رمضان المبارک کے تقدس و احترام کا اگر کسی کو حقیقی لطف اٹھانا ہے تو وہ
رمضان کے صرف چند دن مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں گزارے۔ سعودی عرب کے کسی
بھی چھوٹے بڑے شہر میں رمضان المبارک کا جو لطف حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور
مقام پر نہیں مل سکتا ہے ۔ راقم الحروف نے اﷲ کے فضل و کرم سے 24یا 25
رمضان المبارک جدہ میں گزارے۔ جدہ میں گذرے رمضان کے مہینوں کا کچھ حصہ
مدینہ منورہ اور خاصا حصہ مکہ مکرمہ میں گزارا۔ جدہ میں کئی عیدیں گزاریں
چند عیدیں مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ میں نصیب ہوئیں۔ 1977ء کے بعد 8-7 سال
تک سعودی عرب میں ماہ رمضان میں جو سختیاں اور پابندیاں تھیں وہ رفتہ رفتہ
کم ہونے لگیں اور اب تو سنا ہے کہ 1970ء کی دہائی کی بات بہت کم رہ گئی ہے۔
مجموعی طور پر آج کا رمضان ماضی کے رمضان سے قدرے مختلف ہوگیا ہے ۔ یہی حال
عیدین کا بھی ہے ۔ ملک خالد بن عبدالعزیز کا دور ملک فہد بن عبدالعزیز کے
دور سے کچھ مختلف تھا ملک خالد بن عبدالعزیز کے دور میں ماہ رمضان کی تقدیس
کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا تھا جب کہ ملک فہد کے دور میں پابندیاں اور
سختیاں قدرے کم ہوگئی تھیں۔
سعودی عرب میں1977ء میں پہلی بار ہم نے رمضان کا لطف اٹھایا تھا۔ سعودی عرب
میں رمضان یا عید کا چاند دیکھنے کیلئے ہم کو وہ تجسس بالکل نظر نہیں آیا
جو وطن عزیز کا خاصہ ہے ۔ اپنے یہاں مغرب سے کچھ پہلے ہر ایک چاند دیکھنے
یا اس کے دیکھنے جانے کی خبر پانے کی فکر میں رہتا ہے ۔ جبکہ سعودی شہری
ایسا کچھ نہیں کرتے ہیں بلکہ چاند کا اعلان حکومت کرتی ہے ۔ سرکاری اعلان
کے ساتھ ہی رمضان یا عید کی تیاری شروع ہوتی۔ رمضان کی دو تاریخوں اور دو
عیدوں کا سعودی عرب میں تصور بھی نہیں ہے‘ مجال ہے جو کوئی حکومت کے اعلان
سے اختلاف کرے! سعودی عرب میں چاند دیکھے جانے یا نہ دیکھے جانے کا اعلان
حکومت کرتی ہے ۔ برصغیر ہندو پاک کے بعض بدگمان لوگ اس کے مستند ہونے پر
شبہ کرتے ہیں اور حکومت پر بہتان لگاتے ہیں کہ حکومت چاند کا اعلان اپنی
مرضی سے کرتی ہے نہ کہ رویت ہلال کے مطابق ۔ نیز سعودی رمضان میں 30 روزے
ہونے نہیں دیتے ہیں۔ یہ ساری باتیں محض بکواس بے جواز اور غیر مستند ہیں۔
اس لئے ہم پہلے اسی کی بات کرتے ہیں۔ گزشتہ 35-30 سال میں سعودی عرب میں
کئی رمضان 30 دن کے بھی ہوئے اور حج جمعہ کو بھی ہوا۔ ’’حج اکبر‘‘ جیسی
کوئی چیز نہ شرع شریف میں ہے اور نہ ہی سعودی حکومت جمعہ کے دن یوم عرفہ ہو
