وقت ہی سب سے بڑا منصف ہوتا ہے۔
وقت ہی یہ بتاتا ہے کہ کون سچا ہے، کون جھوٹا ہے۔ کون حق پر ہے اور کون حق
پر نہیں ہے۔ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے۔ وقت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ حق کی
بات کرنے والے تعداد میں ہمیشہ کم رہے ہیں اور ہر دور میں معاشرے نے ان حق
کی بات کرنے والوں کی مخالفت کی ہے لیکن آنے والے دور نے بتایا کہ پورا
معاشرہ غلط تھا اور جو چند لوگ حق کی بات کرتے تھے وہ درست تھے۔
سقراط کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ سقراط نے حق کی خاطر زہر کا پیالہ پینا
گوارا کیا لیکن غلط بات کی حمایت نہیں کی۔ بر سبیل تذکرہ سقراط نے زہر کا
پیالہ پیا یہ تو سب جانتے ہیں لیکن سقراط نے زہر کا پیالہ کیوں پیا یہ ہر
کوئی نہیں جانتا۔ سقراط کوئی نیا دین نہیں لایا تھا، کوئی نیا نظریہ نہیں
لایا تھا بلکہ سقراط نے اس وقت کے جابر حکمرانوں کو یہی کہا تھا کہ معاشرہ
میں انصاف قائم کرو، اقرباء پروری نہ کرو، حکومت کے کارندے اپنے اختیارات
سے تجاوز نہ کریں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کریں۔ غریب اور امیر
کےلیے الگ الگ قانون نہ بنایا جائے بلکہ ایک ہی قانون ہونا چایئے۔ یہ وہ
ساری باتیں تھیں جو وقت کے جابروں کو ناگوار گزرتی تھیں اور اس جرم سچائی
کی پاداش میں اس کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ کیا سقراط غلط تھا؟ کیا سقراط
زہر کا پیالہ پی کر ختم ہوگیا؟ نہیں بلکہ وقت نے یہ بتایا کہ سقراط ہی تو
درست تھا اور اس وقت کے حکمران ہی غلط تھے اس وقت کا معاشرہ ہی غلط تھا آج
سقراط امر ہے لیکن اس کو زہر پلانے والوں کوئی نہیں جانتا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بت فروش کے گھر پیدا ہوئے،اس وقت کا پورا
معاشرہ بت پرست تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے حق کو جاننے کی
توفیق دی،اور انہوں نے اس حق کو لوگوں تک پہنچایا، پورے معاشرے نے یہاں تک
کہ بادشاہ وقت نے ان کی مخالفت کی اور ان کو آگ میں ڈالا گیا کیوں کہ ان
لوگوں کے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام غلط تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ
السلام کو ملک بدر کیا گیا۔ لیکن کیا وہ غلط تھے؟ نہیں بلکہ وقت نے یہ
بتایا کہ اس معاشرے میں وہی حق پر تھے باقی پورا معاشرہ غلط تھا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے معاشرے کے لوگوں تک حق پہنچایا اور ان
کی ساری تبلیغ اور مساعی کا نتیجہ بارہ حواری تھے جو ان کے ساتھ تھے باقی
سارا معاشرہ ان کے خلاف تھا اور ان کو غلط کہتا تھا اور وقت کے جابروں نے
اپنی دانست میں ان کو سولی چڑھا دیا ( جبکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ نے ان
کو زندہ اپنے پاس بلالیا اور وہ آج بھی زندہ ہیں) اس وقت کے معاشرے نے ان
