جی ہاں یہ بہلاوے ہی تو ہیں جن
کے ذریعے آج تک پاکستانی عوام کو ہر ہر دور میں بے وقوف بنایا گیا ہے، کبھی
امیر المومنین اور اسلامی حکومت قائم کرنے کا بہلاوہ، کبھی شریعت اور اللہ
کی ‘کتاب‘ کا بہلاوہ، کبھی پڑھا لکھا پنجاب کا بہلاوہ کبھی ‘حقوق‘ اور حق
پرستی کا بہلاوہ اور ایک ایسا بہلاوہ اور نعرہ جس کے جھانسے میں ملک کی
پچاس فیصد سے زیادہ عوام آئی ہوئی ہے اور وہ ہے ‘روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا
بہلاوہ۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام کو صرف وعدوں اور دعوؤں سے ہی بہلایا ہے۔
اس میں شک نہیں اس کے رہنماؤں اور کارکنوں نے کسی حد تک پاکستان کے لئے کام
کیا۔ لیکن اپنی کرسی کی خاطر عوام پر ظلم بھی کیا۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ
عوام نے ان کے خلاف بات کی اور انکی اصلی شکل اور آئینہ دکھایا اور بدلے
میں انہوں نے انتقامی کاروائیاں کیں۔ اس کی بڑی مثال بھٹو کا وہ نعرہ ادھر
تم ادھر ہم بنگلہ دیش بننے کا سبب بنا ورنہ اگر سیاسی قیادت صحیح ہوتی تو
پاکستان کے جگر کے دو ٹکڑے نہ ہوتے۔ دوسری طرف احمد رضا قصوری کے والد کیس
میں بھٹو کی اصلی شکل نظر آئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد اصل میں پنجاب کے لوگوں کی ہے۔ ذوالفقار علی
بھٹو مرحوم نے پنجاب سے مل کر پارٹی بنائی۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ
دیکر الیکشن میں سب سے زیادہ سیٹیں پنجاب سے لیں اور ذوالفقار علی بھٹو ملک
کے پہلے، جمہوری وزیر اعظم بنے،۔ کرسی پر بیٹھنے کے بعد، یکدم تبدیلی، تمام
اہم وزارتیں سندھ کے لوگوں کا دینا اور عوام کے ٹیکس کا خرد برد کرنا،
صوبوں کو ایمانداری سے اختیار نہ دینا، عوام کو بے وقوف بنانا، جس کا ثبوت
حال ہی میں ائیر مارشل اصغر خان اور ممتاز بھٹو نے Express TV میں اپنے ایک
انٹرویو میں بیان کیا۔
اب بے نظیر کا دور حکومت لے لیں، وہ دو مرتبہ حکومت میں آئیں، لیکن حکومت
ناکام ہوئی اور ختم ہوئی۔ اگر ان میں سیاسی بصیرت ہوتی، تو وہ کسی نہ کسی
طرح اس کو قائم رکھ سکتی تھیں۔ کیا یہ سیاسی بصیرت تھی کہ انہوں نے لیاقت
باغ میں بر ملا دہشت گردوں کے خلاف تقریر کی، جب کے معلوم تھا کہ ان کی جان
کو خطرہ ہے۔ اپنی جان کی حفاظت کا تو اللہ نے بھی حکم دیا ہے جس کی انہوں
نے پرواہ نہ کی ان کے دور حکومت میں ان کے سگے بھائی کو کھلے عام قتل کردیا
گیا لیکن ان کے قاتلوں کا آج تک کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکا نہ ہی ان کے
دور حکومت میں ان قاتلوں کو سزا ہوئی۔ جب وہ حکومت میں رہتے ہوئے اپنے سگے
بھائی کے اہل خانہ کو انصاف نہیں فراہم سکی تھیں تو عام عوام کو کیا انصاف
ملتا۔ اپنے دور حکومت میں اپنے اتحادیوں کی پیٹھ میں ہی چھرا گھونپنا ان کے
دور حکومت میں ہی شروع ہوا تھا۔
بہلاؤں کا اصلی نقشہ تو ہم زرداری کی حکومت میں دیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کس
طرح سے مشرف حکومت کو ختم کر کے اور عوام کو جھانسہ دیکر پہلے پارٹی کے
شریک چئیرمین بنے اور بعد ازاں ملک کے صدر بنے۔ قوم کا یہ کیسا مزاج ہے،
مسٹر ٹین پرسنٹ کو مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ بنا دیا، ملک کا صدر بنا دیا۔ اگر یہ
مخلص ہوتے تو آتے ہی بے نظیر کے قاتلوں کو سامنے لاتے۔ بلاول بھٹو کے بیان
کے مطابق کہ میں نے اپنے والد کو اس لئے صدر بنایا ہے کہ وہ میری ماں کے
قاتلوں کو انکے انجام تک پہنچائیں گے۔ لیکن یہ راز ابھی تک پوشیدہ کیوں ہے
اس کے کھلنے سے زرداری حکومت کو کیا نقصان اٹھانا پڑے گا؟۔ صدر صاحب کہتے
ہیں کہ مجھے قاتل کا پتہ ہے پھر ایک بہلاوہ دے رہے ہیں۔ جو آدمی اپنی بیوی
اور بچوں سے وفا نہ کر سکے اس سے قوم کیا اچھی امید رکھ سکتی ہے یا رکھنی
چاہیے؟ |