تو اس کو کوئی اہمیت دیتی ہے اور نہ اپنے ملازمین کو بونس وغیرہ دیتی ہے۔
1980 ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں کسی سال سعودی عرب میں رمضان 28
روزوں کا ہوا تھا! 28 رمضان کو دیر گئے ہم گھر آئے تو ٹی وی پر عید کی
مبارکباد کے نغمے آرہے تھے اور بار بار اعلان ہورہا تھا کہ کل 29 رمضان
نہیں ہے بلکہ یکم شوال ہے یعنی عید ہے اور بتایا جارہا تھا کہ رمضان تو 30
شعبان کو ہی شروع ہوگیا تھا کیوں کہ رویت ہلال کی اطلاع نہیں ملی تھی اور
اب کیوں کہ اس سلسلے میں مصدقہ شہادت مل گئی ہے اس لئے عیدالفطر کل ہے اور
تمام لوگ عید کے بعد شوال میں ایک روزہ قضا کا ضرور رکھ لیں۔ ملک فہدبن
عبدالعزیز نے خود ٹی وی پر معذرت خواہی کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کیا
تھا ‘ ندامت کا اظہار کرتے ہوئے معذرت چاہی تھی ۔ ملک فہد کا یہ بیان بعد
عید بھی مختلف زبانوں میں سعود ی ٹی وی پر آتا رہا۔سعودی حکومت اگر چاند کا
اعلان اپنی مرضی سے کرتی ہے تو اتنی فاش غلطی کا اعتراف کیوں کرتی؟ کیا
صحیح ہے کیا غلط ہے؟ اس کا پتہ ہی کسی کو نہ چلتا۔
1977ء یا اس سے قبل سعودی عرب میں دولت کی فراوانی تھی۔ سعودی شہری اپنے
گھروں کو رنگ و روغن کرواتے‘ نیا فرنیچر‘ پردے‘ قالین ‘ فریج‘ ٹی وی‘ اے سی
غرض گھر کی بیشتر چیزیں نئی خریدی جاتیں۔ پرانا سامان سڑکوں پر پھینک دیا
جاتا جس میں سے اکثر یہ سامان غیر ملکی افراد بصد شوق اٹھالاتے اور استعمال
کرتے۔ پرانے سامان کا ایک بازار ضرور تھا لیکن سعودی سامان اٹھاکر وہاں
جانے کی زحمت نہ کرتے اور نیا سامان لانے والے مزدوروں سے پرانا سامان گھر
سے باہر کردیتے۔ یہ ساری تیاریاں عموماً رمضان سے قبل کرلی جاتیں۔
رمضان سے قبل اشیائے خوردونوش کا وافر ذخیرہ جمع کرلیا جاتا اور رمضان بھر
کھایا کم جاتا‘ پھینکا زیادہ جاتا۔ جب بڑے بڑے مالس ‘ سوپر مارکٹس اور
شاپنگ سنٹرس بن گئے تو یہاں کا رش اور خریداری قابل دید ہوگئی ہے۔
35-30 سال قبل یہ حال تھا کہ بازار خاص طور پر ’’ کرانے (پرچون)‘‘ اور جنرل
اسٹورس ظہر سے قبل کھلتے ہی نہ تھے۔ ظہر کے بعد دکان کھلتی لیکن عصر سے قبل
کھانے پینے کی کوئی چیز فروخت نہیں کی جاتی تھی کرانہ و جنرل اسٹورس زیادہ
تر یمنی چلاتے تھے اور وہ اس معاملے میں سخت تھے ۔ ہوٹل بھی مغرب سے قبل ہی
کھلتے تھے۔ وہ تمام لوگ جو خود نہ پکاکر ہوٹلوں پر منحصر رہتے تھے روزہ نہ
رکھ کر پریشان رہتے تھے۔(اب تو ہر جگہ اشیائے خوردونوش ملتی ہیں۔ ہاں مگر
برسرعام کھانا پینا ممنوع ہے)۔ سعودی عرب جاکر کئی مردوں نے کھانا پکانا
سیکھا ایسے لوگ رمضان میں (ہم جیسوں کو جن کو برائے نام پکانا آتا تھا) کی