کو غلط کہا، ان کی مخالفت کی، ان کو دھتکارا، یہاں تک کہ سولی چڑھایا لیکن
وقت نے بتایا کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے
مٹھی بھر لوگ ہی تو حق پر تھے وہی تو درست تھے باقی سب لوگ غلط تھے۔ یہ وقت
کا فیصلہ تھا۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت حق کا آغاز کیا تو اس وقت کے
بڑے بڑے سرداروں نے اس دعوت کی مخالفت کی۔ مکہ کی تیرہ سالہ تبلیغ کے نتیجہ
میں کچھ ہی لوگ ایمان لائے اور اس وقت کے معاشرے نے اس دعوت کو قبول کرنے
سے انکار کیا، انکار کرنے والوں میں بڑے بڑے سردار بھی تھے، وہ بھی تھے جو
خانہ کعبہ کے متولی اور نگران تھے ( آج بھی کچھ لوگوں کو اس بات کا بڑا زعم
ہے کہ وہ خانہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھ چکے ہیں، خانہ کعبہ کا دروازہ ان کے
لیے کھولا گیا۔ یہی زعم اس وقت کے جابروں کو بھی تھا ) دعوت حق قبول کرنے
والوں کو تپتی ریت پر لٹایا گیا، ان کو اذیتیں دیں گئیں، ان کے پیچھے شہر
کے آوارہ اور بدمعاش لوگوں کو لگایا جاتا تھا جو کہ ان کو تنگ کرتے تھے۔
مذاق اڑاتے تھے۔ کیا وہ چند لوگ غلط تھے؟ اور پورا معاشرہ، اس وقت کے
سردار،اس وقت کے نامی گرامی لوگ درست تھے؟ نہیں بلکل نہیں بلکہ وقت نے
بتایا کہ وہی چند لوگ ہی تو حق پر تھے باقی پورا معاشرہ بمعہ سرداروں اور
حکمرانوں کے غلط تھا۔یہ وقت کا فیصلہ ہے۔
کربلا کا میدان ہے ایک طرف یزیدی لشکر ہے اور ایک طرف حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ 72 لوگوں کے ساتھ خیمہ زن ہیں اور ان 72 لوگوں میں عورتیں اور بچے
بھی شامل ہیں۔ حضرت امام حسین جب مدینہ سے نکلے تھے تو سب نےیہی سمجھایا
تھا کہ چھوڑو، جانے دو کوئی ضرورت نہیں ہے یزید سے مقابلہ کرنےکی ۔ لیکن
حضرت امام حسین رضہ اللہ عنہ حق کی خاطر کربلا تک آگئے۔ جہاں وقت کے
حکمرانوں نے ان کو بے دردی سے شہید کردیا۔ کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ غلط
تھے؟ نہیں بلکہ وقت نے بتایا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہی تو درست تھے۔ وہ
72 لوگ ہی تو حق پر تھے باقی پوری حکومت، پوری یزیدی لشکر غلط تھا۔
فتنہ خلق قرآن کے وقت حضرت امام احمد بن حنبل نے اس کی مخالفت کی کہ قرآن
اللہ کی مخلوق ہے۔ جبکہ وقت کا خلیفہ یہ کہتا تھا کہ قرآن اللہ کی مخلوق ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبل کو سچائی کے جرم میں کوڑے مارے گئے، اور کوڑے بھی
ایسے مارے گئے کہ اگر کسی ہاتھی کو بھی مارے جاتے تو بھی بلبلا اٹھتا لیکن
امام نے یہ کوڑے برداشت کیے، امام کو قید میں ڈالا گیا۔ وہ ان تمام
آزمائشوں سے سرخ رو ہوکر نکلے۔ کیا اس وقت کا خلیفہ اور اس کے چیلے چانٹے
حق پر تھے؟ اور امام احمد بن حنبل غلط تھے؟ نہیں دوستوں وقت نے ایک بار پھر
یہ فیصلہ دیا کہ وہ ایک فرد ہی تو درست تھا اور اس وقت کا خلیفہ اور اس کے
