت عمر ؓ نے حلوے کا ایک لقمہ لیا تو بہت لذیذ محسوس ہوا ۔آپ ؓ نے قاصد سے پوچھا کیا شام کے رہنے والے سبھی ایسا حلوہ کھاتے ہیں قاصد نے جواب دیا امیر المومنین ایسا نہیں ہے تو حضرت عمر ؓ نے فورا ہاتھ روک لیا اور کہا میں یہ حلوہ اس وقت تک کھانے کا حق دار نہیں ہوں جب تک میری ریاست کا ایک غریب ترین آدمی بھی مالی طور پر اسے کھانے کی پوزیشن میں نہیں آجاتا۔ کاش پاکستانی حکمران بھی اسی نہج پر سوچیں ۔عراق کے صدر صدام حسین کو دنیا جابر کہے یا ظالم۔ اس میں ایک خوبی یہ تھی کہ وہ اچانک کسی بھی غریب بستی میں جاکر سب سے پہلے اس گھر کا باورچی خانہ اور فریج دیکھتا تھا لیکن لیکن پاکستان میں ایسا کوئی رواج نہیں ہے ۔ نواز شریف کے سابقہ دور میں جو بڑاگوشت 30 روپے کلو بکتا تھا مشرف اور پیپلز پارٹی کے ادوار کے بعد یہی بڑا گوشت ساڑھے تین سوروپے کلو تک جا پہنچاہے چنے کی دال پانچ روپے کلو تھی جو اب 100 روپے کلو تک پہنچ چکی ہے وہ گھی جو پچیس روپے کلو تھا اب180 روپے کلو پہنچ چکا ہے۔ آٹا جو آٹھ دس روپے کلو تھا اب چالیس روپے تک پہنچ چکا ہے۔ یہی تناسب اشیائے خوردنوش کی باقی چیزوں کا بھی ہے کپڑوں کامردانہ سوٹ جو چار پانچ سو روپے میں ملتاتھا اب ویسا ہی سوٹ ڈیڑھ سے دو ہزار روپے میں ملتا ہے نئے جوتے جو چار پانچ سو روپے میں آتے تھے اب دو ہزار میں بھی نہیں آتے ۔اس صورت حال میں ایک عام آدمی کیسے عید منائی ۔ مہینے بھر کی محنت مزدوری کے بعد جو آٹھ دس ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے اس میں سے چالیس پچاس ہزار کے اخراجات کیسے کیے جاسکتے ہیں ان حالات میں خوشیوں بھری عید ہم کیسے مناسکتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے 85 فیصد لوگ ماہ رمضان اور عید کے موقع پر مہنگائی ٗ بے وسائلی اور کم تنخواہ کے ہاتھوں اپنے گھروالوں سے بھی منہ چھپاتے پھرتے ہیں ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126736 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.