خاطر مدارت بھی کرتے تھے۔ اس زمانے میں بہت کم لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ
تھے جن اصحاب کی بیگم ساتھ ہوتی تھیں وہ تنہا رہنے والوں کا خاص خیال رکھتے
تھے۔ اس زمانے میں جدہ میں ہندوستانی یاپاکستانی ہوٹل بہت کم تھے۔ افطار تو
مساجد میں شاندار ہوجاتی تھی ۔(یہ افطار ہندوستانی روایتی افطار سے مختلف
ہوتی تھی) لیکن ہوٹل میں کھانا کھانے والوں کو خاصی پریشانی ہوتی تھی۔ کچھ
یہی حال سحری کا بھی تھا۔
رمضان میں سعودی عرب میں ملازمین کے اوقات کار عام طور پر 8گھنٹوں کی جگہ 6
گھنٹے کردیئے جاتے تھے۔ نیز اوقات دفتر بھی بدل جاتے تھے کئی کمپنیاں افطار
کے بعد بھی کام کرتی تھیں ان کمپنیوں کے ملازمین کو بہ مشکل تمام صرف عشاء
پڑھنے کا موقع ملتا تھا۔ تراویح سے وہ محروم رہتے تھے۔ سعودی عرب میں حرمین
شریفین کے علاوہ عام طور پر حنفی مسلک کے برعکس تراویح میں صرف8 رکعات پڑھی
جاتی ہیں جدہ میں صرف ایک مسجد کا ہم کو پتہ چل سکا تھا جہاں 20 رکعات
تراویح اس زمانے میں ہوتی تھی۔ یہ مسجد باب شریف نامی محلہ میں تھی۔
ہندوپاک کے باشندوں کیلئے یہ عجیب بات تھی اس سے عجیب بات یہ تھی کہ حفاظ
کی کمی کے سبب ختم قرآن کا اہتمام ممکن نہ تھا اور اکثر امام تراویح میں
کلام پاک ہاتھ میں لے کر دیکھ کر قرآن پڑھتے تھے ۔ مصلیوں میں سے بھی چند
قرآن مجید ہاتھ میں لے کر امام جو پڑھتا تھا وہ دیکھتے جاتے تھے۔ وتر کی
نماز بھی یوں پڑھی جاتی تھی کہ پہلی دو رکعات کے بعد سلام پھیر کر تیسری
رکعت پڑھی جاتی تھی اور دعائے قنوت امام صاحبان اس قدر رقت انگیز انداز میں
پڑھتے کہ عربی نہ سمجھنے والے بھی بے اختیار روپڑتے تھے۔ تراویح اور وتر
اپنے مسلک سے مختلف دیکھ کر تراویح پڑھتے ہی نہ تھے یا گھر میں پڑھ لتے
تھے۔ اگر تراویح جماعت سے پڑھتے تو وتر کی جماعت میں شریک نہ ہوکروتر تنہا
پڑھا کرتے تھے۔ سعودی عرب میں اس زمانے میں بھی آج کی طرح مساجد نمازوں کے
اوقات میں کھلتی تھیں لیکن رمضان میں مساجد کھلی رہتی تھیں ۔ اے سی بھی
چلتے رہتے تھے تو تقریباً ہر مسجد میں ظہر و عصر کے درمیان سونے والوں کی
کثیر تعداد ہوتی تھی۔
بیشتر سعودی اور دیگر عرب افراد سحری میں فجر کی اذان سے پہلے تک خوردونوش
کا سلسلہ جاری رکھتے تھے۔ عرب سحری میں بھی کھجور ‘ پنیراور تل کا حلوہ
دہی‘ چھاچھ اور دودھ کے علاوہ تلی ہوئی مرغی روٹی اور چاول کھاتے ہیں۔
افطار میں کھجور بہ کثرت کھائے جاتے ہیں گرمی میں عربی قہوہ پیاس بجھاتا ہے
‘ دہی چھاچھ ‘ جوس کے علاوہ سنبوسے بھی استعمال کرتے ہیں۔ وہاں ایک سنبوسے