چیلے چانٹے ہی غلط تھے۔ یہ وقت کا فیصلہ تھا۔
ماضی میں اٹھارہ سو ستاون میں مسلمانان ہند نے انگریز کی غلامی کے خلاف علم
بغاوت بلند کیا اور اپنی آزادی کے لیے لڑائی شروع کی یہ بات غاصبوں کے لیے
ناقابل برداشت تھی اور انہوں نے اس جنگ آزادی کو غدر کا نام دیا۔آزادی کے
متوالوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ کچھ کو سولی چڑھایا گیا۔ کچھ کو کالا
پانی ( جزائر انڈمان ) میں بھیج دیا۔ ان کی جائیدادیں ضبط کی گئیں۔ اس وقت
بھی جابر اور غاصب حکمران اور انکے مقامی گماشتے لوگوں کو یہ باور کراتے
رہے کہ آزادی کی بات کرنے والے بیوقوف ہیں۔ غلط ہیں۔ لیکن وقت نے یہ بتایا
کہ یہ چند سرپھرے جن کو بے وقوف کہا گیا وہی درست تھے اور وقت کے حکمران
اور ان کے گماشتے غلط تھے۔
ماضی قریب میں ایک آمر نے پاکستان کے محسن کو رسوا کیا، اس پر ایٹمی
ہتھیاروں کی چوری کا الزام لگایا نہ صرف الزام لگایا بلکہ اس سے جبری طور
پر پورے میڈیا کے سامنے جھوٹا اعترافِ جرم کرایا۔ اس وقت اس آمر کے تمام
حواری بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ میڈیا بھی یہی بات کہہ رہا تھا۔
لیکن کیا وہ سب لوگ درست تھے؟ اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان غلط
تھے؟ نہیں بلکہ وقت نے یہ بتایا کہ جس پر جھوٹا الزام لگایا گیا وہی حق پر
تھا اسے جب رہائی ملی تو لوگ جوق در جوق اس کےگھر پہنچ گئے۔ اس سے عقیدت کا
اظہار کرنے لگے اور جس نے ان کو قید کیا تھا۔ جھوٹا اعتراف کرایا تھا وہ
اور اس کے خوشامدی ہی غلط تھے۔ اس آمر کے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ بغیر
محافظوں کے عوام کا سامنا کرسکے۔ یہ وقت کا فیصلہ تھا۔
آج بھی یہی صورتحال ہے وقت کے حکمران، ان کے چیلے چانٹے اور گماشتے اور
معاشرہ کا مقتدر طبقہ میڈیا کے زور پر عوام کو یہ باور کرارہا ہے کہ جو لوگ
اسلام کی بات کرتے ہیں۔ جو دین کی بات کرتے ہیں جو معاشرے میں اسلامی نظام
کا نفاذ چاہتے ہیں وہ لوگ غلط ہیں۔ آج بھی یہی صورتحال ہےکہ حق کی بات کرنے
والے تعداد میں تھوڑے ہیں، ان کی بات کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے، ان کو
دھتکارا جا رہا ہے۔ لیکن ! لیکن وقت سب سے بڑا منصف ہے اور یہ وقت بتا دے
گا کہ کون غلط ہے اور کون صحیح ہے۔ کون حق پر ہے اور کون صرف حق کی پرستش
کا دعویٰ کررہا ہے اور عملاً باطل کے ساتھ ہے۔ کون جھوٹا ہے اور کون سچاہے۔
وقت ہی بس سے بڑا منصف ہے۔
وقت کے حکمرانوں کی خدمت میں چند اشعار پیش کر کے میں اپنی بات ختم کروں گا
شاعر کہتا ہے کہ
ہر جابرِ وقت یہ سمجھتا ہے کہ محکم ہے میری تدبیر بہت
پھر وقت اسے بتلاتا ہے کہ تھی کند تیری شمشیر بہت
تم تیغ و تفنگ پر نازاں ہو مظلوم کی آہ کو کیا جانو
یہ برق کی صورت گرتی ہے ہوتی اس میں تاثیر بہت
نکلے جو مجاہد کے لب سے وہ چیز ہی دیگر ہوتی ہے
کہنے کو تو ہم کہتے ہیں ہر مسجد میں تکبیر بہت |