مضمون کا عنوان دیکھ کے ہی محبان ِ پاکستان
کے دلوں میں ٓگ لگ گئی ہو گی۔ماتھے پہ پسینہ اور آنکھوں میں چنگاریاں بھر
گئی ہوں گی اور لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون بھانپنے والے قارئین صاحب مضمون
کا تیاپانچہ کرنے کو تیار ہو گئے ہوں گے۔ہو سکتا ہے ایک آدھ کوئی خنجر چھرا
یا کلاشنکوف خریدنے بھی نکل پڑا ہو کہ آجکل شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا
ہے۔دوسری طرف امن کی آشا اور فاختہ اور نجانے کیا کیا اڑانے والوں کے دل
بلیوں اچھلنے لگے ہوں گے۔ان کی چہرے کی روشنی اور دل کی تاریکی مزید بڑھ
گئی ہو گی کہ آج ایک اور بندہ ٹوٹ کے ہمارے ساتھ آ ٓ ملا ہے۔ہمیشہ اپنے قلم
سے پاکستان کے قصیدے پڑھنے والا اتنا مایوس ہو گیا ہے کہ اسے بیچنے کی بات
کر رہا ہے۔پاکستان کے عظیم مستقبل کی پیش گوئیاں کرنے والا اور پاکستان کی
عزت حرمت اور سلامتی کو اپنے ایمان کا حصہ کہنے والا آج بازار میں کھڑا ہو
کے اپنے ہی ایمان کی بولی لگانا چاہتا ہے۔
جیسے بیٹیاں اﷲ کی رحمت ہوتی ہیں لیکن اسی رحمت کو بعد ازاں ان کے اپنے اور
حالات دونوں مل کے طوائف بننے پہ مجبور کر دیتے ہیں۔اس کے پاؤں میں گھنگھرو
باندھ کے اسے سر بازار ناچنے پہ مجبور کرتے ہیں۔یونہی رمضان کی ستائیسویں
کو منصہ شہود پہ آنے والا پاکستان بھی عطیہ خداوندی تھا لیکن جب قائد اعظم
کی وفات کے بعد یہ قوم اور یہ ملک یتیم ہو گیا تو اس کے نام نہاد وارثوں نے
اسے بازار میں بٹھا دیا۔وہ دن اور آج کا دن روز اس کی بولی لگتی ہے اور روز
اس کی بوٹیاں نوچی اور ہڈیاں چچوڑی جاتی ہیں۔روز اسے بازار میں بیچا جاتا
ہے کبھی امریکہ کو کبھی برطانیہ کو تو کبھی بھارت کو جو شروع دن ہی سے
پاکستان پہ اپنی نظریں جمائے اسے گھر کی باندی بنانا چاہتا ہے۔اﷲ بخشے
لیاقت علی خان سے لے آج تک جو بھی نابغہ ہم نے اپنے اوپر مسلط کیا یا جو
بندوق کے زور پہ ہماری چھاتی پہ آ سوار ہوا سبھی نے اس عطیہ خداوندی کو
اپنے خداوندوں کو عطیہ کیے رکھا۔کبھی ہم ڈالروں کے عوض ناچتے رہے تو کبھی
پونڈز ہماری تقدیر کے فیصلے کرتے رہے۔
اب کی بار ہم نے نواز شریف صاحب کو میڈ ان پاکستان قیادت سمجھ کے راج
سنگھاسن پہ بٹھایا(اﷲ جانے کس نے بٹھایا لیکن الزام تو ہمی پہ ہے)تو انہوں
نے بھی جو سب سے پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ کسی طرح کاروبار کی ترویج کے
لئے ہم بھارت کی گود میں جا بیٹھیں۔وہ تو موہنے سنگھ کواپنی حلف برداری کی
تقریب میں بلانا چاہتے تھے لیکن دوستوں کے دھیرج کے مشورے پہ رک گئے۔ان کی
سوئی ابھی بھی اسی ایجنڈے پہ اٹکی ہوئی ہے یہ علیحدہ بات کہ دوسری طرف سے
انہیں متواتر ٹھینگا ہی دکھایا جا رہا ہے بلکہ اب تو دوستی بس کی بھی بس
ہونے والی ہے۔بنئیے نواز شریف کی اس خود سپردگی کے جواب میں بھنوٹ ہوئے
پھرتے ہیں۔کبھی وہ سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے اور کبھی نہتے شہریوں پہ
حملہ آور ہوتے ہیں۔کبھی پارلیمنٹ میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے تو
کبھی بس کے مسافروں کو ہراساں کرتے ہیں۔ہندو میڈیابھی بڑھ چڑھ کے پاکستان
کے لتے لے رہا ہے لیکن نون غنے اس کے باوجود منہ میں گھنگھنیاں ڈالے پاک
بھارت دوستی کا راگ آلاپ رہے ہیں۔انہیں یاد رکھنا چاہئیے کہ یک طرفہ غلامی
ہوتی ہے دوستی نہیں۔
میں اس سے پہلے بھی بارہا لکھ چکا کہ ملکوں کے درمیاں دوستیاں مفادات پہ
ہوتی ہیں۔ان کی اصل میں رومان کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔چین ہمارا دوست ہے
لیکن موقع آئے تو وہ سلیقے سے ہماری مخالفت بھی کرتا ہے اور ہمیں جھنڈی بھی
دکھاتا ہے لیکن ہماری طرف سے ہمالیہ کی بلندی میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں
ہوئی۔اب چین کو اپنی تجارت بڑھانے کو ایک راہداری کی ضرورت ہے۔یہ اس کی
مجبوری ہے کہ وہ پاکستان میں انفرا سٹرکچر پہ سرمایہ کاری کرے۔ہمارے
افلاطون سمجھ رہے ہیں کہ یہ چین کی ہمارے ساتھ بے پایاں اور لازوال محبت کا
اظہار ہے۔ہم نے گھنگھرو باندھ لئے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں ہم چین کی تال
پہ ناچنے کو بے قرار ہیں۔دوسری طرف امریکہ بہادر نے بھی اپنا حساس اسلحہ
چمن اور طور خم کے راست کراچی کے ساحلوں پہ پہنچانا ہے ۔ہم نے اسے بحفاظت
پہنچانے کے لئے ابھی سے اپنی کمر پہ دوپٹے باندھ لئے ہیں۔ہمارے ہاں چونکہ
آبادی بہت بڑھ گئی ہے اس لئے اسے حد میں رکھنے کی خاطر ہم نے ابھی سے اپنی
پولیس فوج اور اس طرح کے دوسرے اداروں کو چین اور امریکہ کے لئے شہید ہونے
کا ٹاسک دے دیا ہے۔جونہی یہ کاریڈور چلنا شروع ہوں گے یہ علاقہ مفادات کی
جنگ میں مصروف ملکوں کے درمیان میدان جنگ بن جائے گا اور اس سارے قصے میں
تباہی کس کی ہو گی اسے سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔
بھینسوں کی لڑائی میں تباہی ہمیشہ جھاڑیوں ہی کے حصے ہی میں آیا کرتی ہے اس
میں کوئی شک نہیں لیکن میدان کو کرایے پہ دینے والے کاش اسے کم از کم مناسب
کرایے ہی پہ دے سکیں تو بھی کچھ عرصہ ہم کشکول کی ذلت سے بچ سکتے ہیں۔کاز
اب کی بار پاکستان کو اور اس کی سر زمین کو کوئی اچھے داموں بیچ سکے۔کاش |