میں جتنا قیمہ ڈالا جاتا ہے اس کا اپنے یہاں تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ قیمہ
میں نمک مرچ بہت کم ہوتا ہے۔
مکہ مکرمہ کے حرم میں یا حرم نبوی ؐمیں افطار کا مزہ الفاظ میں بیان کرنا
ممکن نہیں ہے مکہ مکرمہ کے حرم میں یوں تو صرف کھجور اور قہوہ یا بغیر دودھ
کی چائے کی اجازت ہے ویسے کچھ لوگ چوری سے کچھ نہ کچھ لے آتے ہیں۔ لیکن عام
طور پر صرف کھجور سے افطار ہوتا ‘افطارمیں لوگ کھجور بہ کثرت تقسیم کرتے
ہیں۔ بہترین کھجور بھی اتنی کثرت سے تقسیم ہوتے ہیں کہ لوگ ان کو کھانہیں
پاتے ہیں یا گھر لے آتے ہیں۔ اتنے عمدہ اتنی زیادہ اقسام کے کھجور جو حرمین
شریفین میں کھائے اور کھلائے جاتے ہیں وہ کہیں اور ناممکن ہے۔ حرم کے صحن
میں یا بالائی منزل میں افطار سے قبل کعبۃ اﷲ کو دیکھتے ہوئے وقت افطار کا
انتظار‘ پھر افطاراور نماز مغرب کا لطف ناقابل بیان ہے۔ مغرب و عشاء کے
درمیان حرم میں مجمع کم ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی خاصا رش رہتا ہے۔ حرم مکہ
کبھی بند نہیں ہوتا ہے ‘ تراویح کے بعد فجر تک عمرہ کرنے والے‘ طواف کرنے
والے نماز پڑھنے والے اور تلاوت یا تسبیح پڑھنے والے عام دنوں سے بہت
زیادہوتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی تک حرم میں 20-15 رمضان تک رش نہیں ہوا تھا
جتنا کہ آخری عشرہ میں ہوتا تھا رفتہ رفتہ یہ فرق مٹتا گیا اور شروع رمضان
سے ہی حرم میں بے پناہ رش رہنے لگا۔ آخری عشرہ میں سعودی عرب کی بیشتر
مساجد کی طرح حرمین شریفین میں بھی نصف شب کے بعد نماز تہجد ہوتی ہے جس کو
’’ قیام اللیل‘‘ کہا جاتا ہے یہ نماز بیحد طویل ہوتی ہے رکوع و سجود بھی
طویل ہوتے ہیں۔ اس نماز کا لطف حرمین شریفین میں کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
حرم مکہ سے مسجد نبویؐ چلیں تو مسجد نبویؐکے بارے میں ایک خاص بات رمضان سے
منسوب یہ ہے کہ مسجد نبویؐ رمضان میں ہی رات بھر کھلی رہتی ہے ورنہ سال کے
دیگر مہینوں میں رات میں بند کردی جاتی ہے ۔ مکہ مکرمہ میں اگر جلال ہے تو
مدینہ منورہ میں جمال ہے۔ مسجدنبوی ؐکے علاوہ مدینہ منورہ کے دیگر مقامات
زیارت مثلاً مسجد قبا‘ مسجد قبلتین‘ وہ مقام جہاں غزوہ خندق ہواتھا وہاں
پہلے سات مساجد تھیں اب چھ رہ گئی ہیں‘ کوہ احد وغیرہ کو روزہ کی حالت میں
جانا نفل نمازیں پڑھنا شہدائے احد کی مزارات اور جنت البقیع کے قبرستان میں
نمازیں پڑھنا بھی سعادت ہی سعادت ہے۔ افطار میں مسجد نبویؐ کے دسترخوان
مشہور ہیں ۔ مسجد میں کئی دسترخوان سجائے جاتے ہیں ۔ مسجد نبویؐ میں سامان
افطار لانے پر پابندی نہیں ہے۔ ہر دسترخوان کا میزبان کوشش کرتا ہے کہ اس
کے وسیع دسترخوان پر زیادہ سے زیادہ لوگ آئیں۔افطار کے بعد ہی صرف چند
منٹوں میں دسترخوان سمیٹ لئے جاتے ہیں صفائی بھی چشم زدن میں ہوتی ہے اور
وہ جگہ نماز کے لئے تیار ہوتی ہے۔ دونوں حرم کے باہر بھی بعد نماز اہل خیر
روزہ داروں کو کھانے کی اشیاء تقسیم کرتے ہیں۔
سعودی عرب کی عید بھی وطن عزیز سے مختلف ہوتی ہے ایک تو چاند کا اعلان
حکومت ریڈیو اور ٹی وی پر کرتی ہے ۔ فجر کی نماز کے بعد ممنوعہ وقت ختم
ہوتے ہی نماز عید ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں اس زمانے میں نوواردوں کی نماز
عید چھوٹ جاتی تھی کہ وقت کا اندازہ نہ ہوتا تھا اور جدہ میں نمازِ عید
‘عیدگاہ کے علاوہ شائد ہی کہیں اور ہوتی تھی لوگ سمجھتے تھے کہ ہر مسجد میں
نماز عید ہوتی ہے اسی چکر میں جلدی اٹھ کر بھی نماز چھوٹ جاتی تھی۔ کیوں کہ
عیدگاہ پہنچنا بھی وقت کا طالب تھا۔ نماز کے بعد بیشتر سعودی خطبہ نہیں
سنتے ہیں۔ یہ دیکھ کر باشندگان ہندوپاک بھی خطبہ ختم ہونے سے قبل ہی اٹھ
جاتے ہیں(سچ ہے انسان کو بگڑتے دیر نہیں لگتی ہے) ہماری پہلی عید کی نماز
ہم نے آسانی سے پڑھی تھی کیوں کہ ہمارے ایک دوست نے ہم کو نہ صرف تمام رموز
سے آگاہ کردیا تھا بلکہ ہم کو اپنی گاڑی میں عید گاہ لے گئے تھے۔
عید غیر ملکیوں کیلئے پھیکی ہوتی ہے۔ چاند رات عموماً جاگ کر گزاری جاتی
ہے(عبادت میں نہیں بازار میں یا شاپنگ میں) اس لئے عید کی نماز سے فارغ
ہونے کے بعد زیادہ تر لوگ سوجاتے ہیں۔ ملنا ملانا شام میں ہوتا ہے۔ 40-35
سال قبل جدہ میں ہر گھر میں فون نہیں ہوتا تھا۔ پبلک بوتھ پر دھوپ میں لمبی
قطاریں فون کرنے والوں کی نظر آتی تھیں۔ خاصی دیر اور خاصی تھکن کے بعد وطن
میں گھر والوں سے چند منٹ بات ہوتی تھی۔ اکثر لوگ عید کرنے اپنے گھر چلے
جاتے تھے کیوں کہ اس زمانے میں عید میں کم از کم 7-5 دن اور عام طور پر آٹھ
دس دن کی چھٹی ہوتی تھی۔ اب جن کے دوست کم تھے وہ اگر جدہ میں عید کریں تو
ان کو خاصی پریشانی ہوتی تھی کہ دوست احباب اقارب تو وطن میں ہوتے تھے اس
طرح اکثر لوگ خاصے بور ہوتے تھے اور عید کا دن بے لطفی سے گزارتے تھے۔ اس
زمانے میں عید کے 6-5 دن اخبارات کو بھی تعطیل ہوتی تھی پوسٹ آفس بند ہوتے
تھے بازار ویران رہتے تھے۔ ٹی وی پر صرف ایک عربی چینل آتا تھا‘ ڈش انٹینا
ویڈیو وغیرہ کا چلن نہ تھا لین جب کافی فیمیلیز جدہ آگئیں تو عید وں کا مزہ
لوٹ آیا رمضان اور عید میں جب اور اب میں خاصا فرق آچکا ہے نئے آنے والے
35-30 سال قبل کے رمضان کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ |